
غلطی تو ہوئی ہے
بدھ 1 اپریل 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
بھارت ہمارا ازلی دشمن سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں کبھی بھی اور کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،اگرچہ بہت سے معاملات میں اسے منہ کہ ہی کھانا پڑتی ہے،افغانستان سے ہمارے آجکل تعلقات کافی بہتر ہو چکے ہیں،ایران سے تعلقات میں نشیب و فراز خطہ کی نوعیت اور بین الاقوامی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے تلخ وشیریں ہوتے رہتے ہیں تاہم کبھی ایسی سیاسی وعسکری فضا پیدا نہیں ہوئی کہ ہم ایک دوسرے کے سامنے صف بندی کر کے کھڑے ہو گئے ہوں۔
اس تمہید کا مقصد پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو پیش نہیں کرنا تھا بلکہ قارئین کو زمینی حقائق بتاتے ہوئے ذہن نشین کروانا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کہ جب دنیا کے 202 ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک موذی مرض کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اس میں کیا غریب،امیر،ترقی پذیر اور ترقی یافتہ سب اس آسیب کی زد میں ہیں۔تو ایسے میں یہ الزام لگانا کہ کیا یہ حکومت وقت کی سوچی سمجھے سازش تھی یا کسی کے اشارے پر ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لے جانے کی کوئی بین الاقوامی سکیم کا حصہ۔یہ سب تو قبل از وقت ہی ہوگا کہ دنیا کی سیاسی چالوں اور طاقت میں عدم توازن پیدا کرنے کا کوئی پلان تھا یا چین کی معیشت اور اس کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر رسوخ کو کم کرنے کا کوئی منصوبہ،لیکن مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ جب چین میں یہ وبا پھیلی تو پوری دنیا کی طرح ہم نے بھی چین میں موجود پاکستانیوں کے بارے میں تفتیش کا اظہار کیا اور بقول وزیر اعظم پاکستان اور دیگر سفرا ،مشیران و وزیران کہ ہم نے پوری طرح چین حکومت سے رابطہ رکھا ہوا ہے اور اگر یہ وائرس پاکستان میں آتا ہے تو ہم ہر ایمرجنسی سے نپٹنے کو تیار ہیں۔
مان لیا کہ آپ چین کی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ میں تھے،پوری دنیا میں سیلاب کی طرح اس موذی مرض نے پھیلنا بھی شروع کردیا ہوا تھا۔آپ تیار بھی تھے کہ اگر کوئی ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا،لیکن میرا ایس سوال ہے کہ چین کی سرحد جو کہ صرف چھ سو کلومیٹر ہے ،اس کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ ہیں،بھارت سے کوئی خطرہ نہیں کہ وہاں سے کوئی مریض پاکستان میں اس لئے داخل نہیں ہو سکتا کہ ہمارے تعلقات کی نوعیت ہی ایسی کہ مکمل سرحد بند ہے۔باقی رہ گئے دیگر دو ہمسایہ ملک،افغانستان اور ایران۔تو کیا ان دو ممالک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا،کیا ان دو ممالک کی سرحدوں کے ذریعے روزانہ کی بنیادوں پر لوگوں کا آنا جانا حکومت وقت کے علم میں نہیں تھا۔کیا حکومت نہیں جانتی تھی کہ ایران میں دن بہ دن کرونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور پھر ایران میں زائرین کا سلسلہ تو پورا سال چلتا رہتا ہے۔باقاعدہ وہاں پر بارڈر اور سکیورٹی تعینات ہوتی ہے۔تو ایران سرحد یا یوں کہہ لیں کہ تفتان بارڈر سے زائرین کی نقل وحرکت حکومت وقت کے علم میں کیسے نہیں تھی۔
چلئے مان لیا کہ ایران حکومت نے زائرین کے پاسپورٹ سٹمپ کر کے انہیں تفتان سرحد پر بے یارومددگار چھوڑ رکھا تھا۔وہ کھلے آسمان تلے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور تھے،انہیں کسی قسم کی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں،ان کا کوئی وہاں پرسانِ حال بھی نہیں تھا یہ سب ایک ایسا شخص تو مان سکتا ہے جس نے کبھی پاکستان سے باہر کا سفر نہیں کیا،لیکن مجھے تو بیس سال ہو گئے ہیں پردیس میں زندگی گزارتے ہوئے اور اس دوران مختلف ممالک میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا رہا تو میں یہ بات ماننے سے قاصر ہوں کہ کوئی بھی ملک جو کہ آپ کا ہمسایہ ہو اور اس کے ساتھ آپ کے تعلقات بھی بہتر ہوں تو وہ اپنے ملک میں پردیسیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھیں کہ دنیا میں ان کی جگ ہنسائی کا امکان ہو۔چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ حکومت ایران زائرین کو مزید قیام کی اجازت نہی دے رہی تھی۔کیا قطر اور یو اے ای سے ٹرانزٹ مسافروں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے ملک میں لانے کا انتظام نہیں ہوا۔
یہ بھی مان لیا کہ ایران زبردستی زائرین کو پاکستان بھیج رہا تھا ،زائرین پاکستان میں داخل ہو گئے تو کیا اس دوران حکومت یہ انتظامات نہیں کر سکتی تھی کہ ان کے لئے بلوچستان میں ہی قرنطینہ قائم کر لیتے،ایسا کرنے سے پاکستان کو دو فائدے کم از کم ضرور ہوتے ایک تو یہ کہ چونکہ بلوچستان کا صوبہ بلحاظِ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن قدرت کا ہم پر رحم دیکھیں کہ اس صوبہ کی آبادی سب سے کم ہے یعنی ایک لحاظ سے پورا صوبہ ہی قرنطینہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔کہیں بھی کسی بھی ہسپتال،سکول،یونیورسٹی،کیمپس اور کچھ نہیں تو دوردراز کے ایسے مقامات جہاں آبادی کم اور سرکاری عمارات خالی پڑی ہوئی ہے بلوچستان حکومت سے مل کر ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ لوگوں کو وہیں رکھ کر پورے ملک کو اس آفت سے بچایا جا سکتا تھا۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا،تفتان سے زائرین کو فیصل آباد،ڈیری غازی خان اور دیگر صوبوں کے مختلف شہروں میں پھیلا دیا گیا۔اور اب صورت حال یہ ہے کہ یہ مرض دن بہ دن ہر سو پھیلتا جا رہا ہے۔لہذا یہ بات ماننے میں حکومت کو کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ غلطی تو ہوئی ہے،اس غلطی کا ازالہ کیسے ہونا چاہئے اب یہ حکومت پر ہے ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ میری اپنی باشعور عوام سے ایک استدعا بھی ہے کہ خدا را اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کو خطرات میں نہ ڈالیں،حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ان احتیاط کو اپنائیں جو حکومت اور ڈاکٹر حضرات کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.