مردوں پر سیاست کرنا چھوڑ دیں

منگل 19 فروری 2019

Muhammad Hussain Azad

محمد حسین آزاد

وہ شہید بینظیر بھٹو کی تعریف کرتے کرتے نہیں تھکتے۔ ذولفقار علی بھٹو صاحب کی شخصیت سے بھی کافی متاثر دکھائی دیتا۔ اس کے فون میں بینظیر صاحبہ اور ان کے خاندن کے لوگوں کی بہت ساری تصاویر تھی۔ وہ ہر کسی کو محترمہ بی بی کی مختلف تصاویر دیکھاتا اور کبھی اس کی خوبصورتی تو کبھی اس کی کردار کی تعریفیں کرتا۔ وہ کہتا ” بینظیر بی بی میرے دل میں ہے، سمجھو اس کے بغیر میں ادھورا ہوں“۔

وہ لوگوں سے اپنی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی پر لڑائی جھگڑے بھی کرتا۔ وہ پی پی پی کا ادنی کارکن تھا اور ہر پروگرام میں یہ بھی کہتا” شہید بی بی کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے“۔ 
بے نظیر اور ذولفقار علی بھٹو کی قبروں پر حاضری دینا اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ کبھی اپنی ماں کی مغفرت کے لئے دعا مانگی ہے؟ کیا اس کی ایک تصویر ہے آپ کے پاس ؟ وہ خاموش ہوا۔

(جاری ہے)

پھر کہنے لگا ”نہیں تصویر تو نہیں ہے اس کی۔ لیکن اس کے تصویر پہ کیا کرنا وہ تو مر گئی ہے، اب اسے یاد کرکے اپنا غم کیوں بڑھاؤ؟“ 
اس کی ماں کو مرے ہوئے ایک سال ہوگیا تھا۔ اس کی باتوں پر مجھے حیرت بھی ہوئی کہ اب اسے کیا کہوں۔ بے نظیر بی بی کی مرثیے پڑھ پڑھ کر نہیں تھکتے اور اپنی ماں کو ایک ہی سال میں بھُلا دیا۔اپنی ماں کے بارے میں اسے پکا یقین تھا کہ وہ مرگئی ہے، لہذا اب اسے یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

لیکن بینظیر بی بی بھی تو مرگئی ہے، ذولفقار علی بھٹو بھی تو مر گیا ہے اور اسے یاد کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ انہیں یاد کرنے سے پاکستانی عوام کو بہت بڑا نقصان پہچ چکا ہے۔انہیں یاد کرکے آصف علی زرداری جیسا شخص پاکستان کا صدر بنا جس نے پاکستان کو صدیوں پیچھے لے گیا، انہیں یاد کرکے سندھ پر اب بھی وڈیروں کا راج ہے۔ سندھ میں زرداری اور اس کے خاندان کی دفاع کے لئے وہ لوگ بھی احتجاج کرتے ہوئے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ننگے پاوٴں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔

جن میں خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں۔بھٹو فیملی کو یاد کرکرکے اس فیملی پر بھی زرداری قابض ہوگئے اور زرداری فیملی بھٹو میں تبدیل ہوگیا۔ 
مجھے پی پی پی کے اس کارکن کی باتوں پر تعجب اس لئے آرہا تھا کہ دنیا میں ماں وہ ہستی ہوتی ہے جو انسان کا سب کچھ ہوتا ہے۔ ماں سے زیادہ پیار کسی سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ماں کے بغیر گھر قبرستان کی طرح ہے۔

اس نے اپنی ماں کو ایک ہی سال میں بھلا دیا اور وہ لوگ جو شاید اس کی پیدائش سے قبل فوت ہوئے ہیں، اس کے دل میں اب بھی موجود ہے۔ اس پیار کو کیا نام دو؟ 
قارئین، میں ذولفقار علی بھٹو کی قابلیت اور پاکستان کے لئے اس کی خدمات سے انکار نہیں کرتا، انہوں نے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنادیا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک آئین دیا ہے۔ پاکستان کے لئے بھٹو کی خدمات کو کوئی بھی نہیں بھول سکتا۔

بے نظیر بھٹو بھی ایک نہایت قابل خاتون تھیں۔ وہ امریکہ کے بیس سے زیادہ اداروں میں لیکچر دے چکی ہے۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں اور پاکستان کے لئے اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔وہ دو دفعہ پاکستان کی وزیر اعظم رہ چکی ہے اور انہوں نے پاکستان کو زرداری اور نواز شریف کی طرح نہیں لوٹا۔لیکن میں اس بات کو بلکل بھی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ بھٹو زندہ ہے۔

اگر پھانسی کے دن ہی بھٹو مرگیا ہوتا تو آج سندھ کا یہی حال نہ
 ہوتا۔سندھ کے لوگ بھٹو کی موت کا سوگ آج بھی منا رہے ہیں۔ جو کہ سندھ کو پسماندگی کی انتہا تک پہنچا دیا۔
قارئین! آپ کو یہ بھی بتاتا چلو کہ اب اس پی پی پی کے کارکن نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت کر چکے ہے۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اب انہوں نے بے نظیر بھٹو کی خامیاں اکھٹی کی ہے اور ہر جگہ ہر پروگرام میں بینظیر بھٹو کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔

اس لئے میں یہاں پر سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ساری سیاسی پارٹیاں ہماری پاکستان کی پارٹیاں، ساری ہمارے لئے قابل قدر ہیں۔ لیکن جو ڈیلیور کرے گی ہم اس کی حمایت کرے گے اور جو پاکستان کو لوٹنے کی کوشش کرے گی اس پر تنقید کرنے کا ہمارے پاس پورا حق ہے۔مفاد پرست ٹولہ اقتدار کی حصول کے لئے کچھ بھی کرے گے لیکن ہمیں ان کی جال میں نہیں پھنسنا چاہیئے۔وہ اپنے مردوں پر سیاست کرکے ہماری ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ہمدردی میں انہیں پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنادیں،اور وہ الٹا ہمیں لوٹ لے، لیکن ہمیں ان کی اس چال بازی کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔۔۔ لہذا آپ سب لوگوں سے گزارش ہے کہ مردوں کو برا بھلا بھی نہ کہے اور اس پر سیاست بھی نہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :