
تحریک لبیک کا قصور کیا ہے؟
پیر 22 نومبر 2021

محسن گورایہ
(جاری ہے)
اہلسنت بریلوی مکتب فکر مملکت خداداد میں بھاری اکثریت کا حامل ہے،اس مکتب فکر کے علماء،شیوخ اور کارکنوں نے بلا امتیاز قیام پاکستان کی حمائت کی اور قائد اعظم ؒ کا ساتھ دیا،پیر سید جماعت علی شاہ، تحریک پاکستان کی قیادت میں ایک معتبر اور معزز نام ہیں،قیام پاکستان تک اس مکتب فکر نے اپنی الگ شناخت کیلئے کسی سیاسی جماعت کی بنیاد نہ رکھی،آزادی کے بعد چھوٹے چھوٹے دھڑے وجود میں آتے رہے مگر کارکنوں کی اکثریت نے مسلم لیگ سے ہمدردی برقرار رکھی، قبل ازیں 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی،مغلیہ سلطنت کی تحلیل اور برطانیہ کے ہندوستان میں نو آبادیاتی نظام کے رد عمل کے طور پر ایک مذہبی تحریک وجود میں آئی جس کے بانی دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی کے صوفی بزرگ امام احمد رضا خان ؒ تھے،عشق مصطفیٰﷺ میں ڈوبی اسی تحریک نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ دیا،یہ تحریک صوفیاء کی تعلیمات سے از حد متاثرتھی،تاہم قیام پاکستان کے بعد تک اس کی سیاسی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی،70ء کی دہائی میں علامہ شاہ احمد نورانی نے عاشقان مصطفیٰﷺ کو جمیعت العلماء پاکستان کے نام سے سیاسی پلیٹ فارم فراہم کیا،لیکن مولانا عبدالستار نیازی کی علیحدگی اور اس کے بعد علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات کے باعث یہ جماعت غیر مقبول ہو گئی،اس تحریک کے سیاست میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں صوفیاء حضرات سیاست و ریاست کے معاملات سے الگ تھلگ درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے،بادشاہوں اور حکمرانوں سے دور رہتے بلکہ ان سے ملنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔
صوفیاء سے نسبت کی وجہ سے یہ لوگ صلح جو،متحمل،محبت و مودت،کی صفات سے متصوف ہیں،انسان دوست شاعری بھی انہی کا وصف رہی،انہی تعلیمات سے متاثر ہو کر بابا گورونانک نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی جس کے مقاصد میں مظلوم کی حمائت اور انسانیت کی خدمت تھی،شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد اہلسنت بریلوی مکتب فکر سیاسی نمائمدگی سے محروم تھی،2018ء کے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل علامہ خادم حسین رضوی نے تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی بنیاد رکھی اور پھر یہ تحریک افق پر گھٹا بن کر چھا گئی،لیکن ابتداء سے ہی متحرک اور فعال سیاسی جماعتوں نے اس تحریک کو اپنا دشمن سمجھا اور اس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا،علامہ خادم رضوی کی شخصیت پر اعتراضات اٹھائے گئے،مگر نواز دور میں انہوں نے گستاخانہ خاکوں کیخلاف اسلام آباد کے فیض آباد چوک پر دھرنا دیا تو حکمرانوں کو اس جماعت کی افرادی اور سیاسی قوت کا احساس ہواء،2018ء کے الیکشن میں اس جماعت نے توقع سے زیادہ ووٹ لے کر سیاسی جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی،دراصل علامہ خادم رضوی نے اکثریتی اہلسنت بریلوی مکتب فکر کی سیاسی بیداری،سٹریٹ پاوراور ووٹ بینک کو نئی طاقت اور سمت دی،اس مرتبہ اس مکتب فکر کے کارکنوں کے سیاسی کردار کو پختگی ملی یہی وجہ ہے کہ علامہ خادم رضوی کی بے وقت موت نے بھی اس تحریک کو کمزور نہیں ہونے دیا، علامہ خادم رضوی کا جنازہ دور حاضر کا شائد سب سے بڑا جنازہ تھا جو ان کی مقبولیت کا ثبوت ہے، ان کے بیٹے سعد رضوی نئے سربراہ تحریک لبیک کی کال پر کارکنوں کا اژدہام امڈ آیااور پہلی مرتبہ حکومت نے اسلام آباد جانے والے راستوں پر خندقیں کھود کر کارکنوں کو روکنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی۔
اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے درود شریف پڑھنے والوں کو بارود بردار بناکر پیش کرنے کی بھی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود دوسری جانب سے اشتعال انگیزی دکھائی نہ دی،ہمارے سیاسی ماحول میں عام طور پر کسی تحریک کے بانی کی وفات کے بعد وہ تحریک تحلیل ہو جاتی ہے یا اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ، مگر تحریک لبیک کی مجکس شوریٰ نے بانی تحریک کی وفات کے بعد سعد رضوی کو فوری طور پر سربراہ مقرر کر کے اپنی اولو العزمی کا ثبوت دیا۔ایک نظر علامہ خادم رضوی کی زندگی پر ڈالنا بھی سیاست کے طالب علموں کیلئے سود مند ہو گا،چند برس پہلے تک ان کے نام سے کوئی واقف نہ تھا،پھر حق کی آواز بلند کرنے پر ن لیگ حکومت نے ان کو محکمہ اوقاف کی مسجد کی امامت کے عہدے سے برطرف کر دیا، 2017ء میں انہوں نے تحریک لبیک کی بنیاد رکھی اور اسی سال توہین رسالت قوانین میں ترمیم کیخلاف اسلام آباد کی طرف ریلی اور فیض آباد میں دھرنے نے ان کی شہرت کو دوام بخشا،اسی سال این اے 120لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک لبیک نے سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
حکوت اور ریاست کو محب وطن جماعتوں کو زبردستی ریاست مخالف بنانے کی کوششوں کو ناکام کرنا ہوگا ،یہ ہم سب کا ملک ہے ،آج اس ملک میں مزہبی دینی سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے ، تحریک لبیک کا قصور کیا ہے؟
اس نے فرقہ واریت کو ہواء دینے کے بجائے عشق رسول ﷺ کو مہمیز دی جس کے نتیجے میں عاشقان مصطفیٰ ﷺ طویل مدت کے بعد سیاسی افق پر جلوہ گر ہیں جو خوش آئیند ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.