پلیز آپ سمجھ جائیں !

اتوار 6 ستمبر 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے پچھلا کالم جاوید چوہدری صاحب کے ان کالمز کے رد میں لکھا تھا جس میں انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی، کالم پڑھنے کے بعد چوہدری صاحب کا رد عمل تھا کہ مجھ سے ذاتی طور پر پوچھا جائے تو میں ہرگز نہیں کہوں گا کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے ۔ ان کا یہ موٴقف جان کر مجھے شدید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے پچھلے تینوں کا لمز کا لب لباب صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی تھی ، قارئین کو فکری پراگندگی کا شکار کرنے کے بعد وہ بڑے اطمینان سے کہہ رہے تھے کہ میں اس کے حق میں نہیں ہوں ۔

ان کے کالمز پر حامد میر صاحب اور عامر خاکوانی صاحب بھی گرفت کر چکے ہیں ، میری طرف سے مزید گزارشات پیش خدمت ہیں ۔

(جاری ہے)

چوہدری صاحب کا اصرار ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ :”ہماری اصل لڑائی عیسائیوں سے ہے اور ہم نے چودہ سو سال میں یہودیوں کے ساتھ ایک جنگ بھی نہیں لڑی۔ قرآن میں یہودیوں اور عیسائیوں دونوں سے تعلقات بڑھانے کی ممانعت ہے ، یہ قرآن کا حکم ہے اور یہ برحق ہے‘ ہم میں سے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا لیکن اس حکم میں تو ہمیں یہود اور نصاریٰ دونوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ہم نے عیسائی دنیا کے تمام ممالک کو تسلیم بھی کر رکھا ہے اور ہمارے ان کے ساتھ برادرانہ تعلقات بھی ہیں‘ ہم افغان جہاد تک امریکی امداد سے لڑتے رہے ہیں جب کہ ہم اسرائیل کے خلاف ہیں‘ لہٰذا ہم اگر اس آیت پر عمل کر رہے ہیں تو پھر ہمیں عیسائیوں سے بھی قطع تعلق کر لینا چاہیے اور تمام عیسائی ملکوں کو بھی مسترد کر دینا چاہیے مگر ہم یہ نہیں کر رہے۔

“چوہدری صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس آیت سے وہ یہ مفہوم اخذ کر رہے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ،اس پر خامہ فرسائی سے قبل چوہدری صاحب کو چاہئے تھا کہ کسی عالم سے اس کا مفہوم سمجھ لیتے۔پاکستان کیا کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کو اس آیت کی روشنی میں تسلیم کرنے سے ا نکاری نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ اصولی موقف ہے کہ اسرائیل کوناجائز طوراور جابرانہ طریقے سے پہلے سے موجود ایک ریاست اور اس کے باشندگان پر ظلم و ستم کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔

جب چوہدری صاحب کا بنیادی مقدمہ ہی غلط ہے تو اس پر مزید تفریعات کہ ہم نے عیسائی ملکوں کو تو تسلیم کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ انتہائی سطحی باتیں ہیں جنہیں پڑھ کر گھن آنے لگتی ہے کہ ملکی سطح کا کالم نگار اور بزعم خود مائنڈ چینجر اس طرح کی بے تکی باتیں بھی کر سکتا ہے۔باقی اس آیت کا منشا اور غیر مسلموں سے تعلقات کے ضمن میں اسلام کی اصولی تعلیمات یہ ہیں کہ اسلام کسی بھی غیر مسلم سے رسمی تعلقات کرنے سے منع نہیں کرتا۔

اس کے بعد چوہدری صاحب علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسی اصول پسند شخصیات پربہتان باندھنے سے بھی نہیں چونکے ، لکھتے ہیں :” ہم نے ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں یہ سب کیا ، اگر علامہ اقبال اور قائد اعظم حیات ہوتے تو وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں پوزیشن بدل لیتے، فیصلہ ہمیشہ حالات کرتے ہیں ۔“چوہدری صاحب کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ 1948 ء میں پاکستان سمیت تمام مسلم دنیا نے اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا تھااس کی فوری وجہ فلسطین کے بے گناہ مسلمانوں کو ان کی ملکیتی زمین سے محروم کرکے اسے یہودیوں کو دے دینا تھاجس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مسلمان بے گھر ہو گئے تھے اور آج تک مہاجربن کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

اس لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم آج بھی اگر حیات ہوتے تو اپنے اس اصولی موقف پر قائم رہتے اور کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہ کرتے، علامہ اقبال اور قائد اعظم آپ کی طرح مفادات کے اسیر نہیں تھے بلکہ وہ اصول پسند انسان تھے ، وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے اس لیے آپ کو یہ خامہ فرسائی کرنے اور اقبال اور قائد اعظم جیسی اصول پسند شخصیات پر بہتان باندھنے سے قبل سو بار سوچنا چاہئے تھا۔

چوہدری صاحب کا ایک بنیادی استدلال یہ تھا کہ جن ممالک کی محبت میں ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے وہ تو اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں تو اب ہمیں کیا ایشو ہے اور ہم کیوں اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے۔ چوہدری صاحب کا اشارہ مصر اور اردن کی طرف ہے ، میر ا حسن ظن تھا کہ انہوں نے مصر اور اردن کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تاریخ پڑھی ہوگی مگر افسوس کہ ان کی تحریر پڑھنے کے بعد وہ حسن ظن قائم نہیں رہ سکا ، کیا مصر اور اردن نے بخوشی اسرائیل کو تسلیم کیا تھا ، کیا اسرائیل کی پشت پناہ طاقتوں نے انور سادات کو اقتدارکے تحفظ کا لالچ نہیں دیا تھا ، کیا انور سادات کو اسرائیل تسلیم کرنے کے عوض یہ یقین نہیں دلایاگیا تھا کہ اس کی آمریت کو برقرار رکھا جائے گااور کیا مصر ی عوام نے انور سادات کے اس فیصلے کو بخوشی تسلیم کر لیا تھا اور کیا آج بھی مصر ی عوام انور سادات کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور کیا مصری قیادت آج تک اپنے اس فیصلے پر نہیں پچھتا رہی۔

کیا اردن کے شاہ حسین نے بھی اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اورکیا امریکہ اور برطانیہ نے شاہ حسین کو اقتدار کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی تھی۔ کیا ان دونوں مفادپرست حکمرانوں کا فیصلہ باقی باون اسلامی ممالک کے لیے قابل مثال بن سکتا ہے اور اگر دیکھنا ہی ہے تو پاکستان ان دو ممالک ہی کی طرف کیوں دیکھے باقی جن باون ممالک نے تسلیم نہیں کیا ان کی طرف کیوں نہ دیکھا جائے۔

اور چوہدری صاحب کی خواہش کے مطابق اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو چوہدری صاحب نشاندہی کرنا چاہیں گے کہ وہ کون سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں ، کیونکہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ”عظیم تر اسرائیل “ کا نقشہ آویزاں ہے جس میں اردن ،مصر ، شام ، حجاز حتی کہ مکہ اور مدینہ بھی شامل ہیں ، اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں: ”اے اسرائیل! تیری حد یں نیل سے فرات تک ہیں۔

“چوہدری صاحب کو ایک اعتراض یہ تھا کہ پاکستانیوں نے اردن میں موجود فلسطینی مہاجرین پر بمباری کی تھی اس کا جواب محترم عامر خاکوانی اپنے کالم میں دے چکے ہیں جسے گوگل کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ موصوف کا ایک استدلال یہ تھا کہ یہ سراسر سفارتی ایشو ہے ، عرب ممالک اپنے مفادات کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں لہذا ہمیں بھی اپنے مفادات دیکھنے چاہییں۔

یہ مفادات کیا ہیں ، ہمیں عالمی طاقتوں سے امداد مل جائے گی اوریہودی بینکوں سے قرض مل جائے گا وغیرہ۔ چوہدری صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ضمن میں ہمیں جو مفادات حاصل ہوں گے اس سے کہیں زیادہ ہم اپنے اصولی موقف پر قائم رہ کر اور اسرائیل کوتسلیم نہ کر کے حاصل کر رہے ہیں ۔ پچھلے پچاس سالوں میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے ہمیں جو مالی امداد ملی وہ کھربوں میں ہے ، خلیج کی پہلی جنگ کے بعد سعودی عرب ہمیں رعایتی نرخوں پر تیل دیتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

موصوف کو ایک اعتراض یہ تھا کہ ہم عربوں اور فلسطین کے لیے مر ے جا رہے ہیں مگر عربوں اور فلسطینیوں نے کبھی کشمیر پر بات نہیں کی ، فلسطینی کبھی کشمیریوں کے حق میں سڑکوں پر نہیں آئے۔ یہ عجیب منطق ہے ، یعنی ہمیں اسرائیلی مظالم کو صرف اس لیے تسلیم کرلینا چاہئے کہ فلسطینیوں نے کشمیریوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی ، کیا ہم صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ عرب مسلمان ہیں ، کیا فلسطین کی حقیقی نمائندہ جماعت حماس نے کبھی کشمیریوں کے حق میںآ واز نہیں اٹھائی اور کیا انہوں نے کبھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی نہیں کیا۔

موصوف اس ایشو پر لکھنے سے پہلے تھوڑی سی بھی ریسرچ کر لیتے تو انہیں یہ حقیقتیں واضح نظر آجاتیں۔اور آخری بات یہ کہ چوہدری صاحب کو اس طرح کی بے پرکیاں اڑانے سے قبل اسرائیل کی پاکستان سے دشمنی نظر نہیں آتی ، اسرائیل اور بھارت کی بڑھتی دوستی اور دونوں ممالک کی پاکستان کو زچ کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازشیں ، پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کی کوششیں اور کشمیر میں اسرائیلی افواج کی موجودگی ، اس سب کے ہوتے ہوئے کوئی ذی شعور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کیسے کر سکتا ہے۔


چوہدری صاحب آپ نے لکھا تھا ”پلیز مجھے بھی سمجھا دیں “ کہ اصل ایشو کیا ہے، مذکورہ حقائق کے بعد اب میری آپ سے گزارش ہے کہ پلیز آپ سمجھ جائیں اور اگر اب بھی آپ اپنے موقف پر بضد ہیں تو پھر شاید آپ سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :