
کیا کشمیربارے مودی کا غرور ٹوٹ گیا؟
منگل 23 جولائی 2019

میر افسر امان
(جاری ہے)
پاکستان بھارت سے ثبو ت مانگتا ہے تو ثبوت پیش نہیں کیے جاتے تھے۔ جو ثبوت دیے بھی گئے ان پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمے قائم کیے گئے۔
عدالتوں نے تفصیل سے مقدمے سن کر حافظ سعید کو باعزت بری کیا ہوا ہے۔ اللہ کرے عمران خان ان شاتر سیاست دانوں کے کسی جال سے ہوشیار رہیں۔بحر حال جو خبرسامنے آئی وہ صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے مسئلہ کشمیر حل کرنی کی پیش کش ہے جسے پاکستان نے منظور کر لیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ موددی نے بھی کشمیر کے حل کے لیے امریکا سے مدد مانگی ہے یہی غرو ر ہے جس کی ہم نے شروع میں بات کی ہے۔ ٹرمپ صاحب نے بیان دیا کہ طویل تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر پر کچھ کر سکوں اور بھارت پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلوقات میں بہتری لا سکوں تو مجھے خوشی ہو گی۔پاکستان نے تو پہلے سے ہی موددی صاحب اور اس قبل کی وزیر اعظموں کو کشمیر پر بات چیت کرنے کا کہتا رہتا ہے۔ موددی نے وزیر اعظم بنتے ہی کشمیریوں کے خلاف پہلے سے زیادہ ظلم اور کشمیر مخالف اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔کشمیر کے لیے بھارت کے آئین میں شک نمبر ۳۷۰ اورA ۲۵ خصوصی طور پر رکھی ہوئی ہے۔جس کے تحت کشمیرے باشندے کے علاوہ اور کوئی بھی کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ اس کو پہلے مہارجہ کشمیر نے، پھرکشمیر کی پارلیمنٹ نے بھی منظور کیا ہوا ہے۔ موددی حکومت نے آتے ہی اس شک کو ختم کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ موددی صاحب جو دہشت گرد ہندو تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن ہیں۔ آر ایس ایس کے حکم پر اپنی انتخابی منشور میں کشمیر بارے اس شکوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس کے خلاف سارے کشمیری جن میں حیریت کانفرنس ، لیبریشن فرنٹ، سابق حکمران کشمیرمحبوبہ مفتی اور تین پشتوں سے کشمیر کے حکمران فاروق عبداللہ بھارت کے سامنے گھڑے ہو گئے ہیں۔جہاں تک ڈونلڈٹرمپ عمران خان کی ملاقات کا تعلق ہے تو ٹرمپ صاحب عمران خان وزیر اعظم پاکستان کے استقبال کے لیے وائٹ ہاؤس کے مین گیٹ تک باہر تشریف لائے۔ وائٹ ہاؤس میں عمران خان اور ٹرمپ کی جو تصویر میڈیا میں آئی وہ برابر کی سطح کی ہے۔ اس میں عمران خان پر اعتماد نظر آتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کی طرح کوئی پرچی ورچی ہاتھ میں نہیں تھی۔پہلے وفود کو شامل کر کے ملاقات ہوئی۔ جس میں پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جنرل قمر جاویدباجوہ، وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد صاحبان شریک تھے۔ بعد میں عمران خان اور ٹرمپ کی ایک گھنٹہ ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں یہ صرف عمران خان اور ٹرمپ کو ہی معلوم ہے۔
ویسے سوشل میڈیا میں یہ کہاجارہا ہے کہ ملک دشمنوں نے عمران خان کے گردگیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ پاکستان کے حساس قادیانی معاملے کے لیے امریکا میں میدان بنایا گیا تھا۔ جس کے لیے توہین رسالت کے پانچ سالہ قادیانی مجرم کو پہلے رہائی دلائی گئی۔ اس قادیانی نے مرحوم سابق گورنر تاثیر کے بیٹے اور ۲۷ رکنی وفد کے ساتھ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرائی گئی ۔جس کی رپورٹنگ اخبارات کی زنیت بنی۔جس میں پاکستانی عدالت سے سزا یافتہ قادیانی ٹرمپ سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں ہمیں کافر کہا جاتا ہے جبکہ امریکا میں ہمیں مسلمان مانا جاتا ہے۔ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ امریکا خود جانتا ہے کہ قادیانی ہنود اور نصارا کی مسلمانوں کے خلاف سازش سے پیدا کیا گیا ہے۔سوشل میڈیا میں جاری مہم میں عمران خان کو قادیانیوں کا حمایتی دکھایا گیا۔ لندن میں ایک انیل مسرت قادیانی کی تصویر عمران خان کے بیٹے،پاکستان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر اسد قیصر،جرنل قمرجاوید باجوہ ، آئی ایس آئی کے ڈاریکٹر آصف غفور اور خود عمران خان کے ساتھ نشر کی گئیں۔ان تصاویر سے ایسا لگتا ہے کہ انیل مسرت کو قادیانیوں کی طرف سے خصوصی طور پر لگایا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم پاکستان کے اس کی وضاعت جاری کرنا چاہیے کہ کیا یہ حکومت پاکستان کا کوئی نمائندہ ہے جو ٹاپ کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے۔ یا قادیانی کا اتنازیادہ اثرورووخ ہے کہ وہ پاکستان کے حکام کی لندن میں پاکستانی سفیر کی طرح ڈیل کر رہا ہے۔اصل میں قادیانی مسئلہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے اس لیے پاکستانی بڑے حساس ہیں۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ عمران خان کی اس سوچ سے سو فی صد متفق ہوں کہ افغانستان کا حل فوجی نہیں مذاکرات ہیں ۔ یہ مسئلہ امریکا طالبان مذا کرات سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ ہم اسی لیے افغانستان سے فوجوں میں کمی کر رہے ہیں۔ پاکستان پر امن حل کے لیے امریکا کی کوششیں میں مدد کر رہا ہے۔ عمران خان نے ٹرمپ سے کہا کہ میں جو دعدہ کروں گا اس پر پورا اُتروں گا۔ ٹرمپ نے پہلے الزام لگایا تھا کہ پاکستان پیسے بھی لیتا ہے اور ہمادی مدد یعنی ڈومور نہیں کرتا۔ وہ تو عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ہم کسی کی لڑائی میں شریک نہیں ہو نگے۔پہلے کی طرح کرائے کی فوجی نہیں بنیں گے۔ آرمی چیف نے بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم نے دنیا میں سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔ اب دنیا ڈور مور کرے۔
پاکستان تو خطے میں امن چاہتا ہے۔ اسی لیے افغان حکومت اور امریکا کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کر ہا ہے۔اس دورے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد کی فضا درست ہو ئی ہے۔ اب چاہیے کہ امریکا نے جو کولیشن فنڈ، جو پاکستان کا حق بنتا ہے، جسے امریکا نے روک رکھا ہے وہ پھر سے جاری ہو جائے۔ افغانستان جنگ میں پاکستان کا ۱۵۰/ ار ب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ ہزاروں فوجی اور سولین شہادتیں ہوئی ہیں۔ اس لیے امریکا کو چاہیے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ برابری کا حصہ دار بنایا جائے۔ بھارت کی ایما پر افغانستان سے جاری دہشت گردی ختم کرائے۔ مسئلہ کشمیر بھارت،پاکستان اور کشمیریوں کو ملا کر حل کروائے۔اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو خطے میں امن قائم ہو جائے گا ۔ عمران خان وزیر اعظم پاکستان کا دورہ امریکا بھی صحیح معنوں میں کامیاب مانا جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.