
بے شعور ذہانت !
اتوار 12 اپریل 2020

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
جو ذہانت ڈرائیوروں اور اسٹاک ایکسچینج کے شعبوں میں اپنا اثر دکھا رہی ہے وہ دوسرے شعبوں سے کیسے اجتناب کر سکتی ہے ، مثلا میں بیمار ہوتا ہوں اور علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں، ڈاکٹر میرے مرض کی تشخیص کے لیے پہلے ٹیسٹ کرے گا ،ہو سکتا ہے مجھے ملیریا ، ڈینگی ، اسہال ، معدے کا کوئی مرض ، ہیضہ یا کینسر ہو مگر ڈاکٹر کو یہ تشخیص کرنے میں کافی وقت لگے گا ،وہ مجھ سے مرض کے بارے میں سوال کرے گا ، میری پچھلی طبی ہسٹری دیکھے گا اور مختلف علامات اور شواہد کی بنا پر کسی ایک بیماری کی تشخیص کر دے گا ، پھر بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے درست تشخیص کی ۔ جبکہ بے شعور ذہانت کمپیوٹر الگوردھم کی مدد سے میرے مرض کی درست تشخیص اوربہترین علاج چند سیکنڈ میں سر انجام دے سکتی ہے ، ڈاکٹر بیک وقت تمام بیماریوں اور ان کی دواوٴں سے واقف نہیں، اس کے پاس میری طبی ہسٹری اور ٹیسٹوں کا ریکارڈ بھی موجود نہیں ، اس کے ساتھ اسے انسانی عوارض مثلا بھوک پیاس ، خوشی غم بھی لاحق ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ درست تشخیص نہیں کر سکتا ۔ سوچیں اگر مستقبل میں طب کے شعبے میں یہ انقلا ب برپا ہوتا ہے تو لاکھوں روپے لگا کر ،نوے فیصد سے زائد نمبر، انٹری ٹیسٹ کے بکھیڑوں اور زندگی کے بہترین چھ سال لگا کر جو ڈاکٹر بنے ہیں ان کا کیا بنے گا۔جو ذہانت طب کے شعبے میں تہلکہ مچا سکتی ہے وہ عدالتوں کو کیوں متاثر نہیں کرے گی ، آج اکثروکیل اپنا سارا دن ایسی فائلوں کی تلاش میں کھپا دیتے ہیں جس میں کسی کیس کے ثبوت درکار ہوتے ہیں ، کسی قاتل کی سابقہ ہسٹری ڈھونڈنی ہوتی ہے یا کسی ایسے معاہدے کی تلاش ہوتی ہے جس میں ان کے موٴکل کو فائدہ پہنچ رہا ہومگرجب بے شعور ذہانت کمپیوٹر الگوردھم کی مدد سے سارا کام چند لمحوں میں کر دے گی تو وکیلوں کے چکر میں کون پڑے گا ۔ جب ماہرین دماغی اسکین کا بٹن دبا کرفورا جھوٹ اور سچ کا پتا لگا لیں گے تو عدالتوں میں کون جائے گا ۔جو ذہانت جیل اور عدالتوں کو متاثر کر سکتی ہے وہ تعلیم کے شعبے کو کیسے متاثر نہیں کرے گی ، مغرب میں کچھ کمپنیاں ایسے الگوردھم بنا رہی ہیں جو مختلف سبجیکٹ انسانوں سے زیادہ بہتر انداز میں پڑھا سکیں گے ، وہ یہ تک محسوس کر لیں گے کہ کس سبجیکٹ میں میری دلچسپی برقرار ہے اور کس سبجیکٹ میں میری آنکھیں بند ہو رہی ہیں ۔ اگر میں سورہاہوں تو یہ پڑھانا بند کر دیں گے اور میرے مزاج کے مطابق پڑھائیں گے ، یہ مجھ پر چیخیں چلائیں گے اور نہ ہی مجھ پر غصہ کریں گے ۔ جو ذہانت تعلیم جیسے اہم شعبے کو متاثر کر سکتی ہے تو وہ دوسرے غیر اہم شعبوں کو کیسے چھوڑے گی اور جب یہ سب ہوگا تو انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا ، یہ اکیسویں صدی کا سب سے اہم سوال ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.