مولانا طارق جمیل کا متنازع ویڈیو بیان !

جمعہ 21 دسمبر 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کچھ دن قبل مولانا طارق جمیل نے عمران خان کی حمایت میں ایک ویڈیوبیان جاری کیا ، اس کے بعدسے اب تک سوشل میڈیا پر مختلف انداز امیں مولانا پر نقد جاری ہے ، بعض افراد کی طرف سے بدتہذیبی کا مظاہرہ بھی کیا گیا جو کسی طور قابل تحسین نہیں۔ مولانا کی پہچان ایک داعی کی ہے اور میرے خیال میں مولانا نے اس ویڈیو بیان میں داعیانہ مصلحت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھاجس کی وجہ سے انہیں اس طرح کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔

مولانا طارق جمیل کا یہ اقدام کچھ وجوہات کی بناء پر قابل اعتراض تھا۔ مولانا ایک عوامی شخصیت ہیں اور جب کسی شخصیت کو عوامی پذیرائی مل جائے تو وہ سماج کا مشترکہ اثاثہ ہوتاہے اوراسے اپنے اس منصب کا بہر حال خیال رکھنا چاہئے۔ عوام مولانا سے بھی یہی توقع رکھتے تھے مگر افسوس کہ وہ داعیانہ مصلحت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ سکے۔

(جاری ہے)

مولانا کی پہچان ایک ایسے واعظ اور مبلغ کی ہے جو بلا تفریق مذہب و مسلک ہر ایک کے ہاں سنے جاتے ہیں اور انہیں تمام مسالک میں یکساں مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

جب وہ مذہبی عصبیت میں کسی ایک گروہ حتی کہ دیوبندی مسلک جو ان کی پہچان ہے کھلم کھلا اس کی حمایت نہیں کرتے تو سیاسی عصبیت میں وہ اس مصلحت کو کیسے نظر انداز کر گئے۔ مولانا کا اصل میدان دعوت و تبلیغ ہے اور اسی وجہ سے انہیں عوامی مقبولیت حاصل ہے ، اب اگر وہ اس عوامی مقبولیت اور اپنے اثر و رسوخ کو کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنے کے لیے استعمال کریں گے تو سوالات تو بہر حال ہوں گے اور رد عمل بھی آئے گا۔

مسئلہ تحریک انصاف یا عمران خان کا نہیں بلکہ اگر اسی طرح کی بات وہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کرتے تو ممکنہ طور پر اسی طرح کا رد عمل آنے کی توقع تھی۔ مولانا کا شریف خاندان سے بھی قریبی تعلق ہے ا ور حال ہی میں انہوں نے بیگم کلثوم نواز کا جنازہ بھی پڑھایا تھا ، اسی طرح مولنا کا، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بھی نیاز مندانہ تعلق ہے تو ا یک داعی کی حیثیت سے انہیں اس تعلق کا ہی لحاظ کر لینا چاہئے تھا۔

اور ویسے بھی شریف خاندان اس وقت جن مشکلات سے گزر رہا ہے ایک داعی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک شہری کی حیثیت سے مولانا کو بھی اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق ہے ، بجا مگر بات یہ ہے کہ کیا مولانا کی رائے اور ایک عام شہری کی رائے ایک سمجھی جائے گی۔جب آپ کی زندگی کا ایک حصہ سیاسی و مذہبی عصبیتوں کے بت توڑنے میں صرف ہوا ہو اور اس لمحے آ کر آپ سیاسی عصبیت کاایک نیا بت تراش لیں ، توایسی صورتحال میں سوالات بھی اٹھیں گے اور رد عمل بھی آئے گا۔

مولانا کی ساری زندگی "ایک اللہ سے ہوتا ہے " کی تبلیغ میں گزری ہے اب اس اسٹیج پر اگر وہ کسی سیاسی شخصیت سے متاثر ہو کر اس سے امید لگا بیٹھے ہیں اور اس طرح کے بیانات جا ری کر رہے ہیں تو اس سے ان کی دعوتی زندگی اور شخصیت پر سوالات اٹھنا ایک فطری امرتھا۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس میدان کا جو فرد ہو اوروہ اس کے بارے میں اپنی کسی رائے کا اظہا ر کرے تو اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے بصورت دیگر سماج اس رائے کو رد تو کر تا ہی ہے ساتھ ہی رائے دینے والی شخصیت پر سوالات بھی کھڑے ہوتے ہیں اور تنقید کا حق بھی مانا جاتا ہے۔

آج اگر صدر یا وزیر اعظم رائے دیں کہ ساری مذہبی جماعتوں کے کارکن صرف تبلیغی جماعت کو سپورٹ کریں تو سماج ان کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دے گا بلکہ الٹا ان کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی۔
مولانا طارق جمیل اگر صرف اپنی رائے کا اظہا ر کرتے تو شاید سماجی اضطراب کی لہر اتنی شدید نہ ہوتی لیکن مسئلہ تب پیدا ہوا جب انہوں نے اپنے متعلقین کو بھی یہ دعوت دی کہ وہ ایک خاص جماعت کو سپورٹ کریں۔

مولانا کے بیان کی ٹائمنگ ، انداز بیان ، خاص صورتحال اور ویڈیو میں پیش کردہ منظر نامہ یہ سب مل کر شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں ، ایسا لگتا ہے جیسے مولانا کو خاص اسی مقصد کے لیے بٹھایا گیا ، انہیں بریف کیا گیا ہے اور ان کی زبان سے زبردستی یہ الفاظ کہلوائے گئے ہیں۔ یہی بات اگر وہ منبر و محراب پر یا کسی مجمع میں برسبیل تذکرہ کرتے کہ کرپشن ، جھوٹ اور دھوکے سے اجتناب کر کے حکومت کا ساتھ دیں تو بات شاید اتنی قابل اعتراض نہ ہوتی۔

مولانا ایک ایسے داعی ہیں جن کے الفاظ بڑے نرم اور جچے تلے ہوتے ہیں ، وہ لفظو ں کا چناو بڑا سوچ سمجھ کر کرتے ہیں مگر حیرت ہے کہ اس معاملے میں وہ اپنے داعیانہ اسلو ب کی رعایت نہ کر سکے۔ اگروہ سیاسی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار چاہتے ہیں تو انہیں باقاعدہ کوئی سیاسی جماعت جوائن کر لینی چاہئے۔ پھر اس کے بعد بھی اگر کوئی سوال اٹھائے یا اعتراض کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔


جہاں تک بات ہے ریاست مدینہ کا اسلامی تصور پیش کرنے کی تو اس حوالے سے بھی مولانا طارق جمیل کا موقف حقائق پر مبنی نہیں۔ کیا صرف باتوں کی حد تک اور نعرے لگا کر کسی تصور کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔جمعیت علماء اسلام کی ستر سالہ جد و جہد پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی اسلامی ریاست بنانے کے گرد گھومتی ہے ، وہ الگ بات ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں کبھی اکثریت نہیں مل سکی، جماعت اسلامی کی ستر سالہ جد و جہد کا عنوان بھی یہی ہے۔

نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں شریعت بل نہ صرف اسمبلی میں پیش کیا بلکہ کسی حد تک وہ منظور بھی ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ بیسیوں ایسے ادارے، افراد اور جماعتیں ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے میں کھپا دیں ۔ان سب کوششوں کو نظر انداز کر کے یہ سارا کریڈیٹ ایک ایسے شخص کو دینا جس کا اپنا ماضی داغدار ہے ان بزرگوں کی روحوں کے ساتھ مذاق ہے۔

مولانا کو یہ بھی اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں جس طرح کی بدتہذیبی ، بے حیائی اور فحاشی کا ارتکاب ہوتا تھا اس کی موجودگی میں اتنی جلدی خوش فہم ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔
جہاں تک بات ہے سوشل میڈیاا ور عوامی رد عمل کی تو مولانا کے اس غیر منطقی بیان کے بعد اس طرح کے رد عمل اور اس طرح کے جذبات کا اظہار کوئی انہونی بات نہیں تھی ، یہ مسئلہ مذہبی نوعیت کا تھا اس لیے اس پر رد عمل بھی مذہبی طبقے کی طرف سے آیا اور سوشل میڈیا پر بھی مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوانوں نے بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔

گو یہ رویہ کسی طور قابل برداشت نہیں مگر ہمیں اس طرح کے رویوں کی مذمت کرنے سے پہلے ان اسبا ب پر غور کرنا چاہئے جو اس طرح کے رویوں کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ خصوصا ہمارے مذہبی حلقوں اور عموما پوری سوسائٹی میں دوسرے کی رائے سننے اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دینے کا وہ رویہ ہی ڈویلپ نہیں کیا گیا جو ایک ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان اور شان ہوا کرتا ہے۔ یہ صرف مولانا طارق جمیل کی بات نہیں بلکہ ہماری سوسائٹی اور مذ ہبی فکر کا اجتماعی المیہ ہے۔ اگر اسی قسم کا کوئی بیان مولانا فضل الرحمان یا عمران خان جاری کرتے تو انہیں بھی اسی طرح کے ممکنہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :