کیا تم نے اُس کا دل چیرکردیکھا تھا؟

منگل 22 جنوری 2019

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

اسلام کے نام پروجود میں آنے والی اس مملکت خدادادکی سپریم کورٹ وپارلیمنٹ ،صوبہ شہر،قصبہ ،دیہات یہاں تک کے گلی کوچہ ہرگھڑی کسی نہ کسی بیرونی واندرونی خلفشاروفتنہ فساد کی آماجگاہ بنے رہتے ہیں ۔آئین پاکستان سے لیکرغریب کی ریڑھی تک محفوظ نہیں ہے ۔سبھی ایک دوسرے سے دست وگریبان نظرآتے ہیں ۔پہلے زخم ابھی مندمل ہونے نہیں پاتے کہ تازہ زخموں سے جسم وروح تڑپ اٹھتی ہے امن وسکون عُنقاہوتاچلاجارہاہے ظلم وبربریت کی آندھیاں تھمنے کونہیں آرہیں غیرو ں سے کیاشکوہ یہاں تواپنے ہی بیگانے ہوگئے جن حالات وواقعات سے ہماراپیاراوطن اوراس کے باسی دوچارہیں اس میں ایک محب وطن شہری اپنے آپ کو بے حدمجبورومقہورسمجھتا ہے ۔

وہ سہما اوردم بخود نظرآتا ہے ۔وہ ایک جانب اپنے حکمرانوں کی بے دینی والحاد اورخود غرضی کا شکوہ کرتا ہے تودوسری جانب مذہب کالبادہ اوڑھے ہاتھوں میں شمشیرلئے اخلاق وتدبّر سے تہی دامن نیم ملّاؤں سے خوفزد ہ ہے اندھیرنگری کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ” ہُوکاعالم“ہے۔

(جاری ہے)


 قرب قیامت کی ایک بہت بڑی نشانی کے قاتل ومقتول ہردواپنے عمل کی علّت سے ناآشنانظرآئیں گے پوری ہورہی ۔

تحقیق کادامن انتہائی تنگ دکھائی دیتاہے رحمت للعالمین ﷺنے ایک لشکرکوجہادکے لئے روانہ کیاگھمسان کی لڑائی میں حضرت اسامہ بن زید اورایک انصاری صحابی ایک کافرکا تعاقب کرتے ہوئے اس کے قریب جاپہنچے تواس نے فوراکلمہ پڑھناشروع کردیا تواس پرانصاری نے ہاتھ روک لیا لیکن حضرت اسامہ جواس وقت کم عمروناتجربہ کارتھے ا ن کے نیزے کے وارنے اس کاکام تمام کردیالشکرواپس لوٹتاہے پیغمبرعدل وانصافﷺ کی بارگاہ میں پہنچتاہے کارگزاری سنتے ہی یکلخت چہرہ انورﷺ سرخ ہوجاتاہے استفسارہوتاہے کہ کلمہ سننے کے باوجودکیوں قتل کیاگیا؟توجواب آتاہے کہ مقتول کلمہ کی آڑمیں اپنابچاؤ چاہتاتھا دل وجان سے ادائیگی نہ تھی یہ سننا تھا کہ فرمان نبوی ﷺہوا کیا تم نے اس کادل چیرکردیکھا تھااس میں انکو تنبیہ تھی کہ تمہارایہ عذرقابل قبول نہیں صحابی رسول ﷺفرماتے ہیں کہ آپ ﷺباربار یہ جملہ دہرارہے تھے جس سے مجھے اس قدرندامت ہوئی کہ میں دل میں کہنے لگاکہ کاش میں آج سے پہلے اسلام ہی نہ لایاہوتا۔

وہ ساری زندگی اس پرپشیمان رہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے بندوقوں کارخ کسی کافرکی طرف نہیں بلکہ نہتے کلمہ گوکی طرف تھاجنہوں نے شایدکبھی کسی دہشت گردکودیکھا بھی نہ تھا آج انہیں دہشت گردوں کا ناپاک لبادہ اوڑھاکرگولیوں سے چھلنی کردیاگیا۔جن معصوم فرشتہ صفت ننھے منّھے بچوں کے سامنے انکے والدین پراندھادھندگولیوں کی بوچھاڑکی جاتی ہے ۔

ان کے قلوب واذہان کی سفیدپوشاک کوخون سے رنگین کردیاجاتا ہے شایدانکی آنکھیں اس خونی منظرکوکبھی نہ بھلاسکیں ۔جن ہاتھوں نے انکی آنکھوں میں پنپتے خوبصورت خوابوں کی تعبیر چھینی شایداب وہ خود کبھی سکون کی نیند نہ سوسکیں ۔
 یہ بات بہت حدتک حقیقت پرمبنی ہے کہ ریٹنگ کے جنون نے آج جہاں پرنٹ وسوشل میڈیاکواندھاکررکھا ہے وہیں قانون کے رکھوالوں کی آنکھوں پربھی سیاہ پٹیاں باندھ دی ہیں جنہیں ہرسُودشمن ہی دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی غلطی ماننے کے لئے تیارنہیں بلکہ اسکی تاویلیں گھڑی جاتی ہیں اسکی وجہ ناعاقبت اندیشی اوراختیارات سے تجاوزہے امن ومان کا نعرہ لگانے والے سربازارامن کی دھجیاں اڑارہے ہیں خون آشام صورتحال میں اہل نظر وبہی خواہان وطن کا اضطراب ختم ہونے کو نہیں ۔

سووہ کریں توکیا ؟وہ اپنے آپ کو ہرلمحہ غیرمحفوظ سمجھتے ہیں انہیں گھرسے باہرکسی اجنبی درندے کی غائبانہ گولی کا خوف ہے تو گھر کی چار دیواری کے اندرکسی نقب زن کا خوف ہے جواسے وہاں خون میں لت پت نہ کردے ۔اس کی کہیں شنوائی نہیں اس کاتوساراجسم چھلنی ہے وہ کس کس جگہ مرہم رکھے ؟کیا اس کا دین ،ایمان ،مال جان ، اولاد،معاش سب ہی بے قیمت ہوجا ئے گا اس کے لئے کوئی امن کی جگہ نہیں کوئی اس کی دادرسی کر نے کے لئے تیار نہیں ۔لیکن آخرکب تک وہ اس طر ح گُھٹ گُھٹ کرزندگی بسرکرتا رہے گا ۔ارباب بصیرت کو بیدارہونا ہوگا اس رنجید ہ وزخم خورد ہ کو سہارا دینا ہوگا ۔کوئی مثبت حکمت عملی طے کرناہوگی تاکہ آئندہ ایسے اندوہناک واقعات کی بیخ کنی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :