نا اہل گدھے!!

پیر 20 مئی 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ملا نصیر الدین تیرھویں صدی میں پیدا ہوئے،ترکی کے شہر اناطولیہ میں زندگی بسر کی اوروہیں مدفون ہوئے ۔ملا نصیر الدین نے دنیا کی ہر زبان اور ادب کو متاثر کیا ، آپ دنیا کا کوئی بھی ادب اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس میں ملا نصیر الدین ہنستے مسکراتے نظر آئیں گے ۔ ملا کا کمال ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک ان کی شہریت کا دعویٰ کرتے ہیں، افغانستان، ترکی، ایران ا ورازبکستان کا دعویٰ ہے کہ ملا نصیر الدین کا تعلق ان کے ملک سے تھا ۔

شہریت کی طرح دنیا کے ہر ادب میں ملا کے نام بھی مختلف ہیں اور وہ تاریخی کتب میں مختلف ناموں سے مشہور ہیں ۔ البانی زبان میں انہیں نسترادین، بوسنیائی زبان میں نصردین ہودزا،ازبک میں نصردین آفندی،قزاقی زبان میں حوزانصیر اور اردو ادب میں ملا نصیر الدین کے نام سے جانا جاتاہے۔

(جاری ہے)

روس میں ملا سولویو کے ناول کی وجہ سے کافی مشہور ہیں اور بلغاریہ، مقدونیہ اور سسلی میں بھی ملا نصرالدین کا ڈنکا بجتا ہے۔

ملا کی خدمات کے اعتراف میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 1996،1997 کو ملا نصیرالدین کا سال قرار دیاتھا۔ آج بھی دنیا کے ہر خطے میں ملا کے لطیفے اور چٹکلے زبان زد عام ہیں ۔چین میں ملا کے نام پر کئی کارٹون پرگرام،ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں اورملا کی جائے پیدائش اسکسرمیں ہر سال پانچ سے دس جولائی تک ”بین الاقوامی نصرالدین حوجا“میلہ منایا جاتا ہے۔

ملا کی وجہ شہرت ان کے حکمت سے بھرپور لطیفے ہیں ،کوئی بھی لطیفہ یا کہاوت سینکڑوں سال کے تجربات کے بعد وجود میں آتی ہے ۔ آج دنیا میں جتنے بھی لطیفے، کہاوتیں اور ضرب الامثال مشہور ہیں ان کے پیچھے کو ئی نہ کوئی کہانی ، واقعہ یا سبق ضرور موجود ہے ۔لطیفہ یا کہاوت صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے اور جو محاورہ اور کہاوت کسی قوم کے بارے میں مشہور ہو جائے اس میں اس ملک اور قوم کی اجتماعی نفسیات کاتاثر کسی نہ کسی حد تک ضرور پایا جاتا ہے ۔

ملا نصیرالدین کے لطیفے بھی حکمت سے بھرپورے ہوتے ہیں اور یہ آج بھی اسی طرح زندہ اور تر وتازہ ہیں ۔ ملا کا مشہو ر لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ ان کا گدھا مر گیا،ملا نے کئی مہینوں کی محنت و مشقت کے بعد کچھ رقم جمع کی اور نیا گدھا خریدنے بازار گئے، پسند کا گدھا خریدنے کے بعد جب وہ گھر آ رہے تھے تو راستے میں چند نو سر بازافراد گدھے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے، تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نے آہستہ سے گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنی گردن میں ڈال لی اور گدھا اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیا۔

ملاجب گھر پہنچے اور مڑ کردیکھا تو چار ٹانگوں والے گدھے کی بجائے دو ٹانگوں والا گدھا نظر آیا۔ یہ دیکھ کر ملا سخت حیران ہوئے اور کہنے لگے ”سبحان اللہ! میں نے تو گدھا خریدا تھا یہ انسان کیسے بن گیا؟“یہ سن کر نوسر باز بولا ”حضورمیں اپنی ماں کا ادب نہیں کرتا تھا ایک دن انہوں نے مجھے بددعا دی تو میں گدھا بن گیا۔ میں کئی سال سے گدھے کی زندگی بسر کر رہا تھا آج خوش قسمتی سے آپ نے مجھے خرید لیا اور آپ کی روحانیت کی برکت سے میں دوبارہ انسان بن گیا۔

“ ملا وفورِ مسرت سے نصیحت فرماتے ہوئے کہنے لگے ” اچھا اب جاوٴ اور اپنی ماں کی خدمت کرنا “۔ نوسرباز نے ملا کا شکریہ ادا کیااور رخصت ہو گیا۔ دوسرے دن ملا پھر گدھا خریدنے بازار پہنچ گئے اور جب انہوں نے دیکھا کہ وہی گدھا ایک جگہ بندھا کھڑا ہے تو وہ اس کے قریب گئے اور اس کے کان میں کہنے لگے ” لگتا ہے تم نے میری نصیحت پر عمل نہیں کیا اس لیے پھر گدھے بن گئے ہو “۔

اسی طرح ایک دن مْلا نصیر الدین اپنے گدھے کو گھر کی چھت پر لے گئے، جب نیچے اتارنے لگے تو گدھے نے نیچے اترنے سے انکار کر دیا۔کافی تگ و دو کے بعد ملا تھک ہار کر خود نیچے آ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ گدھا خود کسی طرح سے نیچے آجائے ۔کچھ دیر بعد ملا نے دیکھا کہ گدھا چھت کو لاتوں سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے ملا پریشان ہو گئے کہ چھت تو بہت نازک ہے ۔

وہ دوبارہ بھاگ کر اوپرگئے اور گدھے کو نیچے لانے کی کوشش کی لیکن گدھا اپنی ضد پر اڑا رہا۔ ملانے آخری بار گدھے کوسیڑھیوں کی طرف لانے کی کوشش کی مگر گدھے نے لات مارکر ملا کونیچے گرا دیا۔گدھے کی مسلسل محنت سے چھت ٹوٹ گئی اور گدھا چھت سمیت زمین پر آ گرا۔ملا کافی دیر تک اس واقعہ پر غور کرتے رہے اور پھر خود سے گویا ہوئے” کبھی بھی گدھے کو مقام بالا پر نہیں لے جانا چاہئیے کیونکہ ایک تو وہ خود اپنانقصان کرتا ہے دوسرا اس بلند مقام کو بھی خراب کرتا ہے اور تیسرا اوپر لے جانے والے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔


ملا نصیرالدین نے گدھوں کی جس خصلت کو سینکڑوں سال قبل دریافت کر لیا تھاہم اکیسویں صدی میں بھی اسے نہیں سمجھ سکے ۔ ہم اپنے ہاتھوں سے گدھوں کو چھتوں پر چڑھاتے ہیں اور پھر ان کی نااہلیوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ہماری ستر سالہ تاریخ ایسے نااہلوں ں سے بھری پڑی ہے لیکن ہم پھر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ اب کی بار قوم نے جن نااہلوں کو چھت پر چڑھایا تھایہ بیک وقت دو کام کررہے ہیں ، یہ دولتیاں بھی ماررہے ہیں اور ساتھ ڈھینچوں ڈھینچوں بھی کررہے ہیں ۔

ان کو جس منصب اور مقام پر بٹھایا گیا تھا یہ اس کی بھی توہین کر رہے ہیں اور یہ اکیس کروڑ عوام کو دولتیاں بھی مار رہے ہیں۔ عوام اب پریشان ہیں اورانہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان سے جان کیسے چھڑائی جائے۔یہ اپنی نااہلی ثابت ہونے کے باوجود ضد اور اناپر اڑے ہوئے ہیں ،یہ اب بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر رہے اور ان کی زبانیں تا حال لمبی ہیں۔ انہیں چھت پر چڑھے دس ماہ گزر چکے لیکن یہ نیچے اترنے کے بجائے ہر روز ایک نئی کہانی سنا دیتے ہیں۔

انہیں اب بھی احساس نہیں ہو رہا کہ اگر یہ اسی روش پر چلتے رہے توعوام انہیں چھت سے دھکا دے دیں گے ۔ یہ نااہل جودشنام اور الزام دوسروں کو دیتے تھے آج خود اس کا عنوان ہیں ، انہیں خود کشی کی توفیق بھی نہیں ہوئی ، انہوں نے آئی ایم ایف کا قرضہ بھی ان کے منہ پر نہیں مارا ، یہ اربوں ڈالر بیرون ملک سے پاکستان بھی منتقل نہیں کر سکے، یہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بھی تعمیر نہیں کر سکے ، یہ پاکستان کاٹیلنٹ بھی واپس پاکستان نہیں لا سکے ، یہ ڈالر اور مہنگائی کے پر بھی نہیں کاٹ سکے اور یہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کوپاکستان بھی نہیں لا سکے۔

یہ اپنے لہجوں میں نرمی اور شائستگی بھی پیدا نہیں کر سکے ، ان میں تہذیب اور عاجزی بھی نہیں آئی اور یہ اپنی لمبی زبانوں کو بھی کنٹرول نہیں کر سکے ، یہ کرپشن کو بھی نہیں روک سکے ، یہ اداروں میں اصلاحات بھی نہیں لا سکے اور یہ دہشت گردی پر بھی قابو نہیں پا سکے۔ ان کے پاس اپنی ساکھ کی بحالی کا صرف ایک آپشن ہے ، یہ اپنے ماضی کے سارے بیانات اور تبدیلی کے دعووٴں سے دستبردار ہوں، یہ اپنی نااہلی کو قبول کریں ، یہ ملک اور عوام کو عدم استحکام کا شکار کرنے ، نوجوانوں میں نفرت، دشنام اور ہیجان کو پروان چڑھانے اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے پر معافی مانگیں اورآئندہ نفرت اور انتقام کی سیاست سے توبہ کر کے اس ملک اورقوم پر احسان کریں ۔

کیونکہ جس طرح یہ لوگ چل رہے ہیں عوام انہیں مزید برداشت نہیں کریں گے ،عوام اب جان چکے ہیں کہ ملک صرف نیت ٹھیک ہونے، کسی کو چور کہنے اور کسی کی برائیاں بیان کرنے سے نہیں چلتے،ملک چلانے کے لیے عقل اور سمجھ ، تحمل وبرداشت ، تہذیب و شائستگی اور دور اندیش قیادت چاہئے ہوتی ہے اورملا نصیر الدین کے گدھے ان صفا ت سے تہی دست ہیں ۔اگریہ گدھے ا ب بھی نہ سمجھے تو یا یہ خود چھت سے نیچے آ گریں گے یا اکیس کروڑ عوام انہیں دھکے دے کر چھت سے نیچے پھینک دیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :