سید علی گیلانی

بدھ 22 ستمبر 2021

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

آزادیِ کشمیر کی توانا آوازسید علی گیلانی1929ء کو وولر جھیل کے کنارے واقع گاؤں زوری منس کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد سید پیر شاہ گیلانی، نہر زینہ گیر کی کھدائی کرنے والے مزدوروں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنے نو مولود بیٹے کا نام کشمیر میں دعوت کا چراغ روشن کرنے والے بزرگ سید علی ہمدانی کی نسبت سے رکھا۔ ان کی پرورش اور ذہنی نشو نما ایسے ماحول میں ہوئی جو اہل کشمیر کے لیے بے کسی، بے چارگی ،ظلم و ستم اور غلام کا دور تھا۔

تقسیم ہند کے وقت شیخ عبداللہ اور ہری سنگھ کی ملی بگھت نے کشمیر کے بھارت سے نام نہاد الحاق کا فراڈ کیا گیا۔ ان مایوس کن حالات میں سید علی گیلانی کی رسائی علامہ شیخ محمد اقبال شاعر اسلام کے حیات آفرین کلام اور سید ابو الا علیٰ مودودی کے انقلاب آفرین لٹریچر تک ہوئی۔

(جاری ہے)

سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے امیر سعدالدین سے فکری تربیت حاصل کی۔

اس کے بعد سید علی گیلانی قافلہ سخت جان جماعت اسلامی میں شریک ہوئے۔ ان دنوں میں آپ کی تقریروں کے جملے کچھ اس طرح کے ہوتے تھے۔”میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے نام نہاد الحاق کو نہیں مانتا، میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں، اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کا پھندا بھی چومنا پڑے اس کو اپنے سعادت سمجھوں گا“اس بے باک لجے پر بھارت نے سید علی گیلانی کو پہلی بار 28/ اگست 1962ء کو گرفتار کر کے حوالہ زنداں کر دیا۔

سید علی گیلانی ستمبر 1963ء کو رہا ہوئے۔رہائی کے بعد جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے سیکرٹیری جنرل منتخب ہوئے۔ پھر 7/ مئی 1965ء سے مارچ 1967ء تک دوبارہ گرفتار کر لیے گئے۔ یوں1977ء تک زیاہ عرصہ جیل میں ہی گزارا۔1972ء میں جماعت اسلامی نے کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔حکومتی سطح کی ذبردست دھاندلی کے باوجود سید علی گیلانی چار ساتھیوں کے ساتھ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

1977ء میں بھی انتخاب جیتا۔ پھر 1987ء سے 1989ء تک کشمیر اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف کے پارلیمانی قائد رہے۔ 1989ء میں جب بھارت نے کشمیریوں پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے تو احتجاجاً ساتھیوں کے ساتھ اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک کو عوامی سطح پر منظم کرنا شروع کیا۔تحریک حریت کے نام سے وسیع تر اتحاد قائم کیا۔ہفت روزہ ”آذان“ سری نگرکی ادارت سے وابسطہ رہے۔

اسلامی انقلاب اور بھارتی سامراج سے کشمیر کی آزادی کے پیغام کی ترویج کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ سید علی گیلانی ایک نیک نفس انسان اور صوفی مشن مجاہد تھے۔ وہ کشمیر کی آزادی کی علامت اور وقت کی استبدادقوت متعصب بھارت کے خلاف جہاد عزیمت کا عنوان تھے۔ 16/ دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکا کے وقت اس نحیف انسان کی گرج دار آواز اس طرح گونجی کہ”پاکستان اگر خدا ناخواستہ موجودہ حالات میں اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ آزادی اور حق خوداداریت کے حصول میں ہماری مدد کر سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے حق ہی سے دسبردار ہوجائیں جبکہ ہماری مدد کے لیے خو اللہ تعالیٰ موجود ہے۔

ہم اس کی رضا کے لیے کام کر رہے ہیں“
 باربار الیکشن میں شامل ہونے اور بھارت کے بیلٹ بکسز میں جعلی ووٹ ڈالنے اور ا لیکشن میں بار بار دھاندلی پر تنگ آنے کے بعد کشمیریوں نے مسلح جد و جہد شروع کی۔ الیکشن میں اس دھاندلی کو مودی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ کے اندر بیا ن کیا۔ امیت شاہ نے کانگریسی حکومتوں کے وقت کشمیر میں کشمیریوں کو جعلی ووٹوں سے شکست دینے کے ثبوت پیش کیے، جو اس بات کا ثبوت ہے۔

بھارت نے کشمیر یوں پر ظلم و ستم کے سارے حربے استعمال کرلیے۔ مگر کشمیری سید علی گیلانی کی قیادت میں ڈٹے رہے۔ بھارت نے ہرچھٹے کشمیری کے پیچھے ایک فوجی لگا دیا۔ہٹلر صفت مودی نے 5/اگست 2019ء کو بھارت کے آئین کی دفعہ 370 اور 35/ اے میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر آئینی طور پر ختم کے کے کشمیر کے تین حصے کر کے بھارت میں ضم کر لیا۔اس وقت سے 9/ لاکھ بھارتی فوج لگا کر بھارت نے کرفیو لگایا ہوا ہے۔


سید علی گیلانی کو بھارت نے صدر بنانے کا بھی جھانسہ دیا تھا۔ مگر سید علی گیلانی کا مرنا جینا کشمیر اور پاکستان کے ساتھ تھا۔ لہٰذا اس نے بھارتی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ بھارت نے کشمیر میں ترقیاتی کاموں کا ڈھول ڈالا۔ مگر سیدعلی گیلانی نے تاریخی بیان دیا تھا کہ”بھارت کشمیر کی سڑکوں پرتار کول کے بجائے سونا بھی بچھا دے تب بھی کشمیر اپنے خود اداریت کے مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے“۔

سید علی گیلانی پہاڑ جیسے ول والے انسان تھے۔ حزب الماجدین کے نوجوان کمانڈربرہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری نوجوانوں میں آزادی کی نئی اُمنگ پیدا ہوئی۔ کشمیر کے گلی کوچوں میں آزادی کے نعرے گوجنے لگے۔ ہم پاکستان ی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔ بھارتی کتوں کشمیر سے نکل جاؤ۔ ہم پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بھارت سفاک فوجیوں نے گلی کوچوں میں لاشیں گھرانا شروع کیں۔

روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی سبز ہلالی جھنڈے میں لپیٹ کر شہیدوں کو کو دفنا شروع ہوا۔ اس دوران سید علی گیلانی کو ان کے گھر کو سب جیل قرار دے کر قید رکھا گیا یہ قید ان کی شہادت تک جاری رہی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والا بھارت کشمیریوں کے لیے بنیاد حقوق کے سارے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے۔ سید علی گیلانی کافی عرصہ سے بیمار تھے۔

اپنے گھر سب جیل میں 92 سال کی عمر میں ہی شہید ہوئے۔ ان کی وصیت کے مطابق سری نگر کے شہدا قبرستان میں دفن نہیں کرنے دیا گیا۔ رات ہی میں سید علی گیلانی کے بچوں سے سید علی گیلانی کی میت چھین کر بھارتی سفاک فوج کی نگرانی میں دفن کر دیا۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ کہاں گئیں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے چیمپئین؟ کیا ایسا ظلم کسی جمہوری مملکت میں ہوسکتا ہے جتنا ہٹلر صفت مودی کی نام نہاد دنیا کی سب ست بڑی م نہادجمہورت میں کیا گیا؟
آزادی ہند کے بین ا لاقوامی معاہدہ کے جہاں ہندو آبادی زیادہ وہاں بھارت اور جہاں مسلم آبادی وہاں پاکستان کی حکومت قائم ہو گی۔

بھارت نے مسلمانوں کی آبادی والے کشمیر میں فوجیں داخل کر کے قبضہ کر لیا۔ پاکستانی فوج ،کشمیریوں اور قبائلیوں نے موجودہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو مجائدین نے راجہ کی فوجوں کو شکست دے کر آزاد کر لیا۔ بھارت خود اقوام متحدہ میں جنگ بندی کرانے اور کشمیریوں کو حق خواداریت دینے کا وعدہ کر کے آیا تھا۔ مگر چانکیہ کوٹلیہ سیاست کا پر چارک کرنے والا بھارت اپنے وعدہ سے رفتہ رفتہ مکر گیا۔

سید علی گیلانی ساری زندگی کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی قرادادوں کو عمل جامہ پہنانے کی جد وجہد میں لگے رہے۔ سارے شہدوں کو پاکستانی پرچم میں دفناتے رہے۔ ان کا آخری دم تک یہ نعرہ تھا ”ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“ سید علی گیلانی کے نعرے میں جان اس وقت پڑھ سکتی ہے کہ حکومت پاکستان جہاد کا اعلان کرے ۔ مایا کی پوجا کرنے والا بھارت ،پاکستان کی جہادی ذہین رکھنے والوں کے سامنے ٹک نہیں سکے گا ۔

کشمیر جہاد سے ہی آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ ملے گا ۔سید علی گیلانی اب ہم میں نہیں رہے۔ اللہ سید علی گیلانی کی روح کو کروٹ کروٹ سکون نصیب کرے آمین ۔خوشی کی بات ہے کہ عمران خان حکومت نے سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی اور الحاق پاکستان کے لیے ساری زندگی کی جد و جہد کے اعتراف پر پاکستان کے اعلی ٰ اعزازات سے نواز ا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :