
بھکر کی سیاست، صحافت اور ادب
اتوار 11 اکتوبر 2020

محمد ثقلین کانجن
مدت ہوئی، اپنے وسیب اپنی دھرتی پر کچھ نہیں لکھا۔ یار دوستوں کا بھی اصرار تھا۔ بھکر کی سیاست اور علاقائی مسائل پر خامہ فرسائی کی جائے۔
(جاری ہے)
بھکر کی سیاست دو خاندانوں کے گرد گھومتی ہے، نوانی اور ڈھانڈلہ۔ ان دو گروپوں کی سیاست میں پھر مزید خاندان شامل ہو جاتے ہیں۔
ان خاندانوں کی سیاست پر مزید مغز ماری کی بجائے، پہلی بات تو یہ ہے کہ زندگی نوانیوں اور ڈھانڈلوں سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے۔ کیا ہوا کئی مسائل حل نہیں ہو سکے تو آج کے صاحب مسند روز روز تو نہیں آئیں گے۔ عوام کےلئے کوئی بھلائی کا کارنامہ سر انجام دے گئے، تو امر ہو جائیں گے۔ورنہ تھیٹر کے اس کردار کی مانند ہو جائیں گے۔ جو سٹیج پر تو طمطراق سے جلوہ دیکھاتا ہے۔ لیکن رول کے اختتام پذیر ہوتے ہی پردے کے عقب میں چھپ جاتا ہے۔ اور اس کی جگہ کوئی نیا چہرہ آ کر رونق افروز ہو جاتا ہے۔
سب مایا ہے، سب فرضی ہے۔ جہاں سے آئے تھے، وہی لوٹ جانا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہو گا، جس کے ذمے جو کام تھا، اس کی باز پرس ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھکر کے مسائل تو بے انت ہیں۔ لکھا بھی بہت کچھ جا سکتا ہے۔ لیکن حاصلِ نوشت کیا ہو گا۔ کچھ بھی نہیں، محض یہ کہ اخبار کا صحفہ کالا ہو گا۔ ویسے مفت مشورہ کی قدر کوئی نہیں ہوتی۔ تو ہم کاہے کو نوانی، شہانی،ڈھانڈلہ، چھینہ، حسن خیلی، مستی خیل کے شکوے چھیڑ دیں۔
یہ تو ماشاءاللہ سارے بھکر کے درخشندہ ستارے ہیں۔ سارے عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ اور کئی پشتوں سے بھکر کی عوام کے خادم ہیں۔ وہ الگ بات ہے، کہ بھکر کے مسائل حل نہیں ہو سکے۔ بھکر شہر کی گذرگاہوں سے اٹھتی گرد، سڑکوں کے قلب میں پڑے گڑھے، گلیوں میں بہتا گندہ پانی اور بھکر شہر کی مغربی جانب پانی کا جوہڑ تو مسئلے ہی نہیں ہیں۔ چاہے محکمہ صحت انکشاف کر چکا ہو کہ اس گندے پانی کی وجہ سے گردونواح کی آبادی میں ہپاٹائٹس لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ہم کسی کا گلہ شکوہ نہیں کرتے کہ کچھ یاراں انجمن برا مان جائیں گے۔ ارے ہم ان کو فراق گورکھپوری کی زبان میں کیسے سمجھائیں کہ دوست تیرا ہے مگر آدمی اچھا بھی نہیں۔
ہم یہ شکوہ بھی نہیں کرتے کہ عدم سہولیات کے سبب سینکڑوں بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔
ہم یہ سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ تھل یونیورسٹی، تھل میڈیکل کالج کدھر ہیں؟ اور ہم یہ بھی استفسار نہیں کرتے کہ آج بھی بہت سے علاقوں میں بجلی اور صحت کی سہولت کا فقدان کیوں ہے؟ ہم تو یہ بھی پوچھنے سے اجتناب کر رہے کہ بھائی ایم ایم روڈ کب ون وے بنے گا؟ جہاں آئے روز، حادثات کے سبب منزلوں کو جاتے مسافر، ایم ایم روڈ کا روڑا ہو جاتے ہیں۔
ان بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے ساتھ ساتھ بھکر کا سب سے اہم مسئلہ گرانٹوں میں کرپشن اور لوٹ مار ہے۔ جب سے بھکر ضلع بنا ہے۔ تب سے لے کر آج تک کی امدادی رقوم کا آڈٹ یعنی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔ تاکہ عوام کے سامنے حقائق آ سکیں۔ اور عوام اپنے محبوب سیاست دانوں کا اصل چہرہ دیکھ سکیں۔ اہل نظر تو پہلے سے جانتے ہیں۔بھکر کو کس نے لوٹا اور پورے پاکستان میں جائیدادیں کس نے بنائیں؟
جن گرانٹوں کی تختیاں نصب ہیں۔ ان گرانٹوں کے چمت کار بھی نظر نہیں آتے۔ بس فرضی تختیاں آویزاں کرنے کی رسم پوری کی گئی ہے۔ امید ہے نیب بھکر کی طرف بھی اپنی کرم فرمائی کرے گی۔ ایک صاحب کا تو کیس بھی چل رہا ہے۔ امید ہے باقی بھی نیب کے مہمانِ خصوصی جلد ہوں گے۔ شاید نیب کی کارروائیوں سے کچھ طبقے بچ جائیں، لیکن ماضی قریب میں غریب عوام کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے تو لازمی ذلت و رسوئی دیکھ کر مریں گے۔ یہ نظامِ قدرت ہے۔ غریبوں کی آہ و فغاں سنی جائے گی۔ وہاں انصاف ضرور ہو گا۔ ان بھکر کے سیاست دانوں میں سے کون ظلم اور عدم مساوات سے اپنے اپنے آپ کو مبرا سمجھتا ہے؟
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ جنابِ حضرتِ علی کرم وجہہ علیہ بطورِ حاکم جب کوفہ میں داخل ہوئے تو فرمایا؛
" اے لوگو! میں اپنے جسم پر جو لباس پہن کر اور جس سواری پر سوار ہو کر تمہارے شہر میں داخل ہوا ہوں، اگر واپس جاتے ہوئے اس کے علاؤہ میرے پاس کوئی اور چیز ہو جان لینا کہ میں نے تمہارے حق میں خیانت کی ہے"
یہ حضرتِ علی کرم وجہہ علیہ کا محض کوفہ والوں سے خطاب نہ تھا۔ بلکہ ہر اس شخص کےلئے تھا، جو کسی عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس چند لائنوں کے خطبہ میں دانش اور علم کا سمندر گویا کوزہ بند ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی سمجھے، سوچے تو۔
بھکر کی سیاست کے ساتھ ساتھ بھکر کی صحافت بھی بھکر کا المیہ ہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ مقامی اخبار بھکر سے شائع ہوتے ہیں۔ یہ چودہ، پندرہ اخبار مل کر بھکر کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔
وہ علیحدہ بات کہ سچ کی راہ میں تعلق داریاں اور کچھ رسم و راہِ حائل ہو جاتے ہیں۔ ماشاءاللہ سے بھکر کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ہر بیسواں بندہ صحافی ہے۔ جو قابلِ رحم اور مسائل سے دوچار عوام کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ آواز کہیں شہر کی کسی بلند عمارت سے ٹکرا کر خلاء میں غائب ہو جاتی ہے۔
لیکن کچھ باضمیر، غیر جانبدار صحافی بھی اس شہر کی زینت ہیں۔
جو حق کی آواز کو بلند کرتے ہیں۔ اور حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کو ابھارتے ہیں۔ ایسے باکردار لوگ معاشرے، شہر اور ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ لیکن بھانت بھانت کے صحافیوں سے پھر بھان متی کا خدشہ رہتا ہے۔ لحاظ تھوڑے ہی بہتر ہیں، جو عوام کے مسائل سے شناسائی رکھتے ہیں۔ اور عوام کے حقوق کی قلم سے رکھشا کر سکتے ہیں۔
بھکر کی سیاست اور صحافت کے ساتھ بھکر میں لکھا جانا والا ادب بھی معیاری نہیں ہے۔ ادب وہ ہوتا ہے، جس کے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔ بھکر میں زیادہ تر شاعری پر طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ چند شعراء کافی اچھا بھی لکھ رہے ہیں۔ اور ذی وقار لوگ اس کو سراہا بھی رہے ہیں۔ لیکن یہ دریا کے مقابلے میں کسی جھیل کی مانند ہے۔ لیکن کیا دریا کسی جھیل کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے؟
ادب، صحافت اور سیاست پر تنقید کر کے میں کوئی خود کی بڑھائی بیان نہیں کر رہا۔ بلکہ اس جانب توجہ مبذول کروا رہا ہوں کہ ان شعبوں اور پہلوؤں پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خصوصاً ہم صحافت اور ادب کے میدان میں اعلیٰ پائے کے لوگ تیار کرسکیں، جو ملک اور قوم کا نام روشن کر سکیں۔ میانوالی اور لیہ ہمارے پڑوس کے اضلاع ہیں۔ آج ان دونوں اضلاع کے لوگ بین الاقوامی سطح پر علاقے اور ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں صحافیوں کی آپس میں نہیں بنتی اور شعراء کرام تو ویسے بھی خودپسند ہوتے ہیں۔ اہل سیاست کی تو بات نرالی ہے۔ وہ ہمارے خان ہیں۔ وہ سردار ہیں۔ ان سے گلہ شکوہ نہیں کرنا، ان کی شان کے خلاف ہو جائے گا۔
بھکر میں نئے لکھنے والے کو سپورٹ نہیں کیا جاتا۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ جو راہ نمائی کرتے ہیں۔ آج سے پانچ سال پیشتر کی بات ہے۔ میں نے گاؤں سے بھکر شہر تعلیم کے سلسلے میں سکونت اختیار کی تو مجھے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے ایک دو بھکر کے نامور کالم نگاروں سے رابطہ کیا۔ اور اپنی خواہش کا ذکر کیا کہ میں لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے گائید کریں تو ان لوگوں نے بات تک نہ پوچھی۔
جب کسی علاقے کے دانشوروں کی اتنی چھوٹی سوچ ہو تو پھر کہاں اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہو سکتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو انگلی پکڑ کر راستہ دیکھاتے ہیں۔ جو آپ کی زندگی میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جو میں آج ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑ لیتا ہوں۔ یہ بھکر کے نامور صحافی جناب اعجاز خان اور شاعر جناب اقبال حسین کا احسان ہے، ان لوگوں نے میری ڈھارس باندھی اور حوصلہ افزائی کی، آج بھی گاہے بگاہے یہ مجھے اپنی آراء سے مستفید کرتے ہیں۔ یہ میرے محسن ہیں۔ خدا ان کو سلامت رکھے۔ میرے کالم کا موضوع تو ایسا ہے، جو کسی ضغیم کتاب کا متقاضی ہے۔ بہر حال وقتاً فوقتاً اس موضوع پر لکھتے رہیں گے۔ " ہر سخن ساز روایت پر دردو و سلام"
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین کانجن کے کالمز
-
تھل کی یاد میں راکھ سے لکھا گیا کالم
پیر 13 دسمبر 2021
-
کٹاس راج کے مندر اور آنسوؤں کا تالاب
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سویک جھیل کے پانیوں پر اترتے پرندے اور کوہ نوردی کرتے قافلے
بدھ 14 جولائی 2021
-
سمندر کے پانیوں سے ابھرتا سورج
بدھ 19 مئی 2021
-
پاکستان کا المیہ
جمعہ 5 فروری 2021
-
انسانیت مر چکی ہے
ہفتہ 9 جنوری 2021
-
یہ سال بھی گزر گیا
منگل 29 دسمبر 2020
-
نفرت کی آگ
ہفتہ 12 دسمبر 2020
محمد ثقلین کانجن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.