
تین جماعتیں تین کہانیاں
پیر 12 اکتوبر 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
خیر بات ہو رہی تھی تین جماعتیں اور تین کہانیوں کی تو اس میں سب سے پہلی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ
ایک میراثی اپنے دوست احباب میں بیٹھا چسکے لے رہا تھا کہ گائے کا خالص دودھ ،سپر بناسپتی کے چاول،دیسی گھی اور شکر سے کھیر بناؤں گا ،پھر اسے ٹھنڈی کروں گا اور مزے لے لے کر اسے انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کھاؤں گا۔
مذکور کہانی کے تناظر میں اگر موجودہ سیاسی صورت حال کا جائزہ لیں تو مولانا فضل الرحمان پاس سیاسی حلوہ کھانے کے لئے صرف انگلی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی انگلی سیاسی طاقت کے حلوہ سے ہمیشہ تر رہے تاکہ ان کی موجودگی کا پاکستانی سیات میں احساس رہے۔حالانکہ اس بار انہیں حصہ بقدر جثہ نہین مل سکا وگرنہ ہمیشہ سے ہی وہ حکومت اور اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔اقتدار کی ہوس نے تو انہیں اس قدر اندھا کر دیا ہوا ہے کہ جب ایک انٹرویو میں اینکر وسیم بادامی نے زرداری کی کرپشن کے حوالہ سے سوال کیا تو مولانا نے جواب دیا کہ اس طرح کے سوالات مجھ سے نہ کئے جائیں،جس پر وسیم بادامی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ کرپشن کو جائز قرار دے دیا جائے تو مولانا نے سنجیدہ لہجے میں اثبات میں سرہلا دیا۔حالانکہ مولانا صاحب نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کی ہے۔لیکن آئین وقانون کی شائد وہی دفعات ان کے لئے قابل تقلید ہیں جو ان کی موافقت میں ہیں۔یعنی اسے کہتے ”میٹھا میٹھا ہپ،کڑوا کڑوا تھو“۔
دوسری کہانی اور جماعت کے بارے میں عرض ہے کہ ایک بزرگ اور اس کا مرید خاص کہیں لمبے سفر پر روانہ تھے کہ مرید نے دیکھا کہ پیر صاحب کو کسی قسم کی بھوک اور پیاس محسوس نہیں ہوتی اور اگر ایسا وہ محسوس کرتے بھی ہیں تو بس مراقبہ کرتے ہیں اور ان کے سامنے انواع واقسام کے کھانے حاضر ہو جاتے ہیں۔مرید کے دل میں لالچ پیدا ہوگیا۔جب مرید نے دیکھا ک اس وقت پیر صاحب ایک خاص کیفیت میں ہیں تو انہوں نے عرض کیا کہ بابا جی میری ایک گزارش ہے ،اگر آپ اجازت دیں تو عرض کروں۔پیر صاحب حالت حال میں تھے انہوں نے کہا کہ ہاں بتاؤ کیا چاہئے۔مرید نے عرض کیا کہ حضور اور کچھ نہیں بس میں چاہتا ہوں کہ یہ درخت سونے کا ہوجائے اور میں بقیہ کی زندگی آرام وسکون سے گزار سکوں۔بابا جی نے کچھ منتر پڑھ کرانگلی کے اشارہ سے درخت پر پھونکا تو وہ سونے کا بن گیا۔مرید کی یہ لالچ و ہوس دیکھ کر بابا نے وہاں سے کوچ کرنا مناسب سمجھا اور آگے کی راہ لی۔اگلے مقام پر جب بابا جی ڈیرے ڈالے تو مرید پھر ان کے پیچھے پیچھے تھا۔بابا جی ذرا سختی سے پوچھا کہ اب کیا چاہتے ہو،تو مرید نے عرض کیا کہ بابا جی اور کچھ نہیں بس یہ سامنے والا پہاڑ سونے کا بنا دو تاکہ میں باقی کی ساری زندگی آرام وسکون سے گزار لوں۔بابا نے ایک بار پھر کچھ پڑھ کر اپنی انگلی سے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا تو وہ بھی سونے کا بن گیا۔بابا جی دوسری جگہ سے بھی کوچ کا ارادہ فرما لیا تو مرید خاص پھر بابا جی کے ساتھ ہو لیا۔اب کے بار بابا جی نے ناراضگی سے پوچھا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟مرید نے بڑی بے تکلفی سے عرض کیا کہ بابا جی زیادہ کچھ نہیں،بس مجھے اپنی یہ والی انگلی عنائت فرما دیں جس سے آپ چیزوں کو سونا بنا دیتے ہو۔
اب ذرا ن لیگ کے آجکل کے بیانیہ،عوام کو اشتعال دلانے والے بیانات،اور ان کی لیڈران کی سیاسی چالوں کو دیکھیں تو آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ن لیگ کو اور تو کچھ نہیں چاہئے بس وہ ”انگلی“درکار ہے جس سے طاقت اور اقتدار کی کرسی ان کے لئے سونے کی بن جائے۔مگر اب کی بار وہ انگلی کسی اور جماعت کے پاس ہے۔اس لئے ن لیگ مستقبل کا سیاسی نفع نقصان سوچے بنا ہی انگلی کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہے۔لیکن دل سے چاہتی ہے کہ وہ”انگلی“پھر سے ان کی جماعت کو آشیرباد دے تاکہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے گھی نکال کر کھائیں۔اب رہ گئی ایک کہانی اور ایک جماعت۔کہانی کا پلاٹ اور سیاسی جماعت کی کارکردگی دونوں ہی مختصر ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک عورت کے پاس سب سے طاقتور اس کی انگلی ہوتی ہے جس پر وہ سسرال اور خاوند کو نچاتی ہے۔ایسی ہی کہانی بر سر اقتدار جماعت پی ٹی آئی کی ہے کہ جب سے انہیں اقتدار ملا ہے اس نے پاکستان کی جمہور کو جمہوریت کی آڑ میں مہنگائی کے دلدل میں ایسے دھکیلا ہے کہ اب وہ اقتدار کی انگلی سے پورے پاکستان کی عوام کو نچا رہی ہے۔میرے خیال یہ ہے کہ باقی دو کہانیوں اور جماعتوں کی اس وقت اتنی اہمیت اس لئے نہیں کہ وہ اب اقتدار میں نہیں ہیں۔لیکن پی ٹی آئی چونکہ اقتدار میں ہے اور ان کے پاس عوامی اور جمہوری طاقت بھی ہے تو انہیں اپنی انگلی کو عوامی فلاح کے لئے استعمال کرنا چاہئے نا کہ عوامی انتشار کے لئے۔اقتدار کا کیا ہے آج ہے کل نہیں۔لوگ حکومت کی طرف سے دی گئی فلاح وبہبود اور سہولیات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔اگر پی ٹی آئی کی حکومت چاہتی ہے کہ وہ آئندہ الیکشن تک زندہ رہے تو انہیں مہنگائی کے خلاف فوری ایکشن لیتے ہوئے عومی فلاح کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا وگرنہ جو عزت دیتا ہے وہ چھین لینے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.