کوئی سچ بولنے کے واسطے تیار نہیں

منگل 29 ستمبر 2020

Mrs Jamshaid Khakwani

مسز جمشید خاکوانی

پنجاب ٹیسٹ بورڈ میں ایسا منظرپہلے کبھی نہیں دیکھا تھا چند ماہ پہلے بورڈ کا ایک نیا ایم ڈی آیا تھا کام کے طور طریقوں میں اس کا انداز بلکل الگ تھا نئے ایم ڈی نے بورڈ کے تمام افسران کی میٹنگ بلائی اور انہیں دوٹوک انداز میں ایک بات کہی ،اس کام کو ایک مشن سمجھ کر کرنا ہوگا اس کام کو سرکار کی تنخواہ اور دوسرے دنیاوی پیمانوں سے ناپیں گے تو مشکل لگے گا لیکن یہ کام ایسا ہے کہ کل سزا و جزا کے دن اللہ اور اس کے رسول کے حضور تو شہ آخرت ثابت ہو سکتا ہے ہم اپنے رب کے حضور کہہ سکیں گے بحیثیت مسلمان ہم نے اپنی زمہ داری نبھانے کی پوری کوشش کی اس کام سے صرف نظر کیا تو ہمارا ضمیر ہمیں چین نہیں لینے دے گا ادارے کے سربراہ کی یہ بات اپنے ادارے کے لوگوں کے لیے ،،موٹی ویشنل ،، تقریر ثابت ہوئی کہ بات زبان سے نکلی اور دل میں اتر گئی ۔

(جاری ہے)


اس کے بعد یہ کام جنگی بنیادوں پر شروع ہوا پنجاب بھر سے پہلی سے بارہویں جماعت تک پڑھائی جانے والی اردو ، اسلامیات،، مطالعہ پاکستان اور سوشل سٹڈی کی دس ہزار کتابوں کو اکھٹا کیا گیا آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے انٹر نیشنل پبلیشرز سے لے کر چھوٹے بڑے کئی پاکستانی پبلیشرز کی کتابیں جمع کی گئیں آٹھ ٹیموں پر مشتمل چالیس افراد نے کام شروع کیا تیس موضوعات ترتیب دیئے گئے جن کو پڑھنا ،جانچنا اور پرکھنا تھا مقصد یہ تھا کہیں کوئی بات اسلام کے بنیادی عقائد ،قران و حدیث ،توہین رسالت یا توہین صحابہ کرام کے زمرے میں آتی ہو کوئی ایسی بات نہ ہو جو ہماری مشرقی روایات یا اقدار کے خلاف نہ ہو کام شروع ہوا حوالہ جات کی کتابیں بھی منگوائیں ایم ڈی صاحب نے اس ٹیم کے ساتھ خود بیٹھ کر گھنٹوں کام کیا حوالہ جات کی پندرہ کتابیں اپنے گھر اور اپنے ذرائع سے اکھٹی کیں پوری ٹیم ایک مشن کی طرح کام کرنے لگی دفتر کے نظام الاوقات سے ہٹ کر رات کے ایک ایک بجے تک کام کیا روزانہ کی روائتی سرکاری مصروفیات سے ہٹ کر 46 گھنٹے پانچ سو کتابیں پڑھنے پر لگائے گئے نصاب کی کتابوں میں ایسے ایسے ہوشربا ،ناقابل تحقیق ، قابل اعترض مواد سامنے آیا کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے ایم ڈی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔


یہاں میں یہ کہنا چاہوں گی 2010میں ہی یہ بات میرے علم میں آئی تھی تب میرے بچے بھی اسکولوں میں تھے تو جب بھی بچے کوئی کتاب شروع کرتے دو دن بعد پتہ چلتا جی کتاب کسی شاپ پر نہیں مل رہی بک شاپس تو ویسے ہی گنی چنی ہوتی ہیں میں نے ایک شاپ کیپر سے پوچھا کیا مسلہ ہے ایک کتاب خریدو ھفتے بعد پتہ چلتا ہے کتاب تبدیل ہو گئی ہے آخر کوئی کتنی کتابیں خریدے تو وہ صاحب بولے ہم مسلمان ہیں اردو ،اسلامیات ،مطالعہ پاکستان ،وغیرہ سے ہی وہ تمام مواد جو اسلام اور پاکستان سے منسلک ہے نکال کر عجیب و غریب قسم کے مظامین شامل کیے جا رہے ہیں میں کتابیں واپس بھیج دیتا ہوں یوں کرتے کرتے دو سال اور بیت گئے لیکن کتابوں کے حالات وہی رہے مشرف دور کی ایک مطالعہ پاکستان کی بک میرے پاس پڑی تھی میں نے وہ اٹھائی اور حال ہی میں چھپنے والی مطالعہ پاکستان کی کتاب سے موازنہ کیا تو حیرت زدہ رہ گئی یہ تو کچھ اور ہے گل کھل رہے تھے تب 2013میں میں نے ایک کالم بھی لکھا تھا طلعت حسین اس وقت ”سچ ٹی وی “ نامی سائٹ چلاتے تھے جس پر میرے اکثر کالم چھپتے تھے بلا شبہ وہ سچ چھاپتے تھے ۔


پھر کیا ہوا کہ وہ نون لیگ کو پیارے ہو گئے سائٹ بھی بند کر دی وہ میری زندگی کے درجنوں بہترین کالم بھی بندش کا شکار ہو کر ضائع ہو گئے تو ایسا ایک دن میں نہیں ہوا میں تو کب سے کہہ رہی ہوں کہ نصاب پر نظر رکھی جائے بنیاد ہی ٹیڑھی ہو گئی تو عمارت کب کھڑی رہے گی شائد اسی طرح بہت لوگوں نے توجہ دلائی دیکھو دانش اسکول اور پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں اب تو ہر اسکول نے اپنی کتابیں چھپوانی شروع کر دی ہیں آجکل کے والدین بھی دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے تباہی کہاں تک پہنچ گئی ہے اساتذہ خود بھی اتنے انگلش پڑھے ہوئے نہیں ہوتے وہ بھی رٹا لگوا کر اور ڈھیروں ہوم ورک دے کر جان چھڑا لیتے ہیں ،بحر حال بات ہو رہی تھی نئے ایم ڈی صاحب کی ،جن کے زمے لگایا گیا وہ قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کریں اور یہ اسی سال کی بات ہے چند ماہ پہلے کی تو انہوں نے دیکھا کہ سورة القریش درج تھی تو اس میں اعراب کی غلطیاں تھیں پہلی آیات کا ترجمہ دیا ہوا تھا دوسری کا نہیں تیسری کا غلط ترجمہ اور چوتھی ایت کا پھر چھوڑ دیا گیا آکسفورڈ اور کیمبرج کے پبلیشرز کی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے نام کے ساتھ pease be upon him تک درج کرنے کا تکلف نہیں تھا سوشل سٹڈی میں مسجد اللہ کا گھر نہیں فلاحی ادارہ تھا نویں کی انگریزی کتاب میں درج گرلز ہاسٹل کے حوالے سے انتہائی قابل اعتراض مواد موجود تھا اور حیرت تھی کہ یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طالب علموں کو نصاب کے نام پر پڑھایا جا رہا تھا ایک کام یہ بھی کیا کہ سیرت النبی کی ایک کمیٹی بنائی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ مبارکہ کے حوالے سے سیرت کے موضوعات کو 63اسباق میں تقسیم کیا اور پھر پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کی کی ان پانچ سو کتابوں میں جائزہ لیا گیا کہ سیرت طیبہ کے حوالے سے کون سے اسباق موجود ہیں اور کون سے موجود نہیں تو ان میں سے 39اسباق موجود تھے 24موجود نہیں تھے جبکہ سولہ موضوعات جزوی طور پر تھے لیکن رسول کریم ﷺ کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی بات جو کسی کتاب میں موجود نہ تھی وہ ختم نبوت کا موضوع تھا مسلمان کے عقیدے کی بنیادیں ختم نبوت پر ہیں اس موضوع کو شامل کرنا ازحد ضروری تھا ایم ڈی صاحب کی زیر سرپرستی دن رات کام کر کے نئی تجاویز کی فہرست بنائی گئی کہ قابل اعتراض مواد چھاپنے والے کن پبلیشرز پر پابندی لگانی ہے کون سے مصنف کو بلیک لسٹ کرنا ہے یہ ساری فہرست تیار ہو گئی تو طے یہ پایا کہ 13اگست کو بورڈ کی میٹنگ بلا کر حتمی فہرست تیار کر کے فیڈرل حکومت کو بھیجنی تھی بورڈ میں پہلی بار اس پیمانے پر اس طرح کا کام ہوا تھا ایم ڈی خوش تھا کہ قران و حدیث اور رسالت اور صحابہ کے خلاف قابل اتراض مواد کو نکال کر نصاب کا قبلہ درست کیا جا سکے گا لیکن آٹھ اگست کو اسے یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ کو پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے ایم ڈی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے سرکاری کام کو مشن سمجھ کر کرنے کی پاداش میں آپ کو افسر بکار خاص بنایا جا رہا ہے یہ وطن سے محبت رکھنے والا عاشق رسول مرد مومن ،نڈر ،بہادر سر پھرا افسر رائے منظور ناصر ہے حیرت ہوتی ہے کہاں کرپشن میں لتھڑا ہوا نظام ،ادارہ در ادارہ تباہی
کی داستان اور کہاں اس خرابے میں ایسا فرض شناس ،بہادر ،ایماندار افسر منفی قوتوں کے سامنے مزاحمت کرنے والا کمال ہے یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی المیہ تو اپنی جگہ موجود ہے مگر عالمی فورمز پر اپنے وزیر اعظم عمران خان کو ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کا دفاع کرتے دیکھا تو لکھنے کا عزم کر لیا کیونکہ بگاڑ جب تک گھر سے ٹھیک ہونا شروع نہ ہو باہر کی دنیا بیکار ہے پہلی حکومتیں جو کر گئیں وہ اب نہیں رہیں اب اس بگاڑ کو اسی حکومت نے ٹھیک کرنا ہے جس طرح ہر برباد ادارے کو ٹھیک کرنے کا مشن لے کر عمران خان آگے برھ رہے ہیں اس پر لازمی توجہ دیں کہ اسلام مخالف قوتیں اسلام کے بنیادی عقائد کو دھندلا کر ابہام پیدا کر کے ہماری اگلی نسلوں کو اپنی بنیاد سے دور کر رہی ہیں تاریخی حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنے والوں نے کتاب کو نامعتبر کر دیا ہے ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد کو مسخ کر کے ہمارے بچوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کر رہی ہیں اور جب کوئی رائے منظور ناصر جیسا بہادر ان طاقتوں کے سامنے مزاحمت کر کے ختم نبوت کو نصاب کا حصہ بنانے کی تیاری کر لے قرانی آیات کے غلط ترجمے پر اس کے اندر کا مسلمان تڑپ جائے تو اس افسر سے اس کا سرکاری عہدہ اور مرعات چھین کر اسے کھڈے لائن لگانے والے کون ہیں ہمیں عمران خان کی نیت پر شک نہیں اگر ایسا ہوتا تو اس پوتھی کو کھولنے کی ضرورت ہی نہیں تھی جس طرح کام چل رہا تھا چلتا رہتا آخر اس ملک میں فضل الرحمن جیسے عالم دین کی کھربوں کی جائیدادیں کیسے بنی ہیں کوئی تو سودا بیچا ہوگا ورنہ میثاق جمہوریت کی گنگا میں ہاتھ دھونے والے سب لوگ ایک دوسرے کی پشت پر کیوں کھڑے ہیں یہ کس کی آشائیں پوری کی جا رہی ہیں ویسے تو کسی کا چھلی کا کاروبار بھی نہیں نظر آیا مدرسوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے نہ کہ اس سے پلازے ،مارکیٹیں اور فارم ہاؤس بن جائیں کروڑون کی لینڈ کروزریں زیر استمعال ہوں تو اس عالم دین کے ایمان پر شک بنتا ہے خیر اس کی تفتیش اب نیب کے ذمے ہے وہ کس طرح نمٹتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا وزیر تعلیم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں وزیر اعظم خود اپنی نگرانی میں اس معاملے کو دیکھیں کہ اگر نصاب بدلیں تو خطاب بدل جاتے ہیں ہماری قوم جو حرام حلال کی تمیز کھو بیٹھی ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہی نصاب میں ہیر پھیر ہے اسکولوں کی سطع پر کرپشن کی بھاشا دینے والے آج پابند سلاسل ہیں تو یہ سبق ہے ان سب کے لیے جو اپنے آج کے لیے اپنا آنے والا کل داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اس دنیا کے لیے اپنی عاقبت خراب کر لیتے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ اہل اختیار جنھوں نے اس حساس معاملے پر مصلحت آمیز سمجھوتے کیے کل روز محشر اللہ اور اس کے رسول کے سامنے کیا جواب دیں گے !
سب کے ہاتھوں میں ہے زہر کا پیالہ لیکن
کوئی سچ بولنے کے واسطے تیا ر نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :