مہنگائی ،وجوہات اور انتظامیہ

جمعرات 11 نومبر 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

کسی بھی زاویہ سے پرکھا جائے تو اس وقت تحریک انصاف حکومت کو اگر کوئی چیلنج درپیش ہے تو وہ مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمت میں روز افزوں اضافہ ہے،آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی کا انحصار بھی مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں مضمر ہے،اپوزیشن کے پاس بھی اگر حکومت مخالف عوام کو متحرک کرنے کیلئے کوئی حقیقی عوامی ایشو ہے تو وہ مہنگائی ہی ہے،اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کی رائے متضاد ہے مگر دونوں مہنگائی کی اصل وجوہ سے بے خبر ہیں یا دانستہ طور پر ان کی نشاندہی سے گریزاں ہیں نتیجے میں عوام مہنگائی کی چکی میں دن رات پس رہے ہیں،وزیر خزانہ شوکت ترین نے ادارہ شماریات کو مہنگائی کی شرح کا تعین کرنے کی ہدائت جاری کی ہے،ہول سیل اور پرچون مارکیٹ میں قیمتوں کے فرق کی نگرانی کا بھی طریقہ کار اپنانے کی ہدائت دی گئی ہے،یہ ادارہ ملک کے 35شہری سے365 اور اور27دیہی علاقوں سے 244 اشیاء کی قیمت کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے،اوسط نکالنے کے بعد مہنگائی کی شرح کا تعین کیا جاتا ہے جو غیر حقیقی ہوتا ہے اور عموماً قیمتوں سے مطابقت نہیں رکھتا،گزشتہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی کی شرح10.7فیصد تھی رواں سال تناسب6.5فیصد رکھنے کا ہدف تھا مگر اس پر عمل نہ ہو سکا،بد قسمتی سے افراط زر کی شرح 8.7فیصد ہے،پٹرولیم مصنوعات کی اور ایندھن کی قیمت میں اضافہ بھی اس کی ایک وجہ لہے،اس سب کے باوجود عالمی مالیاتی ادارہ نے اپنی رپورٹ میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو خطرہ کی گھنٹی ہے۔

(جاری ہے)


حکومتی ماہرین مہنگائی کو عالمی منڈی سے منسلک کر رہے ہیں یہ بھی ایک وجہ ہے مگر ڈالر کی قیمت میں روزانہ اضافہ عالمی منڈی کیوجہ سے نہیں جس کے گہرے اثرات قیمتوں پر پڑتے ہیں،آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول کیلئے مذاکرات کے دوران ہی بجلی،پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کیا گیا یہ اضافہ بھی مہنگائی پر اثر انداز ہواء،ماہرین عالمی منڈی کے جواز کو مشروط طور پر تسلیم کرتے ہیں اور ان کے نزدیک مقامی وجوہات زیادہ قیمتوں کو متأثر کرتی ہیں،جس کا جائزہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔


جو سبزی کسان سے دس روپے کلو میں خریدی جاتی ہے وہ شہر کی گلیوں میں 80 سے100 روپے کلو فروخت ہوتی ہے،درآمدی اشیاء پر بھی حکومت کا کوئی چیک نہیں،خریدار سے 17فیصد سیلز ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے مگر حکومتی خزانہ میں جمع چار فیصد جمع کرایا جاتا ہے،سب سے اہم حکومت کے پاس صنعتی پیداوار کی گنتی کا کوئی میکنزم نہیں،خریدو فروخت ساری کیش پر ہوتی ہے جس کے باعث غلط اور انڈر انوائس سے بھی نہ صرف مہنگائی کو جواز ملتا ہے بلکہ ٹیکس کی چوری بھی آسان ہو جاتی ہے، درآمد ی مال کی ترسیل میں مشکلات ہوں گی لیکن مارکیٹ جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سوئی سے گاڑی تک ہر چیز باہر سے آ رہی ہے،22 کروڑ لوگوں  کی مارکیٹ میں ’میڈ ان پاکستان‘کچھ بھی نہیں اور  جو ہے اس کی قیمتیں بھی ا س لیے زیادہ مانگی جاتی ہیں کہ خام مال نہیں ملتا،چینی بحران میں خود حکومت یہ اعتراف کر رہی ہے کہ مافیا نے اس دوران صارفین کی جیبوں پر 600 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا،سوال یہ ہے کہ جس ملک میں ماہ مبارک رمضان میں پہلے روزے ہی آلو پیاز کی قیمتیں دو سے تین گنا بڑھا دی جائیں تو یہ ایک دن میں کتنا بڑا ڈاکہ ہو گا،شائد یہ بھی کئی سو ارب روپے ہوں، ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ ذخیرہ اندوز کیسے کام کرتے ہیں؟ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کاحل کیا ہے؟حالانکہ  پاکستان کو بھی اسی طرح کرنا چاہئے جس طرح جدید دنیا نے کیا ہے، دنیا نے مارکیٹ کھلی چھوڑ کر اس میں مسابقت کا رجحان پیدا کیا ہے جو پاکستان میں بالکل نہیں ہے،پاکستان میں اس پر تھوڑا سا انتظامی  چیک اینڈ بیلنس رکھ کر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔


پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے، جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے 10 گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے،بجلی کا جو بلب 50 روپے کا درآمد کیا جاتا ہے وہ صارف کو 150 روپے میں ملتا ہے،اس کا مطلب ہے کہ درمیان سے آڑھت کو نکال دیں تو صارف کو سستی چیزیں مل سکتی ہیں،اس مقصد کے لئے یا تو بڑی بڑی سپر مارکیٹ  چینز بنانا ہوں گی  یا پھر وال مارٹ، کاسکو  کی طرح کے انٹرنیشنل سپر سٹورز  رواج دینا ہوگا، یہ اشیائے خورونوش بہت بڑی  مقدار میں خریدتے ہیں اور عموماً براہِ راست کسان سے یا فیکٹری سے مال اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں وہ چیزیں آڑھتیوں سے بھی سستی ملتی ہیں، اگر ایک ہی شہر میں پانچ دس بڑے سپر سٹورز کی چینز موجود ہوتی ہیں تو ان میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے اور ہر کوئی صارف کو سستی سے سستی اشیا ء فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی خود بخود کنٹرول رہتی ہے، جو اشیا ء  درآمد ہوتی ہیں وہ بھی یہ سپر سٹور خود کرتے ہیں اس لئے درمیان والا ہاتھ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے صارف کو انتہائی سستی اشیا ء میسر آتی ہیں، اس کا ایک فائدہ لوکل مینوفکچررز کو بھی ہوتا ہے کیونکہ چیزیں بنانے سے کہیں زیادہ مشکلات انہیں مارکیٹ کرنے میں آتی ہیں،جب  ایک ہی سپر سٹور آپ کی فیکٹری کا مال اٹھا لیتا ہے تو مینوفکچرنگ بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور جو چیزیں ہم اس وقت درآمد کر رہے ہیں ان کی لوکل پروڈکشن شروع ہو جائے گی،اس وقت کئی اشیا پر17 فیصد تک جی ایس ٹی نافذ ہے، صارف کی جیب سے یہ پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں مگر سرکاری خزانے تک  کتنے پہنچتے ہیں ،کچھ پتہ نہیں۔


ہمارے ہاں مہنگائی پر قابو پانے کیلئے نگرانی کا بھی کوئی میکنزم نہیں ہے،کچھ عرصہ پہلے تک مجسٹریٹی نظام فعال تھا جس کی وجہ سے کسی حد تک منافع خوروں میں خوف کی فضاء تھی اور اشیاء کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ نہیں ہوتا تھا،ضلعی انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے خصوصی اختیارات حاصل تھے مگر اب اختیارات کی تقسیم بھی شبہات کا شکار ہے،پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مارکیٹ کمیٹیاں بھی غیر فعال ہیں جس کی وجہ سے تھوک منڈی اور پرچون کی سطح پر نگرانی کا کوئی انتظام نہیں  اس لئے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مانیٹرنگ سسٹم کو فعال اور متحرک کرنا ہو گا،صنعت کاروں کی پیداوار پر بھی نگاہ رکھنا ہو گی،جب تک پیداوار سپلائی اور ضرورت پر نگاہ نہیں ہو گی تب تک اشیاٗ کی قیمت میں مصنوعی اضافہ کو روکنا ممکن نہ ہو گا۔

میں  آخر  میں پھر کہوں گا کہ اس سلسلے میں اضلاع کی انتظامیہ  یعنی ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کو مضبوط بنانا ہوگا ،انہیں اس سلسلے میں اعتماد میںلے کر  اقدامات اٹھائیں اس سے کافی بہتری آ سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :