مجلس مذاکرہ بسلسلہ یوم نفاذ اُردو

بدھ 9 ستمبر 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اسلام آباد کی سماعت گاہ میں تحریک نفاذ اُردو پاکستان کی طرف سے” قومی زبان اُردو کو درپیش چیلنجز اور نفاذکے لیے مطلوبہ حکمت عملی“ کے عنوان سے مجلس مذاکرہ منعقد کی گئی۔ اس مجلس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز تھے۔مہمان خصوصی، چوہدری محمد ابراہیم ضیاء سابق چیف جسٹس عدالت عظمیٰ آزاد جموں وکشمیر تھے۔

شرکاء میں شہر اسلام آباد کے ماہر تعلیم، صحافی، دانشور، مصنف،تجزیہ نگار وغیرہ تھے۔ اس سے قبل پورے پاکستان میں ایسے کئی پروگرام منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔
 اس مذاکرے کے محترم شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ اُردو برصغیر کے مسلمانوں کی قومی زبان ہے۔ اسے پاکستان کی قومی زبان بنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

اگر اُردو زبان کے ارتقاء کی بات جائے تو برصغیر میں پہلے فارسی اورعربی زبان رائج تھی ۔

پھر اُردو رائج ہوئی ۔ انگریز نے فارسی اُردو کو بتدریج ختم کر کے انگریزی زبان رائج کی۔ پھر جاتے جاتے ہوئے اپنے پیچھے کالے انگریز چھوڑ گئے۔ ان کالے انگریزوں نے انگریزی کواپنے لیے وجہ افتخار سمجھا۔ ان کے منہ سے بولا ہوا کوئی فقرہ مکمل نہیں ہوتا، جب تک اس کچھ انگریزی کے الفاظ شامل نہ کیے جائیں۔ اے کاش! کہ اپنے آقاؤں کی زبان انگریزی کے، انہیں اپنے زبان اُردو پر فخر کرنا چاہیے تھا۔

اُردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، جو دنیا کے ہر کونے میں بولی،سمجھی اور لکھی جاتی ہے ۔ اس کے ارتقاء کی بات کی جائے تو یہ لشکری زبان ہے۔ کبھی اس کو ریختہ بھی کہا گیا۔ یہ برصغیر کے شعراء کی زبان ہے۔مرزاغالب فرماتے ہیں:۔
 ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اب بھی ہندوستان میں عوام کی رابطہ کی زبان اُردوہے۔

بھارت کے فلم اور شعراء کی زبان اُردو ہے۔ ہندوستان نے اپنی قومی زبان ہندی بنا دی ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی ا فوج میں برصغیر کے لوگ بھی شامل تھے۔ اس طرح بصرہ میں اسلامی فوجی چھاونی میں ہندی جو بعد میں اردو بنی رابطہ کی زبان کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ پاکستان کے سارے صوبوں نے اُردو کو رائج کرنے کے لیے قرادادیں پاس کر رکھی ہیں۔

۱۹۴۸ء میں ایک جلسہ عام میں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ کوئی قوم بھی ایک مشترکہ زبان کے بغیر ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتی ۔ اس لیے پاکستان کی قومی زبان اُردو اورصرف اُردو ہی ہو گی۔ صوبے اپنے طور پر اپنی مقامی زبانیں رائج کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ۱۹۵۶ء کے مشترکہ آئین میں بھی اُردو اور بنگالی کو قومی زبانیں مانا گیا۔

پھر پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بنگلہ دیش نے بنگالی زبان کو قومی زبان بنالیا۔ مگر پاکستان کے کالے انگریز حکمرانوں نے ابھی تک اُردو کو قومی زبان نہیں بنایا۔ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی اُرور کو قومی اور دفتری زبان رائج کرنے کا کہاگیا۔ اُردو کے عملی نفاذ کا قوم کے سامنے پندرہ سال کاایک وقت بھی دیا گیا۔ پھر پاکستان کی سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی پاکستان اور وکلاء کی درخواستوں پر اُردو کے نفاذ کا حکم بھی جاری کیا۔

مگر برا ہو پاکستان کی بیروکریٹس کا اور نا اہل انتظامیہ کا، کہ اتنے روشن احکامات کے باوجود آج تک اُرود کے نفاذ کو عملی جامعہ نہیں پہنایا گیا۔ عدالتوں میں ججز حضرات اپنی ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اُردو کے بجائے انگریزی میں فیصلے لکھتے ہیں۔ مقتدرہ اُردو نے مرکزی اور صوبائی درخواست فارموں کو انگریزی سے اُردو میں تراجم کر حکومت کودیے۔

مگر اب بھی انگریزی میں ہی درخواتیں وصول کی جارہی ہیں۔ کیا یہ سب لوگ قانون اور آئین پاکستان کی اعلانیہ مخالفت نہیں کر رہے؟ کیا ان کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے؟کالے انگریزوں کے بچے عیسایوں کے مشنری انگلش اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان سروسز کے مقابلے کے ا متحانوں میں پاس ہو جاتے ہیں۔ بیروکریسی (نوکر شاہی) میں شامل ہو جاتے ہیں۔

غریب عوام کے بچے جو اُردو میڈیم اسکولوں سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں وہ لائق ہونے کے باوجود مقابلے کے امتحانوں میں فیصل ہو جاتے ہیں۔ یہ طبقاتی نظام کب ختم ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ انگریزی سائنس اور جدید علوم کی زبان ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ تو اس کے لیے عرض کرنا ہے کہ، کیافرانس،جرمنی، چین ،ترکی اور جاپان وغیرہ نے اپنی مقامی زبانوں کو قومی رائج کر کے ترقی کے منازل طے نہیں کیے؟غریب ملکوں کو بین القوامی استعمار نے اپنی پالیسیاں پر عمل درآمد کے لیے قرضوں کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔

آئی ایم ایف اور دنیا کے مالیاتی ادارے جب امداد دیتے ہیں تو اس میں اپنی شیطانی تہذیب کو مسلط کرنے کے معاہدوں کی کچھ شقوں میں خفیہ شرائط رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ اگریزی زبان اور اپنی شیطانی تہذب کومسلط کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق صاحب کے حکم پر پورے پاکستان میں یوم نفاذ اُردو کے اجتماہات منعقد ہوئے۔ اس سلسلہ میں جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے شعبہ علم و ادب قلم کاروان کے تحت یوم نفاذاُردو پر ایک پروگرام ۸/ ستمبر کو رکھا گیا۔

اس کی صدارت سابق ممبر قومی اسمبلی اور جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب میں میاں محمد اسلم نے کی۔ اسٹیج سیکر ٹری کے فرائض سیکر ٹیری قلم کاروان راقم نے ادا کیے۔
 تحریک نفاذ اردوپاکستان کے صدر جناب عطالراحمان چوہان کا کہنا ہے کہ تحریک اُردو نفاذ پاکستان نے ۱۹۱۵ء کے بعد کام کرنا شروع کیا۔ چاروں صوبوں اور میں اپنی تنظیم سازی مکمل کر لی۔

پاکستان میں سیمیناروں اور مختلف اداروں سے ملاقاتیں کر کے اُردو کو قومی زبان رائج کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ عدالتی کاروائی کے ساتھ ساتھ ملک میں اُردو زبان کے نفاذ کے لیے جو تنظیمیں پہلے سے کام کر رہیں تھیں ان کو بھی کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔پاکستان کے ڈیڑھ کرروڑ لوگوں سے نفاذ اُردو کے حق میں ایک فارم پر دستخط کرانے کے مہم جاری ہے۔

ٹارگٹ پورا ہونے پر وزیر اعظم عمران خان کی خدمت میں اسے پیش کیا جائے گا۔پاکستان کے پارلیمنٹ کے سامنے کثیر تعداد میں پاکستان کی شہریوں کو جمع کر کے نفاذاُردو کا مطالبہ رکھا جائے گا۔ اگر پھر بھی حکومت نے اُردو کو نافذ نہ کیا تو آخر میں عوام سے رجوع کیا جائے گا۔ پاکستان بھر میں پر امن مظاہروں کا انتظام کر کے حکومت وقت کو اُردو کے نفاذ کے لیے مجبور کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :