ترکی ،اردگان ،اورارطغرل۔ قسط نمبر4

جمعرات 2 جولائی 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

ارطغرل غازی کے متعلق یہ پروپیگنڈاکہ وہ غیرمسلم تھے بالکل بے سروپاہے سستی شہرت کے خواہش مندکچھ نادان دوست بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کے خواہاں ہیں ان سے دردمندانہ التماس ہے کہ وہ قومی ،علاقائی اورلسانی ومذہبی تعصب سے ماوراء ہوکروسعت ظرفی سے حقیقت کااعتراف کریں ،اسی طرح ارطغرل غازی سیریل دیکھنے والے تما م دوستوں سے بھی التماس ہے کہ حقیت اورڈرامہ میں فرق کو ملحوظ خاطررکھیں ،ماضی کی شانداررویات واقدارسے عبرت ضرور حاصل کریں،امت مسلمہ کی قابل رشک تاریخ کامطالعہ بھی کریں لیکن ڈرامہ کے فرضی کرداروں کی زندگی کی تحقیق کی بجائے حقیقی کرداروں کی قابل تقلید زندگی اورکارناموں کوعملی زندگی میں اپنانے کی کوشش کریں
یاد رکھیں ڈرامہ میں ارطغرل کاکرداراداکرنے والااینگن لتن دزیتن ،حلیمہ سلطان کاکرداراداکرنے والی اسرابِلگِچ،اورتورگت الپ کاکرداراداکرنے والا جنگیزجاشکن اوردیگرسب کردار ترک فلم اندسٹری کے ایکٹرزہیں جن کی ذاتی زندگی اورمعاملات کوحقیقی پس منظرمیں دیکھنا،پرکھنااورموازنہ کرنانقل کواصل ثابت کرنے کی احمقانہ کوشش ہے ۔

(جاری ہے)

ڈرامہ میں فکشن وایکشن ایک لازمی عنصرہے اوراس میں بیان کردہ کئی واقعات کاحقیقت سے زیادہ افسانہ سے تعلق ہوتاہے،چونکہ یہ ڈرامہ خلافت عثمانیہ کے تاریخی پس منظرکی روشنی میں بنایاگیاہے اس لیے خلافت عثمانیہ کی تاریخ کوسمجھنابے حدضروری ہے
خلافت عثمانیہ کوعموماتین ادوار میں تقسیم کیاجاتاہے ،1۔امارة (1299ء تا1389)2۔سلطنت(1389ء تا1512ء)3۔

خلافت
1512)ء تا 1923ء تا اختتام خلافت ) جس کی تفصیل یوں ہے کہ ابتدائی طورپرسلطنت کابادشاہ صرف امیرکہلاتاتھا،ان عثمانی امراء کی تعدادصرف تین ہے،1۔عثمان اول جسے بانی سلطنت بھی کہاجاتاہے،2۔سلطان اورخان ،3۔سلطان مراداول .دورثانی میں سلطنت کی وسعت کی بنا پراس کے مالک کو”سلطان “ کے لقب سے پکاراجانے لگا،ان میں پہلے کوسلطان بایزیداوّل اورآخری سلطان بایزیدثانی کہلاتاہے۔

دورثالث میں سلطنت عثمانیہ کے فرماں رواؤں نے اپنے لئے خلیفہ کالقب اختیارکیااورسلیم اوّل وہ پہلاسلطان تھاجس نے اپنے ساتھ خلیفہ کالقب استعمال کرناشروع کیا،اسی خلیفہ سلیم اول نے جنوری 1517ء میں مصرمیں موجود برائے نام عباسی خلافت کوشکست دے کرخلافت اپنے نام منتقل کروائی اوریوں ترک سلطان کوپورے عالم اسلام کاروحانی پیشواء ومقتداء ہونے کا اعزازحاصل ہوگیا۔

اورقاہرہ وبغدادکی بجائے ترکی کاشہرقسطنطنیہ خلافت کا مرکز بن گیایہاں تک کہ حرمین شریفین بھی ترکوں کی عمل داری میں آگئے ،
 سلطان عبدالحمیدمرحوم کواپنے دورحکومت میں اندرونی وبیرونی سازشوں کا سامناتھابرطانوی سامراج جواس وقت یورپی ممالک اورصلیبیوں کاسرخیل تھامختلف حیلوں ،بہانوں سے امورسلطنت میں دخیل ہونے کے لیے پَرتول رہاتھا کبھی آثارقدیمہ کی تلاش کاجھانسہ دے کرحجاز،عراق اورشام میں موجود تیل کے ذخائرپر قبضہ جمانے کی کوشش اورکبھی فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے عوض سلطنت عثمانیہ کودرپیش جملہ مسائل میں معاونت کی مکارانہ پیشکش ،عالمی یہودی تحریک کے نمائندہ لارنس اولیفینٹ اوربرطانوی پارلیمنٹ کے یہودی رکن لارڈسموئیل نے سلطان عبدالحمیدکو ورغلانے کے لیے ایڑی چوٹی کازورلگایالیکن وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب نہ ہوسکے بعدازاں ہرتزل جسے صہیونی تحریک کے سربراہ کے طو رپرجانا جاتاہے نے سلطان کوایک سے بڑھ کرایک پیشکش کی لیکن سلطان عبدالحمیدنے اپنے مئوقف میں بال برابر لچک بھی نہ دکھائی ،
ہرطرف سے منہ کی کھانے کے بعدصلیبی سورماؤں نے عوامی سطح پرترک قومیت کے نعرہ کوخلافت عثمانیہ کے زوال کے لیے ڈھال بنانے کے لیے مہم سازی کاآغازکیااورانہیں اس بات پراکسایاکہ ترکی یورپ کاحصہ ہے لہذا انہیں یورپی ممالک کے تہذیب وتمدن کواپنانے کے ساتھ ساتھ خلافت کے بالمقابل جمہوریت کے قیام کویقینی بناے کی کوشش کرناچاہیے
 اوراس میں ا ن کاسب سے بڑاآلہ کارخودترک فوج میں موجود مصطفی کمال نامی کمانڈرانچیف ثابت ہوا،مصطفی کمال کی پیدائش 1881ء میں کاسلونیکا میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد 1905ء میں بطورسیکنڈلیفٹینٹ فوج جوائن کی اوران ہی دنوں میں خفیہ طور پر”جمعیة وطن وحریت “نامی تنظیم قائم کی جس میں کچھ اس کے ہم ذہن سپاہیوں اور افسروں نے بھی معاونت کی تاریخ میں دو اور ترک فوجی آفیسرزانورپاشااورعصمت پاشاکا بھی اس تحریک کوسپورٹ کرنے کاتذکرہ ملتاہے صلیبی طاقتیں روزاول سے خلافت کو جمہوریت میں تبدیل کرنے کی خواہاں تھیں مصطفی کمال نے ان کی اس خواہش کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی پوری طاقت خرچ کی ،قومیت سے محبت کا جذبہ فطری عمل ہے لیکن جہان قومیت مذہب کے مقابلہ میں ہووہاں وہ مذموم ٹھہرتی ہے تاریخ اسلام اس امر پرشاہد ہے کہ مسلمانوں میں جب اسلامیت کی بجائے قومیت کی بنیادپرمعرکے ہوئے تو وہ ددنیااورآخرت میں ان کی رسوائی کاباعث ہوئے ۔

(جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :