نئے خداوٴں کا ظہور !

اتوار 19 اپریل 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

دجلہ اور فرات دنیا کے قدیم ترین دریا ہیں اور ان دریاوٴں کے درمیان دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں نے جنم لیا ہے ، ماضی میں یہ علاقہ میسوپوٹیمیا کے نام سے جانا جاتا تھا اورآج کل یہ عراق اور اس کے ہمسایہ ممالک پر مشتمل ہے۔سمیری تہذیب اس علاقے کی ترقی یافتہ تہذیب تھی ،اس نے آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل جنم لیااور اپنے وقت کی سپر پاور کہلائی،یہ پہلی تہذیب تھی جس نے شہر بسائے ، شہری نظام وضع کیا ،رسم الخط ایجاد کیا اور چیزوں کو لکھنے اور ریکارڈ مرتب کرنے کی بنیاد ڈالی ۔


 دنیا کی قدیم ترین تحریر سمیری تہذیب کی لکھی ہوئی ہے جس میں” جو“ کا حساب درج ہے ، اتنے ”جو “اتنی رقم کے عوض۔بعد میں اسی رسم الخط سے سامری زبانوں نے جنم لیا جن میں عبرانی اور عربی زبانیں شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اس تہذیب نے دنیا کا پہلا قانون متعارف کروایا اور دنیا کے عظیم مذاہب نے بھی یہیں جنم لیا، فرشتے، جادو اور مرنے کے بعد کی زندگی جیسے تمام تصورات یہیں سے نکلے اور گلگمیش اور عظیم سیلاب کی کہانی جو بعد میں ابراہیمی ادیان میں نوح کی کہانی کہلائی وہ بھی یہیں سے شروع ہوئی۔

یہ لوگ مختلف خداوٴں پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے دو ہزار بت تراش رکھے تھے، یہ نہ صرف ان کی عبادت کرتے تھے بلکہ اپنی زمینیں بھی ان کے نام کر دیتے تھے اور سمیری تہذیب کے اکثر خطے ان بے جان خداوٴں کی ملکیت تھے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بے جان خداوٴں کی ملکیت صرف ماضی کے قصے کہانیاں نہیں تھیں بلکہ یہ دنیا ایک بار پھر بے جان خدووٴں کی ملکیت ہو نے جا رہی ہے۔

وہ کیسے ؟
 اس کے لیے آپ کو میرے ساتھ چلنا پڑے گا،2004میں ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے پروفیسرفرینک لیوی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ مرنین نے سروسز کے شعبے پر تحقیق کی کہ آنے والی دہائیوں میں کون سی خدمات ایسی ہیں جنہیں مصنوعی ذہانت سے خطرہ ہے اور وہ بالکل ختم ہو جائیں گی ۔ انہوں نے جو نتائج پیش کیے ان میں صرف چند خدمات کا تذکرہ کیاکہ آنے والے زمانے میں صرف چند خدمات مصنوعی ذہانت سے متاثر ہوں گی، ساتھ ہی انہوں نے لکھا ڈرائیونگ ایسا پیشہ ہے جس کو مصنوعی ذہانت متاثر نہیں کر سکے گی ، اس کی وجہ بڑی دلچسپ تھی ، انہوں نے لکھا کہ ڈرائیونگ ایسا پیشہ ہے جسے صرف صاحب عقل اور باشعور انسان ہی سر انجام دے سکتے ہیں ، لہذا مصنوعی ذہانت خواہ جتنی مرضی ترقی کر لے وہ ذہین اور باشعور انسانی ڈرائیور کی جگہ نہیں لے سکتی، مگر ٹھیک دس سال بعد فرینک لیوی اور رچرڈمرنین کی یہ ریسرچ اپنا سر پیٹ رہی تھی ۔

گوگل نے ٹھیک دس سال بعد ان کی یہ پیشنگوئی غلط ثابت کر دی ، اگست 2015میں گوگل نے نہ صرف خود کا ر گاڑی سڑکوں پر نکال دی بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ اس خو د کار اور بے شعور گاڑی کے حادثات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہو گی ۔ ستمبر 2015میں آکسفور ڈ یونیورسٹی کے دو پروفیسر بینیڈکٹ فرے اور مائیکل اوسبورن نے ایک تحقیق پیش کی جس کا عنوان رکھا” خدمات کا مستقبل“ ، اس تحقیق میں انہوں نے بتایا کہ اگلے بیس سالوں میں کمپیوٹر الگوردھم سینکڑوں خدمات کو تہس نہس کر دے گا ۔

ڈرائیور، نانبائی، مکینک، وکیل ، ٹیچر، گائیڈ ، پلمبر، کیشئر، ویٹر، کھیلوں کے ریفری، باورچی، ڈاکٹر اور نہ جانے کتنے ہی ان گنت شعبے ایسے ہیں جو آئندہ بیس سالوں میں باشعور انسانوں کے ہاتھوں سے بے شعور ذہانت اور کمپیوٹر الگوردھم کے قبضے میں چلے جائیں گے ۔ اگرچہ اس ریسرچ کے اعداد و شمار ترقی یافتہ ممالک کے تھے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ترقی پذیر ممالک ان تبدیلیوں سے محفوظ رہیں گے ۔

کوئی بھی نئی ایجاد جب آتی ہے تو اس کے اثرات محدود اور ترقی یافتہ طبقے تک مرکوز ہوتے ہیں مگرکچھ وقت گزرنے کے بعد وہ چیزیں عام عوام کو بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ جب آیا تھا تو پہلے یہ صرف خاص طبقے تک محدود تھا لیکن آج دنیا کا ہر فرد اس سے مستفید ہو رہا ہے ، ایسے ہی مستقبل میںآ نے والے انقلابات پوری دنیا کو متاثر کریں گے ۔

اسی کے ساتھ ایک یہ سوال بھی جڑا ہے کہ آج ہم اپنے بچوں کو کون سی تعلیم دلوائیں کیونکہ ہماری درسگاہیں آج جو تعلیم اور ہنر دے رہی ہیں آنے والے وقتوں میں وہ سب غیر متعلق ہو کر رہ جائیں گے ۔ 
انیسویں اور بیسیوں صدی انسانیت پرستی کی صدیاں کہلاتی تھیں ، ان دوصدیوں میں جتنے بھی فلسفے اور نظریات آئے سب کا مرکزی نقطہ انسانیت پرستی تھا، سولہویں صدی کے بعد سے ہیومن ازم سب سے مقبول مذہب چلا آ رہا ہے ، سماج اور اخلاقیات کے تمام قوانین اسی مذہب کے پیش نظر وضع کیے گئے اور انسانیت پرستی کی وجہ سے ہی مغربی فلسفیوں کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ خدا مر چکا ہے ۔

وہ وقت قریب نہیں جب یہ زمینی سیارہ ایک نئے نعرے سے روشناس ہو گا کہ انسانیت مر چکی ہے ۔ماضی میں جس ملک کے پاس افرادی قوت یا زیادہ فوج ہوتی تھی وہ ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھالیکن مستقبل میں انسانیت اپنی اہمیت کھو دے گی، مستقبل کے جنگی منظرنامے میں بہادر سپاہیوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگیں مصنوعی ذہانت سے لڑی جائیں گی، فضا میں دو ڑون طیارے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے ، ایک ڈرون طیارہ دور کسی مورچے میں بیٹھے انسانی ہاتھوں سے کنٹرول ہو رہا ہوگا جبکہ دوسرا ڈرون مکمل طور پر خود مختار ، ظاہر ہے جب تک پہلا ڈرون انسانی کنٹرول سے ہدایات وصول کرے گا تب تک خود مختار ڈرون اپنے ہدف کو نشانہ بنا چکا ہوگا ۔

یہ دو ڈرونز کی جنگ کا منظر ہے ، اگر ایک طرف ڈرون اور دوسری طرف انسانی سپاہی ہوں تو اندازہ کریں یہ کتنی مضحکہ خیز اور یک طرفہ جنگ ہوگی ، جب تک باشعور اور ذہین سپاہی پیش قدمی کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہوں گے خود مختارڈرونز جنگ کا فیصلہ کر چکے ہوں گے ۔
 ایسے میں لاکھوں کی تعداد میں فوج رکھنے کامتحمل کون ہو سکتا ہے جس کو اربوں ڈالرز تنخواہ بھی دینی پڑے گی ۔

ماضی میں افراد ی قوت ملکوں اور بادشاہوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی مگر مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا، اسی ضرورت کی وجہ سے امریکہ نے 1920میں عورتوں کو حق رائے دہی دیا کہ یہ بھی صنعتوں میں کام کریں ، بازار اور مارکیٹ چلائیں ، کارخانوں میں کام کریں اور میدان جنگ میں خدمات سر انجام دیں ۔ لیکن یہ بیسویں صدی کی مجبوریاں تھیں ، اکسیویں صدی بے شعور ذہانت اور کمپیوٹر الگوردھم کی صدی ہے اور اس میں انسانیت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں ۔

اگر مستقبل میں خو د کار گاڑیاں مارکیٹ میں عام ہوجاتی ہیں اور اوبر اور کریم اپنے طاقتور الگوردھم کی مدد سے صرف چند انسانوں کو ملازم رکھ کرایسی لاکھوں گاڑیوں کی نگرانی کر تے ہیں تو سوچیں کتنے لاکھ لوگ بے روز گار اور بے کار ہو جائیں گے ۔اسی طرح اگر یہ طاقتور الگوردھم دوسرے شعبوں میں بھی اسی ا نداز میں کام کرنے لگتے ہیں تو یقینی طور پر زمینی سیارے پر کروڑوں انسان بے روز گار ہو جائیں گے ۔

 اس سارے منظر نامے کا دوسرا پہلو یہ ہو گا کہ وہ چند افراد جو ان طاقتور الگوردھم کے مالک ہوں گے ساری دنیا کی دولت اور طاقت سمٹ کر ان کے ہاتھوں میں چلی جائے گی ، اس صورتحال میں اس زمینی سیارے کے اصل مالک وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کارپوریشنیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں یہ طاقتور الگورھم ہوں گے ، اگرچہ یہ کمپنیاں اور کارپوریشنیں آج بھی زمینی سیارے کے بہت سارے حصوں پر قابض ہیں مگر آنے والے زمانے میں یہ سارے سیارے کے حاکم ہوں گے اور انسانیت ایک بار پھر سمیری تہذیب کے دورمیں دھکیل دی جائے گی اور یہ زمین ایک بار پھر بے جان خداوٴں کی ملکیت ہو گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :