میرا سانس رک رہا ہے
جمعہ 5 جون 2020
(جاری ہے)
واقعہ یہ ہے کہ ایک پولیس مین نے ایک سیاہ فام شخص کو صرف بیس ڈالر کی چوری کے عوض اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ سیاہ فام اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
زندگی کی سانسیں ٹوٹتے ہوئے اس شخص نے جو آخری کلمات ادا کئے وہ یہ تھے کہ میرا سانس رک رہا ہے،میرا سانس رک رہا ہے۔پولیس اور عوام کے درمیان یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے کئی بار دیکھنے میں آیا ہے،لیکن جارج کی ٹوٹتی ہوئی آخری سانسوں نے امریکہ کی عوام میں ایسی زندگی بھر دی کہ اب تمام شہری جارج کی موت کا بدلہ لینے کے لئے سڑکوں پہ آگئے ہیں،سرکاری املاک کو نقصا پہنچایا جا رہا ہے جوکہ کسی بھی ملک میں کسی طور میں مثبت عمل خیال نہیں کیا جاتا ۔اس لئے کہ سرکاری املاک دراصل عوامی ملکیت ہوتی ہیں،ایسے اداروں اور املاک کو مقصان پہنچانے سے مراد ہوتا ہے کہ عوام اپنی دولت اپنے ہاتھوں سے ضائع کر رہی ہے اور کوئی بھی ذی شعور قوم اپنے پاؤں پہ کلہاڑی خود سے نہیں مارتی۔بات کر رہا تھا کہ ایسے واقعات ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایک واقعہ ہی بڑی بڑی تبدیلیوں ،واقعات اور انقلابات کے جنم کا باعث بھی بن جاتا ہے۔جیسے کہ باستیل جیل کا واقعہ،ٹی انقلاب کا واقعہ،چین کا انقلاب وغیرہ،وغیرہ۔انہیں انقلابات کی بنیادوں میں بہنے والا خون اور سانس کی آخری حرارت قوموں کی زندگیوں کے لئے ایسے ایسے تاج محل تعمیر کر دیتے ہیں کہ جہاں نسلیں سکون وراحت کی زندگیا بسر کرتے ہیں۔
1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہر اس شخص نے اپنی جانوں کا نذرانہ یہ سوچ کر پیش کیا کہ اس کی آخری سانس آنے والی نسل کے لئے زندگی کی حرارت اور سکھ کا سانس مہیا کرے گی۔سات دہائیو ں سے زائد کا عرصہ ہوا چلا ہے لیکن قحط الرجالی اور سیاسی شعور کے فقدان نے ملک کو قرضوں کے ایسے بوجھ تلے دبا دیا کہ بائیس کروڑ عوام میں سے تقریبا بیس کروڑ تو ضرور قرض کے شکنجے میں جکڑے پکار رہیں ہیں کہ ہمارا سانس رک رہا ہے،ہمارا سانس رک رہا ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام کی گردن کو دبوچنے والے اور ان کا گوشت نوچنے والے سیاسی گدھ اپنے بوجھ کو مزید دبائے جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک جارج کی طرح میری عوام کا سانس بھی اکھڑ نہیں جاتا یا مکمل طور پہ بند نہیں ہوجاتا۔کس کس کی بات کروں ہمارا تو ہی آن،ہر ساعت،ہر لمحہ سانس رک رہا ہے،گھر سے سکول جانے کے بعد جب تک بچہ واپس گھر پہنچ نہیں جاتا بوڑھی ماں کا سانس رکا رہتا ہے،محنے مزدوری سے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا باپ جب تلک شام کو گھر واپس خیریت سے نہیں پہنچ جاتا چولہے کے گرد بیٹھے اس کی بیوی اور بچے اپنی سانسیں روکے منتظر رہتے ہیں کہ خدا خیر کرے ،بیٹی یونیورسٹی سے جب تک خیریت سے گھر نہ لوٹ آئے ماں کی سانسیں رکی رہتی ہیں۔بجلی ،گیس پانی کا بل آجائے تو عوام بلبلا اٹھتی ہے،بازار جائیں تو ہزار روپے کی ایک دن کی سبزی ترکاری پر جب خرچ ہو جاتے ہیں تو غریب کی سانسیں رک جاتی ہیں،گویا غریب ہر لمحہ مرتا ہے ،اس کی سانسیں ہر ساعت رکی ہی رہتی ہیں ،اس کی ساری زندگی اسی خوف میں گزر جاتی ہے کہ نہ جانے کب قیمتوں کی گرانی،یوٹیلیٹی بلز،اور احساس غربت کے ہاتھوں اس کی سانسوں کی رمق ٹھنڈی ہو جائے گی۔
میرے ملک میں تو نہ جانے کتنے ہی جارج روزانہ مذکور مسائل کا رونا روتے ہوئے یہ کہتے کہتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ خدا را اب بس کرو کیونکہ میرا سانس رک رہا ہے۔مل مزدور اپنے مالکان کو یہ کہتے کہتے کہ خدا را ظلم کی انتہا مت کرو میرا سانس رک رہا ہے۔غریب بیٹی کا باپ جہیز نہ دے پانے کی ہمت سے معاشرہ سے دست سوال ہوتا ہے کہ خدا را بس کرو میرا سانس رک رہا ہے۔مزدور ساہوکار کی طرف سے بیگار کاٹے جانے پہ شکوہ کناں ہے کہ خدا را بس کرو میرا سانس رک رہا ہے۔یہاں تو غریب کو مزدوری بھی ایسے ہی دی جاتی ہے جیسے کہ ان پہ احسان جتایا جا رہا ہو،گویا ان کی مزدوری کا ثمر ن ہو جیسے کہ خیرات اور زکوة ہو۔اقبال نے شائد اسی لئے کہا تھا کہ
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.