مندر اور گرودوارہ بنانے والا وزیر اعظم عمران خان!

منگل 7 جولائی 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

ایک طرف مسجد گرانا والا دہشت گرد نریندر داس مودی وزیر اعظم بھارت ہے۔ جس نے بھارت کے شہر اجودھیا چھ سو سال پرانی باری مسجد گرا دی۔ اس پررام مندر تعمیر رہا ہے۔ بھارت میں تعداد مسجدوں کو گرانے کا پروگرام بھی رکھتا ہے۔دوسری طرف مندر اور گرودوارہ بنانے والا امن پسند وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہے ۔ کیا معذانہ ہے دو پڑوسی ایٹمی مملکتوں کے وزیر اعظموں کا۔

ایک طرف ہندو انتہا پسندشیطان صفت انسان ہے، جس کی سرشت میں ہی فساد ہے۔ دوسری طرف مسلم امن پسند رحمان صفت انسان ہے جو فساد کو پسند نہیں کرتا۔
بھارت میں مسلمانوں کی چھ سو سالہ پرانی بابری مسجد جسے مغل سلطنت کے بانی ظہیر ا لدین ن بابر نے تعمیر کیا تھا۔ اس کو آر ایس ایس کے انتہا پسندوں نے غنڈوں نے شہید کر دیا۔

(جاری ہے)

مسلمانوں نے انصاف کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا۔

مگر بھارت کی متحصب سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے وہاں رام مندر بنانے کا فیصلہ دیا۔ بھارت میں لا تعداد مسجدوں کو گرانے کی مہم اب بھی چل رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے پہلے پاکستان میں دو سو مندروں کی فہرت تیار کی تھی ۔ ان مندروں کی تعمیر نو کرنے کے لیے فنڈ مختص کیے۔ کٹاس راج مندروں کی بھی دیکھ بھال کے ہمارے عدالت نے احکامات جاری کیے۔

بھارت کی سکھ اقلیت کے گرو نانک باباکی جائے پیدائش مقدس مقام کرودناناک گرودوارہ کی تعمیر کے لیے چالیس ایکڑ جگہ دی ۔ ہنگامی بنیادوں پر اس پرتعمیرات مکمل کیں۔سکھ برادری کو ان کے مقدس گرودوارے کی زیارت پر آنے کی اجازت دی۔ اب اسلام آباد میں مندر بنانے کی اجازت بھی دے دی۔
 عمران خان وزیر اعظم پاکستان کے ان فیصلوں پراس پر پہلے بھی اور اب بھی مخالف اور حمایت میں دونوں سمتوں سے دلائل دیے گئے۔

اسلام آبادمیں سید پور گاؤں میں پہلے سے ایک خوبصورت مندر موجود ہے۔ شاید ہندووں کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ہندومندر میں پوجاپاٹ کے لیے نہیں آتا۔ اس لیے اسلام آباد میں نئے مندر کی بظاہرضرورت نہیں۔ اسی دوران اسلام آباد میں ہی ایک پچیس سالہ پرانے مسجد کو بھی گرا دیا گیا۔ مسلمانوں میں اس نئے مندر کی اجازت دینے اور اسی وقت اسلام آباد میں پچاس سالہ پرانی مسجد کو این او سی نہ ہونے کے حوالے سے گرا دیا گیا۔

کہا جا رہا ہے کہ مسجدیں تو مودی گراتا ہے عمران خان مسجد گرانے والا کیسے بن گیا۔ کیا اس کے پیچھے کوئی امریکی دباؤ ہے جو اکثر پاکستان میں ناجائز مداخلت کرتا رہتا ہے۔پچھلے دنوں بھی میں پہلے ایک عبدالا شکور نامی قادیانی کتب فرروش کو صدر امریکا ٹرمپ سے ملایا گیا۔ سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر نے مترجم کے فرائض ادا کیے تھے۔شکور نے پاکستانی کے قانون کی خلاف دری کی تھی۔

کیا کبھی پاکستان نے امریکا کے قانون کی خلاف کوئی بات منانے کی بات کی۔ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری حافظہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ۸۶ سال کی قید کاٹ رہی ہے۔ اس پر دہشت گردی کا الزام بھی نہیں لگا تھا۔ امریکا نے کسی پاکستان کے اہلکار کی بات مان کر اسے رہا کیا ۔نہیں ہر گز نہیں۔ پچھے دنوں امریکا کے وزیر خارجہ پمپیو نے بیان دیا تھا کہ پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف قانون سازی کو ختم کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور پورپی یونین کے نمایندوں نے بھی ایسے ہی بیان جاری کیے تھے۔جہاں تک اسلام آباد میں ایک نئے مندر کی تعمیر کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں جماعت اسلامی اسلام آباد اور دیگر شہریوں نے عدالت میں درخواستیں داہر کی۔ عدالت نے مندر کی تعمیر کو روک دیا۔ نہ جانے عمران خان کس کے مشورے پر یہ کام کر رہا ہے۔ عمران خان کی عوام میں مقبولیت کم ہوتی جار رہی ہے۔

عوامی سروے کے مطابق نا اہل اور سزا یافتہ نواز شریف آگے بڑھ رہا ہے اورعمران خان کی پیچھے کی طرف جا ررہا ہے۔
 جہاں تک دہشت گرد ہٹلر صفت مودی کی بات ہے تو اس نے پورے بھارت کو ہندتوا یعنی ہندو انتہا پسند حکومت بنانے کی را پر ڈالا ہوا ہے۔ مودی کہتا ہے بھارت صرف ہندووں کا ہے۔ مسلمانوں کو کہا جا رہا کہ ہندو بن جاؤ۔ نہیں تو پاکستان چلے جاؤ۔

راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی غنڈے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے، جیے شری رام اور بندے ماترم کے نعرے نہ لگانے پر قتل کر رہے ہیں۔ دہشت گرد مودی آر ایس ایس کا بنیادی رکن ہے۔ جب سے بھارت کا وزیر اعظم بنا ہے ، پاکستان کو سبق سکھانے دھمکیاں دے رہا ہے۔کبھی سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کرتا رہا تھا۔ پاکستان پر حملہ کر بھی دیا مگر منہ کی کھائی۔

اب بھی جھوٹ کی بنیاد پر حملہ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ جبکہ بھارت میں سو سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان کو ریاستی دہشت گردی سے دبایا کی جارہا ہے۔ کوئی مظلوم گروہ دھماکہ کرتا ہے تو فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا تا ہے۔ کہتا ہے پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے۔ اب دس ٹکڑے کریں گے۔ لال قلعہ سے تقریر کرتے ہو کہا تھا کہ مجھے بلوچستان اور گلگت بلتستان سے آزادی کے لیے مدد کرنے کے لیے فوج کالز آرہی ہیں۔

مودی نے بھارت کو پاکستان کے خلاف جنگ پر تیار کیا ہوا ہے ۔مودی نے ہٹلر کے قومی برتری والا فلسفہ اپنایا ہوا ہے جوجو در اصل یہودیوں کا نظریہ ہے ۔یہودیوں کہتے ہیں ہم اللہ کے پیارے ہیں۔ بس ذرا سی تکلیف کے بعد سیدھے جنت میں جائیں گے۔ ان کی مذہبی کتاب تلمود میں لکھا ہے کہ صرف یہودی افضل ہیں۔ باقی انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں۔ان کے مال یہودیوں کے لیے حلال ہیں۔

اگر یہودی اور کسی دوسری قوم کے مقدمہ یہودی جج کے پاس آئے تو جج کو یہودی کے حق میں فیصلہ دینا ہوگا۔ویسے بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ آریہ یہودی الانسل ہیں۔آریوں نے ہندوستان پر حملہ آور ہو کر اس کے صدیوں پرانے حقیقی باشندوں،درواڑوں کو غلام بنا لیا تھا۔ درواڑوں پر اپنے گرفت مستحکم کرنے ،ان کے حقوق ضبط کرنے اور مال ہڑپ کرنے کے لیے معاشرے میں چھوت چھات کا نظریہ رائج کیا۔

اونچی ذات برہمن کی ہے جو ا للہ تعالیٰ کے سر سے پیدا ہوئے۔ اس سے کم ذات والے ویش اللہ تعالیٰ کے پیٹ سے پیدا ہوئے ۔سب سے نیچی ذات والے شودراللہ تعالیٰ کے پاؤں سے پیدا ہوئے۔ اس نظریہ پر درواڑوں کی زمینیوں پر قبضے کر لیے۔ تجارت سے بے دخل کر دیا۔ ان کی بستیاں اپنی بستیوں سے باہر کر دیں۔ ان سے سڑکوں کی صفائی اور لیٹرینیں صاف کرنے کے کام پر لگادیا۔

وہ مندر نہیں جا سکتے ۔اگر کسی چیز کو شودر کا ہاتھ لگ جائے تو وہ ناپاک ہو جاتی ۔ ایک لمبی کہانی ہے۔ اسی ڈاکٹرائین مسلمانوں پر بھی لاگو کر رہا ہے ۔جس کو حقیقت جاننی ہے وہ گجرات میں مسلمانوں کو دیکھ لے۔ وہ شہر سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ ان کی بستیوں میں کسی قسم کا سوریج، پانی اور سڑک کا انتظام نہیں۔
ان حالت میں اسلام آباد میں نیا مندر بنانے اور مسلمانوں کی پچاس سالہ مسجد کو شہید کرنے پر عوام میں غم و غصہ ہے۔

عمران خان کو اپنے رویے سے رجوع کرنا چاہیے۔ پہلے بھی امریکا پاکستانی حکمرانوں سے عوام دشمن کام کرواتا رہا ہے۔ اس کاتازہ نشان عبرت ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہے ۔جو امریکا کے کہنے پر چھ مسلمانوں کو امریکا کے حوالے کیا تھا۔ جہاد کا مذا ق اُڑاتا تھا۔ ملک میں اسلام دشمن روشن خیال معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔ عمران خان وزیر اعظم پاکستان کو عوام کے جذبات کا خیال رکھنا ہو گا۔اللہ پاکستان کو مشکلوں سے بچائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :