پنجاب کا ٹی وی اور کارپوریٹ فارمنگ

پیر 28 جون 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

ہفتہ رفتہ میں بہت سے سیاسی موضوعات بنے جیسے کہ آصف زرداری کے لاہور میں ڈیرے، مختلف سیاسی جماعتوں،ساتھ چھوڑ جانے والے دیرینہ رفیقوں،حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں، پنجاب کے ایک اہم سیاستدان میاں منظور وٹو سمیت اہم سیاسی رہنماؤں کی پیپلز پارٹی میں دوبارہ  شرکت،وزیر اعظم عمران خان کا خواتین کے لباس بارے بیان جس پر مخالفین نے طعن و طنز کے تیر و نشتر چلائے اور وہ بھی  اندھا دھند،مگر ان معاملات پر یار لوگوں نے جی بھر کے بھڑاس نکالی اور دور دور کی کوڑیاں لائے سو راقم نے ان موضوعات کو زیر بحث لانے کے بجائے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دو اہم اقدامات پر قلم اٹھانے کا سوچا  ، ایک ایشو پنجاب کی بھلائی کیلئے اور دوسرا کسان اور زراعت کی ترقی کے حوالے سے ہے۔

(جاری ہے)


وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے انقلابی اور وقت کی اشد ضرورت کے تحت  فیصلہ لیتے ہوئے زراعت میں کارپوریٹ فارمنگ کو متعارف کرانے کی پالیسی وضع کرنے کا اعلان کیا ہے  اور آئندہ چند روز میں پالیسی مرتب کرنے کی ہدائت  بھی جاری کر دی ہے،شعبہ زراعت کو بہت پہلے صنعت کا درجہ دیدیا جاتا تو حکومت کے محصولات میں بھی اضافہ ہوتا اور  زرعی اجناس میں بھی ملک خود کفیل ہو جاتا،پھر گندم،چینی،کینولہ آئل وغیرہ درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑتی،درآمدی اشیاء مہنگی ہونے کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑتا،زرمبادلہ کا ضیاع ہوتا ہے اور سبسڈی دینے پر حکومت کو خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے،مثلاً حال ہی میں ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے گندم درآمد کرنا پڑی،پنجاب میں گندم کی خریداری کا سرکاری نرخ 1800روپے فی 40کلو گرام ہے،جبکہ درآمدی گندم2600روپے 40کلو گرام کے حساب سے خریدی گئی،اور فاضل رقم حکومت کو قومی خزانے سے ادا کرنا پڑی،لیکن اگر ایگریکلچر فارمنگ کو ماضی کی حکومتیں اہمیت دیتیں اور اس میں کارپوریٹ کلچر متعارف کرایا جاتا تو مہنگی گندم درآمد نہ کرنا پڑتی۔


کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ پالیسی کے تحت چین کے سرمایہ کاروں کو اراضی دی جا سکے گی،جو زراعت کی ترقی کیلئے جدید خطوط پر منفرد انداز میں کام کریں گے،عثمان بزدار نے بتایا کہ اعلیٰ اور معیاری بیج کیلئے ریسرچ پر فوکس کیا جائے گا،جس کیلئے چینی کمپنیوں کو فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں سہولیات فراہم کی جائیں گی،اس طرح نہ صرف فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ممکن ہو گا بلکہ فصل پر لاگت بھی کم آئیگی جس سے دیہی علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے نئے مواقع پیدا ہونگے،واضح رہے کہ زرعی شعبہ کی ترقی بھی سی پیک منصوبہ کا حصہ ہے،اس اقدام سے کم زمین رکھنے والے کاشتکار بھی حکومتی پالیسیوں سے فیض یاب ہو سکیں گے،زراعت کی ترقی سے کسان خوشحال ہو گا،مہنگائی کے جن پر قابو پایا جا سکے گا،کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ سے کسان کو آڑھتی اور مڈل مین سے نجات ملے گی اور اپنی فصل کا مناسب معاوضہ حاصل کرنا آسان ترین ہو جائیگا،یہ اقدام اگرچہ بہت تاخیر سے کیا گیا مگر عثمان بزدار کے وژن کی تعریف نہ کرنا بخیلی ہو گی جنہوں نے اس انقلابی اقدام کا فیصلہ کیا۔


ایک اطلاع کے مطابق پنجاب حکومت نے اپنا ٹیلیوژن چینل قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے،یہ بھی عثمان بزدار کا ایک اہم اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدام ہے،پنجاب بڑی تیزی سے اپنی زبان اور ثقافت سے محروم ہو رہا ہے،اس ضمن میں سکھ بھائیوں کی مثال نہ دینا بھی بخیلی ہو گی جو اپنی زبان ،روایات،رسوم و رواج کو فروغ دے رہے ہیں،بھارت سے ہجرت کر جانے والے سکھ کمیونٹی کے افراد نے یورپ،امریکا میں بھی اپنی زبان اور روایات کو مٹنے نہیں دیا اور ان کی نئی نسل کھلے ڈھلے ماحول میں پرورش پانے کے باوجود نہ صرف پنجابی زبان سے اپنا تعلق برقرار رکھتی ہے بلکہ وہ اپنی روایات اور ثقافت کو بھی پروان چڑھا رہے ہیں،بھارتی پنجاب کی پنجابی فلم انڈسٹری اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور سکھ قوم کو روایات اور کلچر کیساتھ زبان سے بھی جوڑے ہوئے ہے،میڈیا کا ہمیشہ سے ابلاغ میں اہم کردار رہا ہے،آج ہم جیسے  پنجابیوں کے بچے اپنی ماں بولی سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں،بلہے شاہ،سلطان باہو،میاں محمد بخش،حافظ برخوددار،وارث شاہ اب قصہ ماضی ہوتے جا رہے  ہیں،پانچ دریاؤں کی دھرتی کے رسوم و رواج،روایات،ثقافت بھی قصہ پارینہ بن  رہی ہیں ،ضرورت ہے اس ثقافت اور تابندہ روایات میں نئی روح پھونکنے کی،یہ کام میڈیا کے ذریعے ہی ممکن ہے،یہ اقدام نہ کیا جاتا تو شائد آئندہ چند سال میں پنجاب کے بڑے شہروں میں  ماں بولی پنجابی کتابوں میں دفن ہو جاتی۔


سرائیکی پنجاب کی دوسری بڑی زبان ہے،اس زبان میں پائی جانے والی مٹھاس، سلاست،روانی،ملائمت،موسیقیت،نغمگیت کو دنیا مانتی ہے،بابا غلام فرید،خواجہ غلام فرید،شاکر شجاع آبادی،دیگر معروف شاعروں کا سرائیکی کلام آج بھی روح اور سماعت کو تازگی فراہم کرتا ہے،سرائیکی وسیبوں کی بھی اپنی روایات،ثقافت ہے،اپنے رسم ورواج ہیں،ایک تاریخ ہے،مگر بتدریج معدوم ہو رہی ہے،پنجابی اور سرائیکی میں ادب و سخن پر کام کرنے والے آج بھی موجود ہیں مگر ان کو کوئی جانتا ہی نہیں،ضرورت ہے ان کی شخصیت اور کام کو عام کیا جائے،تاکہ مان بولی میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور صحت مند مسابقت شروع ہو سکے،یہ سب کسی ٹی وی چینل کے بغیر ممکن نہ تھا،اس   چینل کے ذریعے پنجاب حکومت اپنی پالیسیوں،اقدامات،منصوبوں کو بھی متعارف کرائے گی اور یہ اس کا حق ہے، جبکہ  اس چینل کے ذریعے سے پنجاب اور پنجابی کی جو خدمت انجام دینے کا منصوبہ ہے وہ ازخود بہت بڑا اور اہم ہے۔


دیکھا جائے تو زراعت اور پنجاب بھی لازم و ملزوم ہیں،جہاں زراعت کا نام آئے گا وہاں ہری بھری لہلہاتی فصلوں کا تصور ذہن میں ابھرے گا،زراعت اہل پنجاب کا قیم پیشہ ہے،آج بھی اس کی اتنی ہی ضرورت  ہے   جتنی ماضی میں تھی بلکہ شائد اس سے زیادہ ہے،اور مستقبل میں مزید زیادہ ہو جائیگی،زندہ قومیں اپنے ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی راہیں تراشتی ہیں،عثمان بزدار کی طرف سے   زراعت کو کارپوریٹ فارمنگ میں بدلنا وقت کی ضرورت تو ہے مگر مستقبل کیلئے یہ نا گزیر ہے،اسی طرح پنجابی اور سرائیکی ثقافت کا فروغ بھی انتہائی اہم ہے،ان اقدامات کے دور رس نتائج برآمد ہونگے اور مستقبل میں عثمان بزدار کو مورخ فراموش نہیں کر سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :