ڈاکٹر محمد بن عمر۔ایک گم نام ماہرِ زبانِ اُردو

جمعہ 30 اپریل 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

اُردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور# کے نام سے واقف نہ ہو۔ اُنھوں نے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز، لندن سے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔وہ بیسویں صدی کے اوائل میں اُردو لسانیات کے میدان میں سائنسی انداز سے لکھنے والے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر زور# کی نمایاں تصانیف میں ”ہندوستانی لسانیات“، ”ہندوستانی صوتیات“، ”دکنی ادب کی تاریخ“، ”ادبی تحریریں“، ”روحِ تنقید“، ”ادبیاتِ اُردو اور تنقید نگاری“، ”فنِ انشا پردازی“، ”داستانِ ادب حیدر آباد“، ”اُردو کے اسالیبِ بیان“، ”اُردو کے شہ پارے“، ”تنقیدی مقالات“، ”عہدِ عثمانی میں اُردو کی ترقی“، ”محمود غزنوی کی بزمِ ادب“، ”تین شاعر“، ”سیرِ گولکنڈہ“، ”گولکنڈہ کے ہیرے“، ”سرگزشتِ غالب“، ”سلطان محمد قلی قطب شاہ“، ”جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں کی اُردو خدمات“، ”جواہرِ سخن“، ”طلسمِ تقدیر“ اور ”میر محمد مومن:حیات اور کارنامے“ شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اُن کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد ہے جنھیں اُن سے براہِ راست فیض یاب ہونے کے مواقع میسر رہے۔ یہاں ڈاکٹر زور# کی شخصیت یا اُن کے کارناموں پر بات کرنا میرا مقصد نہیں ہے بلکہ آج میں اُن کے ایک ایسے شاگرد،جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد، دکن کے مولوی محمد بن عمر کے تحقیقی و لسانیاتی کارناموں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اُردو زبان و ادب میں اتنا عرصے بعد بھی گم نام ہیں۔


محمد بن عمرکی خاص بات یہ تھی کہ اُنھوں نے بیک وقت انگریزی اور اُردو، دونوں زبانوں میں تعلیم و تربیت حاصل کر رکھی تھی۔اُنھوں نے جامعہ عثمانیہ ،حیدر آباد ،دکن میں کچھ عرصہ انگریزی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔بعدازاں اُنھوں نے ”یورپ کی مختلف زبانوں کے اُردو پر اثرات “کے موضوع پر اُردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ پھر وہ جامعہ عثمانیہ میں اُردو کے پروفیسر کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔

اُنھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کو چھ مختلف ذیلی موضوعات میں تقسیم کرکے پچاس کی دہائی میں کتابی شکل میں شائع کروایا جن میں ”اُردو میں فرانسیسی الفاظ“ (1954ء)، ”اُردو میں یونانی اور لاطینی الفاظ“ (1954ء)، ”پرتگالی زبان کا اثر اُردو زبان پر“ (1954ء)، ”اُردو زبان پر نگریزی زبان کے اثرات“ (1955ء)، ”اُردو میں بعض یورپی زبانوں کے عناصر“ (1955ء)، ”اُردو میں یورپی الفاظ کا لسانیاتی مطالعہ“(1955ء) شامل ہیں۔

ان چھ کتابوں کے مقدمات پر مشتمل ایک علیحدہ کتاب اُنھوں نے ”لسانیاتی مقدمات“ (س ن) کے نام سے بھی شائع کروائی جس کا مقدمہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور# نے تحریر کیا۔ ڈاکٹر محمد بن عمر کی دیگر کتابوں میں ”نشری جائزے“ (1954ء)، ”وجہہ الدین وجدی#“ (1954ء) ”ڈاکٹر زور# کی زندگی، سیرت، علمی، تحقیقی اور ادبی خدمات کا جائزہ (مرتبہ)“ (1955ء) اور ”کلیات غواصی#(مرتبہ)“(1959ء) شامل ہیں۔


ڈاکٹر محمد بن عمر نے ”اُردو میں فرانسیسی الفاظ“ کے تناظر میں ایسے الفاظ پر روشنی ڈالی ہے جو فرانسیسی سے اُردو میں براہِ راست شامل ہوئے یا پھر انگریزی کے ذریعے اُردو زبان کا حصہ بنے۔ پھر اُنھوں نے اُردو میں ایسے فرانسیسی الفاظ کے نمونے بھی پیش کیے ہیں جن کا اولین ماخذ یونانی، لاطینی، جرمن، اطالوی، ٹیوٹائی، کلٹی، سکینڈی نیویائی، ولندیزی اور سلاوانی زبانیں ہیں۔

اُردو میں یونانی ماخذ رکھنے والے فرانسیسی الفاظ میں ایٹم، بوتل، پائلٹ، پارلیمنٹ، چیمبر، کارڈ، میٹر، ہیرو، ہیروئن وغیرہ، لاطینی ماخذ والے الفاظ میں آرٹ، انجن، بیسن، پنسل، تھیٹر، ٹیکس، جیل، چانسلر،ڈپو،فیشن، ہوٹل، یونیفارم وغیرہ، جرمن ماخذ والے الفاظ میں بلاک، ٹاپ، ٹکٹ، ڈانس، روسٹ، سکیل، سیلون، فلٹر، وارنٹ وغیرہ، اطالوی ماخذ رکھنے والے الفاظ میں بکرم، بریگیڈ، پستول، ٹریفک، کنٹونمنٹ، گزٹ وغیرہ، ٹیوٹائی ماخذ والے الفاظ میں بورڈ، برش، پمپ، ٹرک، گائیڈ، لیبل، پٹرول، سکرین، وارڈن، وکٹ وغیرہ، کلٹی ماخذ والے الفاظ میں باوٴنڈری، بجٹ، جاب،چارج، کلاک، کیریر، مٹن وغیرہ، سکینڈی نیویائی ماخذ والے الفاظ میں بٹ، بن، لاکٹ، ساوٴنڈ وغیرہ، ولندیزی ماخذ والے الفاظ میں پاوٴچ، کرکٹ وغیرہ جب کہ سلاوانی ماخذ رکھنے والے الفاظ میں ٹرنک، ٹرمپ وغیرہ شامل ہیں۔

اِس کے علاوہ فرانسیسی اثرات کے تحت اُنھوں نے فوجی نوعیت کے الفاظ میں آرمی، الارم، پیراشوٹ، رجمنٹ، سارجنٹ، کپتان، کرفیو، کرنل، مارشل وغیرہ، تجارتی حوالے سے انشورنس، پینٹ، پرنٹ، سٹیشنری، سرچارج،فارم، کارپوریشن، کامرس، کرنسی، کمیشن، لانڈری، مرچنٹ وغیرہ، سائنسی حوالے سے ایکس رے، بلب، ٹارچ، سائنس، فوسل، کاربن، کرنٹ، کیبل، کیمسٹ، وولٹ وغیرہ ، طبی حوالے سے ٹمپریچر،ٹشو، جرم، ڈاکٹر، سرجن، فریکچر، نرس وغیرہ، کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے جیلی، ڈنر، ریفریشمنٹ، سُوپ،کسٹرڈ، کینٹین وغیرہ، لباس کے حوالے سے بلنکٹ، پتلون، جیکٹ، ڈریس، سوٹ، کوٹ، گاوٴن وغیرہ جب کہ قانونی حوالے سے اٹارنی، جج، جوڈیشل، رپورٹ، سیکشن، کورٹ، کیس، مجسٹریٹ وغیرہ شامل ہیں۔


”اُردو میں یونانی اور لاطینی الفاظ“کے ضمن میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمدبن عمر نے انگریزی کے توسط سے اُردوزبان و ادب میں داخل ہونے والے یونانی اور لاطینی الفاظ پر بحث کی ہے۔ انگریزی کے ذریعے یونانی ماخذ والے الفاظ جو اُردو کا حصہ بنے، اُن میں اٹلس، ٹانک،ٹیکنیکل، ٹیلی فون، فوٹو، کاسمیٹک، کروم، گرامو فون، مائیکروفون، نمونیا،ہائیڈروجن، ہپناٹزم وغیرہ شامل ہیں۔

دوسری جانب انگریزی ہی کے توسط سے اُردو کا حصہ بننے والے لاطینی الفاظ میںآ پریشن، آڈٹ،الیکشن، ایجنٹ، ایکویریم، انڈیکس، بلٹ، پائپ، پرائیویٹ، پنکچر، ٹائل، جونیر، چاک، چیز، ڈائری، ریفری، سرکس، سینیر، فورم، کالم، ویٹو وغیرہ شامل ہیں۔ ”پرتگالی زبان کا اثر اُردو زبان پر“کے موضوع پر وہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ کئی پرتگالی الفاظ ہماری زندگی کے مختلف شعبوں پر حاوی ہیں۔

اِس ضمن میں اُنھوں نے میوہ جات کے حوالے سے اناناس، الفانسو، سنگترہ، کاجو وغیرہ، ترکاریوں میں ترنج، گوبھی وغیرہ، تعمیرات میں کمرہ، گودام، مستری، ورانڈہ وغیرہ، ظروف میں بالٹی، پرات، پرچ وغیرہ، آرائش کے سامان میں الماری، صوفہ، میز وغیرہ، مذہبی حوالے سے پادری، گرجا وغیرہ اور دیگر الفاظ میں استری، تمباکو، تولیہ، چابی، صابن،فالتو، فرما، فیتہ، نیلام وغیرہ شامل ہیں۔

”اُردو زبان پر نگریزی زبان کے اثرات“ کے تناظر میں اُنھوں نے ایسے انگریزی الفاظ پر بحث کی ہے جو خالصتاً انگریزی کا حصہ ہیں اور اُردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ اُن انگریزی الفاظ میں کھیلوں کے حوالے سے اننگ، اوور، باکسنگ، برج، پلے، پلئیر، ٹیم، ڈیل، سپن، شوٹ، شیلڈ، فاوٴل، فیلڈنگ، گراوٴنڈ، گول، گیم، نٹ، ہاف، ہاکی وغیرہ، تفریحات میں ٹاکی، ڈربی، شو، فلم وغیرہ، لباس کے ضمن میں ٹائی، سلیپر، سویٹر، شرٹ، شُو، وول، ہڈ وغیرہ، نقل و حمل میں برتھ(ریل کی )،ڈرائیور، روڈ، سپیڈ، فرلانگ وغیرہ جب کہ اُردو میں دیگر استعمال ہونے والے نمایاں انگریزی الفاظ میں بائے، ٹپ، ڈارلنگ، ڈرائی فروٹ، ڈے، شاور، مڈل، نائیٹ وغیرہ شامل ہیں۔

”اُردو میں یورپی الفاظ کا لسانیاتی مطالعہ“ کے تناظر میں ڈاکٹر محمد بن عمر نے دخیل یورپی الفاظ کی تشکیلیات، اُن کی ارتقائی صوتیات اور معنیات پر بحث کی ہے۔ ڈاکٹر محمد بن عمر نے آج سے کم و بیش ستر سال پہلے اُردو لسانیات بالخصوص تشکیلیات (صرفیات)، صوتیات اور معنیات کی سطح پر تحقیقی کام کیا جس کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ نہ صرف یورپی زبانوں کے اُردو پر اثرات کا ازسرِنو لسانیاتی جائزہ لیا جائے بلکہ مشرقی زبانوں کے اُردو پر اثرات کا بھی لسانیاتی تجزیہ کیا جائے۔اپنی اِس تحریر کے ذریعے میں اُردو لسانیات کے محققین اور سکالرز کو اِس جانب توجہ دینے کی دعوت دیتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :