بلغ العُلٰی بکمالہ کشف الدُّجیٰ بجمالہ

پیر 26 اکتوبر 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

اس کائنات میں امام الانبیا ء ﷺکی مدح وتوصیف ہرکسی نے اپنے الفاظ واظہارسے ضرورکی ہے اوریہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے لیکن اہل بیت اطہارکی مبارک وپاکیزہ زبان سے خاتم النبیین ﷺکوجوخراج تحسین پیش کیا گیاوہ بے مثال ہے عربی زبان کا مقولہ ہے ”صاحب البیت ادرٰی مافی البیت “گھروالازیادہ بہترجانتا ہے جوگھرمیں ہو‘اسی لئے اہل بیت ہی کی زبانی اما م الانبیاء محسن انسانیت ﷺکے فضائل و مناقب کوبیان کیا جائے ۔

اہل بیت میں سے آپ کے کریم چچاکی آپ ﷺسے محبت کاکوئی جواب نہ تھا۔شعب ابی طالب میں باوجودیکہ حضرت عباس  نے ابھی تک کلمہ نہیں پڑھاتھا لیکن اس کے باوجوداپنے پیارے بھتیجے کی محبت کی وجہ سے تین سال تک قیدرہے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران رسول اللہ ﷺکے خلاف ہونے والی سازشوں سے ان کوآگاہ کرتے رہتے ۔

(جاری ہے)

محبتوں کا یہ تبادلہ جانبین سے تھا ایک موقع پرمحبوب چچاکی شان میں ارشادفرمایا میں عباس سے ہوں اورعباس مجھ سے ہیں ۔

جن وانس ،حیوانات وجمادات غرض ارض وسماء رحمت اللعالمین کی قصیدہ گوئی کو اپنے لئے شرف سمجھتے ہیں اورمختلف اندازسے اپنی محبت وعقیدت کا اظہارکرتے نظرآتے ہیں۔لیکن آپ ﷺکے اہل بیت نے جو آپ کی شان علویت بیان کی ہے وہ لاجواب اوربے نظیر ہے ۔چنانچہ شافع محشر ﷺجب تبوک سے واپس تشریف لائے تورحیم چچانے عرض کی یارسول اللہ ﷺمجھ کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں آپ ﷺکی مدحت بیان کروں ۔

بارگاہ نبوت سے فرمان ہواضرورکہیے اللہ تعالی آپ کے دہن مبارک کو سلامت رکھے ۔اس کے بعدایک عظم المرتبت چچااوراہل بیت کے سرداراورآنکھوں کی ٹھنڈک نے جوامام الانبیاء ﷺکی مدح سرائی کی تواس سے خودحضورﷺاورحاضرین مجلس ہی نہیں بلکہ تمام عالم وجدوسرورکی کیفیت میں آگئے ْحضرت عباس  نے جوعربی اشعارآپﷺ کی شان میں پڑھے ان کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔

فرمایا”زمین پرتشریف لانے سے پہلے آپ ﷺجنت کے سایہ میں خوشحالی میں تھے اورنیزودیعت گاہ میں جہاں (جنت کے درختوں کے)پتّے اوپرتلے جوڑے جاتے تھے ۔یعنی آپ ﷺصلب آدم علیہ السلام میں تھے ۔اورزمین پرتشریف لانے سے پہلے جب آدم علیہ السلام جنت میں تھے توآپ ﷺبھی جنت میں تھے۔اوراے رحمت للعالمین ﷺاس وقت بھی آپ صلب آدم علیہ السلام میں تشریف فرما تھے۔

اس کے بعدآپ ﷺصلب آدم علیہ السلام میں انکے ساتھ زمین پرتشریف لائے ۔اورآپ ﷺاس وقت نہ بشرتھے نہ مضغہ نہ علقہ بلکہ آدم علیہ السّلام کی صلب میں ایک مادہ تھے کہ وہی مادہ کشتی نوح علیہ السّلام میں سوارتھا اورحالت یہ تھی کہ نسربُت اوراس کے ماننے والے طوفان میں غرق ہورہے تھے۔اورآپ ﷺصلب نوح علیہ السّلام میں تھے اورآپ ﷺکی برکت ہی سے اللہ تعالی نے ان کی کشتی کو محفوظ رکھا۔


اسی طرح واسطہ درواسطہ آپ ﷺایک صلب سے دوسرے رحم تک منتقل ہوتے رہے ۔یہاں تک کے آپ ﷺنے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلا م کی صلب میں نارخلیل میں بھی ورودفرمایا ۔اورآپ ﷺچونکہ ان کی صلب میں تھے اس لئے اسی برکت سے اللہ تعالی نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو آگ سے محفوظ رکھا ۔پھراسی طرح آپ ﷺمنتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺکا خاندانی شرف جوکہ آپ ﷺکی فضیلت پرشاہدوظاہرہے ۔

آپ ﷺسب سے بلندخاندان میں دنیا پرتشریف لائے اورتمام عالم روشن ہوگیا ۔سوہم سب رحمت للعالمین ﷺکے راستوں کوہی قطع کررہے ہیں“۔
قربا ن جائیں عظیم المرتبت اہل بیت کے سرکے تاج عم النّبی ﷺکی مدحت پرکہ کائنات میں کسی اورکے بس میں ایسی مدح سرائی کہاں ۔حضرت عباس نے جس نورنبوت کو صلب آدم ،نوح وابراہیم واسماعیل علیہم السّلام میں منتقلی کوبیان کیا یہی نورنبوت آپ ﷺکے جدامجدحضرت ہاشم وخواجہ عبدالمطلب کی صلب میں چمکتاتھا کہ جس کی نوارانیت کی تاب نالاتے ہوئے یہودونصاری کے کبارعلماء ان کے آگے سربسجودہوجاتے اورانکی عظمت وشرافت اورہیبت سے متاثرہوئے بغیرنہ رہتے پھریہ نورنبوت سرورکائنات ﷺکے والدماجدحضرت عبداللہ کی صلب میں منتقل ہوا۔

اب اس کے ظہورکا وقت قریب تھا ۔حضرت عبداللہ کے رخ انورسے نورانیت کی بارش ہوتی تھی اورحسن یوسف بھی ان کے آگے ماندنظرپڑھتا تھا جودیکھتا دیکھتا ہی چلا جاتا ایک مرتبہ اپنے والدحضرت عبدالمطلب سے کہنے لگے کہ جب کبھی میں مکہ اورکوہ بثیرہ کی طرف جاتا ہوں توایک نورمثل آفتاب میری پشت سے روشن ہوتا ہے اورپھردوحصوں میں منقسم ہوکرمشرق ومغرب کی طرف چلاجاتا ہے ۔

اورپھرمثل ابرمجتمع ہوکرمیرے اوپرسایہ فگن ہوجاتا ہے پھرمیں دیکھتا ہوں کہ آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اوریہ نورانی ابرآسمان کی طرف جاتا ہے اورفوراواپس آکرمیری پشت میں داخل ہوجاتا ہے اورجب میں زمین پربیٹھتا ہوں توزمین سے آوازآتی ہے ”اے وہ شخص جس کی پشت میں نورمحمّدی ﷺامانت ہے آپ پرسلامتی ہو“ ۔حضرت عبدالمطلب نے یہ سن کرفرمایاکہ تمہیں مبارک ہوکہ تمہاری صلب سے وہی نوررحم مادرمیں منتقل ہوگا جس سے ایک اولوالعزم بزرگ ترین ہستی جنم لے گی جس کی عظمت وفضیلت کے چرچے چاردانگ عالم میں ہونگے ۔


چنانچہ اس اعزازکو حاصل کرنے کے لئے عرب وعجم کے بڑے بڑے رؤسانے ان کو اپنی شہزادیوں سے نکاح کی فرمائش کی اوراس کے لئے ہرجتن کیا لیکن یہ سعادت حضرت آمنہ بنت وہب کے حصّہ میں آئی کہ جن کی خوش قسمتی پرتمام عالم کورشک ہے ۔رب العالمین نے اپنے پیارے حبیب رحمة للعالمین ﷺکی نموکے لئے جس مبارک شکم مادرکا انتخاب کیا یقینا اسکی بزرگی اورعظمت کااس جہان میں کوئی ثانی نہیں ۔

دوجہاں کے سردار وشہنشاہ ﷺکی طاہرہ مطہرہ والدہ ماجدہ اپنے نورنظرکی کرامت وبزرگی کویوں بیان فرماتی ہیں کہ مجھے ان تکالیف اورپریشانیوں کا احساس تک نہیں ہواجو دنیاکی عام عورتوں کودوران حمل ہواکرتا ہے۔فرماتی ہیں کہ دوران حمل میں نے خواب میں ایک نوری کو دیکھا جومجھ سے کہنے لگا تم کائنات کے سب سے بہترین ہستی کی حاملہ ہو ۔فرماتیں میں جس پتھ پرپاؤں رکھتی وہ روئی کی مانند نرم ہوجاتا ۔

سخت دھوپ میں بادل میرے اوپرسایہ فگن ہوجاتے ۔میرے چاندکی آمدپرہرسورحمتیں اوربرکتیں آگئیں مکہ مکرمہ کے باغات وکھلیان سرسبزوشاداب ہوگئے ۔چنانچہ جب ولادت کاوقت آیا تومجھے ذرہ برابربھی تکلیف نہیں ہوئی ۔
شاہ دوجہاں کی زوجہ ام المئومنین حضرت عائشہ صدیقہ  اپنے محبوب کی شان میں جو قصیدہ پڑھتیں اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔”ایک ہماراسورج ہے اورایک آسمانوں کاسورج ہے اورمیراسورج آسمان کے سورج سے کہیں بہتروافضل ہے کہ آسمانوں کاسورج فجرکے بعد نکلتاہے ۔

اورمیراسورج عشاء کے بعدطلوع ہوتا ہے “ایک موقع پرفرمایا حسن یوسف علیہ السلام کودیکھ کرمصرکی عورتوں نے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں اگرمیرے محبوب کیے حسن وجمال کو دیکھ لیتیں توسینوں پرچھریاں چلا بیٹھتیں ۔سیّدہ نساء اہل الجنة حسنین کریمین کی پیاری اماں حضرت فاطمہ نے  اپنے پیارے اباجان کی وفات کے موقع پرانکی شان میں یو ں فرمایا”جس نے قبررسول ﷺکی خاک سونگھ لی اگروہ زما نے بھر گراں قیمت عطروں اورخوشبوؤں کونہ سونگھے توکوئی نقصان کی بات نہیں (یعنی اسے وہی خوشبو کافی ہے اورکسی خوشبوکی اب اسے کوئی ضرورت نہیں )۔

اہل بیت اطہارکے شب وروزاطاعت نبوی ﷺمیں بسرہوتے تھے انکی سیرت اس پرشاہد ہے ۔ان کی سیرت کو اپنا نے والوں پرہرسورحمتیں ہی رحمتں برستی ہیں ۔شاہ دوجہاں امام الانبیاء ﷺ کی پیدائش سے لے کرتا ارتحال اورقیامت اوراس کے مابعدابدالآبادیہ رحمتوں اوربرکتوں کا ایک سلسلة الذہب ہے کہ جس کے فیضان سے تشنگیاں دور ہوتی چلی جائیں گی ۔لیکن آج امت مسلمہ کو اپنے محبوب آقاومولی کی بعثت کا مقصد پہچاننے اوراس کے مطابق عملی زندگی گزارے کی ضرورت ہے ۔

دنیامیں وہی امتیں کامیاب وکامران ہوئیں کہ جنہوں نے اپنے نبی کی سیرت کوبھی اتنی ہی اہمیت دی جتنی کہ ان کے فضائل ومناقب کے تذکرہ کو ۔ اللہ تعالی پور ی ام ت مسلمہ کو شاہ دوجہا ں اما م الانبیاء رحمة للعالمین کی سیرت کو پڑھنے اوراس ک ے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :