نوکریاں گئیں بھاڑمیں!!!

بدھ 16 اکتوبر 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

پیارے پاکستانیوں کووزیراعظم عمران خان نے الیکشن سے قبل اپنے انتخابی منشورمیں اوروزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعدبھی ایک کروڑنوکریاں فراہم کرنے کی نویدسنائی تھی مگردگرگوں قومی معیشت و ملکی صورتحال کے تناظر میں آئے روزبڑھتی مشکلات سے عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے ،عوام ایک طرف اگرکمرتوڑ مہنگائی سے پریشان ہیں تو نت نئے حالیہ ٹیکسوں نے بھی ان کی کمردوہری کرکے رکھ دی ہے جب کہ رہی سہی کسرپٹرول،بجلی و گیس کے قابوسے باہرنرخوں نے پوری کر دی ہے اس پر طرفہ تماشا یہ کہ وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فوادچوہدری جو اپنی بیان بیازیوں اورچٹکلوں کے باعث ہرآن خبروں میں رہنے کا ہنرجانتے ہیں نے اس پریشان کن صورتحال کودوچندکرتے ہوئے ایک اوربیان داغاہے جو وزیراعظم عمران خان کے ایک کروڑنوکریوں کی فراہمی پر مبنی بیان کی کلی طورپرنفی ہے کہ، عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں ،نوکریاں نجی شعبہ دیتاہے حکومت400محکمے بندکرنے جا رہی ہے اگرحکومت روزگاردلانے لگ جائے تو معیشت تباہ ہو جائے گی، اوریہ ہی وہ قابل غورنقطہ ہے جو وفاقی وزیرموصوف کی سمجھ میں تو آگیامگرشایدان کے قائد ووزیراعظم عمران خان کی نقطہ آفریں سوچ کی وسعتوں تک رسائی حاصل نہ کر سکاتھا۔

(جاری ہے)

یقینی امرہے کہ وفاقی وزیر کے اس بیان سے مختلف طبقات بالخصوص نوکریوں اورروزگارکی تلاش میں سرگرداں بے روزگاروں اورنوجوانوں میں مایوسی کابڑھناکوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی ۔انھیں توگذشتہ ایک سال سے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آخران کے ساتھ یہ ہو کیارہا ہے۔دوسری طرف وفاقی وزیرموصوف کے نوکریوں اور400محکموں کی مجوزہ بندش کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کو ایک اورایشوہاتھ آگیاہے جس پر وہ کھل کر اظہارخیال کررہے ہیں مگراس کا کیاکیاجائے کہ جب بغیرکسی منصوبہ بندی اورسوچ سمجھ کے دعوے کیے اوربیان جاری کیے جائیں تو پھرمخالفین ہوں یا حقیقت پسندتجزیہ کاروتجزیہ نگار،انھیں توحسب معمول پلیٹ میں رکھ کرموادفراہم کردیاگیاہے ۔

سوال یہ ہے کہ اگر ایک کروڑنوکریاں نہیں تھیں یا اس کا بندوبست نہیں کیاجاسکتاتھا تو کنٹینروں پر کھڑے ہو کر بلندبانگ دعوے کرنے والے بڑے پارٹی لیڈرنے کیوں غلغلہ مچائے رکھاکہ ہم یہ کر دیں گے اوروہ کر دیں گے،عوام کو کثیرالجہت سبزباغ دکھائے گئے جواب پورے ہوناامرمحال نظرآیاتوسائنسی وزیرنے سائنسی موشگافی چھوڑ دی جس سے مایوسی پیداہونااورامیدوں کا ٹوٹنافطری امرہے کیونکہ الیکشن سے قبل بہت سے بلندبانگ دعوے کیے گئے تھے جس میں معیشت کی بہتری،یکساں نظام تعلیم کا نفاذاوردیگر کئی ایک منصوبے شامل تھے لیکن حکومتی ارباب اختیارکوعنان حکومت تھامے ایک سال سے زائدگذرگیاہے مگرکوئی کل سیدھی نظرنہیں آرہی،عوام پر یکدم بے تحاشاٹیکسوں اورمہنگائی کا بوجھ بڑھ گیاہے جس سے لگ یوں رہا ہے کہ ارباب حل و عقدنے سب کچھ غریب و مریل عوام سے ہی نچوڑناہے دوسری طرف وزیراعظم موصوف فرمارہے ہیں کہ ابھی ایک سال تو ہواہے اورعوام صبر ہی نہیں کر رہے؟ان سے کوئی پوچھے کہ اورکتناصبرخان صاحب !!!کتناصبر؟یہ قوم صبرہی تو کرتی اورگذشتہ چھ سات دہائیوں سے جو بھی عنان حکومت سنبھالتارہاہے اس کی درخواست پر اور،وسیع تر ملکی و قومی مفاد،میں یہ عام آدمی ہی تو صبرکرتارہاہے، اورقربانیاں دیتارہا ہے،ایسی لازوال و بے مثال قربانیاں جو آج تک کوئی بھی حکمران یا ان کی اولادمیں سے دینے سے یکسرقاصررہا ہے ،اپنے بھوکے ننگے بچوں،فاقہ زدہ و مریل نونہالوں کی قربانیاں،مائیں قربانیاں دیتی رہی ہیں،قربانیوں کے کتنے ہی اندوہناک وکربناک واقعات بدقسمت ملکی تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں جن میں کتنی ہی مائیں اپنے لخت جگروں کو پہلوؤں میں لیے دریاؤں ،ندی نالوں کی خونی موجوں کی نذرہوگئیں،کتنوں نے بھوک ،ننگ اورافلاص کی بھٹی کا ایندھن بن کردکھ و اذیت بھری زندگی میں جل مرنے سے بچوں کی بولی لگانے اورموت کو گلے لگانے میں ہی عافیت خیال کی؟سابق حکمران بھی کہتے تھے ،پیارے پاکستانیو،وطن عزیزنازک صورتحال سے گذررہااورعوامی قربانی کاطلبگارہے سوقربانی دو،قربانی دو،قوم کو آپ کی قربانی کی اشدضرورت ہے پھرظالم حکمرانوں کے ڈسے یہ ناسمجھ وسادہ لوگ قربانیوں پہ قربانیاں دیتے رہے،پھرخان صاحب نے جب کنٹینروں پر چڑھ چڑھ کر ان بے چاروں کو مخاطب کیا،انھیں سہانے مستقبل کے خواب دکھائے ،نئے پاکستان کی خوش کن ومسحورکن منظرکشی کی کے بلندبانگ دعوئے کیے توحکمرانوں کی ماری قوم نے اپنادرماں پھران جوشیلی تقریروں میں تلاش کرتے ہوئے کہ چلوشایداب ان کی اس دکھ بھری اورحیوانوں سے بھی بدترزندگی میں شائدکوئی بہتری آجائے،کوئی تبدیلی آجائے،انھوں نے برسراقتدارجماعت کو ووٹ دیے ،اس حوالے سے مخالفین کے دعوے اورباتیں اپنی جگہ،عام آدمی کی سوچ یہ ہی ہے کہ اس نے بلے پر ٹھپے مارے تو پچھلے ظالموں سے جان خلاصی ہوئی،موجودہ حکومت برسراقتدارآئی اوراب دودھ و شہدکی نہریں بہہ نکلیں گی مگرایک سال بعدہی ان کی چیخیں نکل گئی ہیں اوروہ توبہ توبہ کرتے نظرآرہے ہیں۔

ہم حیران ہیں کہ مثالیں دی جاتی ہیں ریاست مدینہ کی؟جب کہ یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ وہ کون سی بنیادیں ،اصول وضوابط اورمعیارات ہیں جن پرموجودہ حکمران ریاست مدینہ جیسی مثالی وآفاقی ریاست قائم کرنے کے دعوؤں پہ دعوے کیے جارہے ہیں؟کیاریاست مدینہ کے قیام کے لیے اسی قسم کے مثالی عمل و کردارکی ضرورت نہیں؟ریاست مدینہ والوں کے قول و فعل میں توبالکل کوئی تضادنہیں تھااورنہی ہی منافقانہ رویے تھے؟ان کے کوئی ذاتی و گروہی مفادات نہیں تھے ،وہ سب کے سب پاکبازومتقی اورنیک و پرہیزگاراللہ والے تھے اوران کی زندگیوں کا واحدمقصدصرف اورصرف اپنے ہرعمل سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاحصول تھایہ ہی وجہ ہے کہ اسی ریاست مدینہ نے پھر ایسے مثالی خلیفہ راشداسلامی ریاست کو دیے جنھیں اپنی رعایاکی اتنی فکرتھی کہ وہ ہروقت روتے اورگریہ و زاری کرتے کہ اگردریائے فرات کے کنارے ایک کتابھی بھوکارہاتوخلیفہ اس کا بھی جواب دہ ہوگا؟ان کی مبارک وقابل تقلیدزندگیاں ہرلحظہ خوف خداسے عبارت رہیں اورتاقیامت مثالی حکمرانی کے وہ اصول و معیارات فراہم کر گئیں جن پر اگرعمل کیاجائے تو بجاطورپرخلافت راشدہ کادورواپس اورحقیقی معنوں میں ریاست مدینہ کی سنہری یادتازہ ہو سکتی ہے مگرایسے پاکباز،مخلص وپاکبازحکمران ہیں کہاں؟موجودہ حکمران صرف یہ سروے کروالیں کہ ان کے زیرسایہ مملکت اسلامیہ کے عوام کس حال سے گذررہے ہیں؟ایک روٹی ان کی پہنچ سے دورکیاہوئی تھی کہ مسئلہ سنبھالانہیں سنبھالے جا رہاتھا،مصنوعی گرانی کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبریں پھرگردش میں ہیں جب کہ وزیراعظم عمران خان پہلے بھی کئی بارصوبائی حکومتوں اورماتحت حکام کوخودساختہ مہنگائی کی روک تھام کے لیے احکامات جاری کر چکے ہیں جو گذشتہ روز پھرجاری کیاگیاہے کہ خودساختہ مہنگائی کو کنٹرول کریں؟وزیراعظم اوران کی ٹیم میں شامل مخلص وزراء و مشیران اکرام صرف اس پر غورکرلیں کہ وزیراعظم کو بارباریہ عوامی نوعیت کے احکامات کیوں جاری کرنے پڑرہے ہیں؟کیاان کا جاری کردہ پالیسی حکمنامہ اتنابے وقعت ہے کہ حکومتی و انتظامی مشینری کے کل پرزے ذرابھروقعت واہمیت نہیں دے رہے؟ کیاوزیراعظم و وزرائے اعلیٰ کاصرف ایک حکمنامہ ماتحت حکام کے لیے کافی نہیں؟یہ صورتحال تواشارہ کر رہی ہے کہ گڈگورننس میں کچھ مسئلہ آرہا ہے،بیوروکریسی ودیگرماتحت ادارے وافسران اگرعوامی ریلیف کے لیے حکومتی ہدایات و منشاء کے مطابق کام کرنے میں ناکام ہیں تو ان کا قبلہ درست کیاجائے تا کہ انھیں اگرعوام کی فکر نہیں توکم از کم اپنی ہی عزت و فکر کے لیے سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتربنائیں تا کہ ایک سال کے اندرہونے والی کمرتوڑمہنگائی اورنت نئے ٹیکسوں کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گذارنے والے مریل عوام کو خودساختہ مہنگائی کے اژدھوں اوربچھوؤں سے تو نجات دلائی جا سکے؟ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نوٹس لیں کہ وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی نے کس بناء پر 400محکموں کی بندش اوربے روزگاروں کو نوکریوں کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھنے کا بیان جاری کیاہے جوبذات خودوزیراعظم کی طرف سے جاری کیے گئے عوام دوست اعلان وحکومتی منشورکی بھی صریحانفی ہے جس میں وزیراعظم موصوف نے ایک کروڑنوکریوں کی فراہمی کا وعدہ کیاہواہے۔

ادھرخیبرپختونخواکے فلورملزمالکان نے گندم کی عدم فراہمی پر حکومت کو سات دن کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر25اکتوبرتک ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے توصوبہ بھر میں احتجاج کیاجائے گا،متاثرہ فلورملزمالکان کے مطابق پنجاب میں فلورملزکو19اگست سے گندم کی سپلائی شروع ہے جب کہ
 خیبرپختونخواتاحال محروم ہے،دوسری طرف مسلسل 21روز سے صوبہ بھر میں سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز،پیرامیڈکس ودیگرملازمین کی ہڑتال سے نہ صرف مریض موت کے منہ میں جانے پر مجبورہیں اورمریض ولواحقین بری طرح خوارہو رہے ہیں بلکہ مہلک امراض سے بچاؤکے لیے حفاظتی ٹیکوں کے منتظرشیرخواروننھے منے نونہال بھی ڈاکٹروں کی ہڑتال کی بھینٹ چڑھ کر رہ گئے ہیں جس کاوزیراعظم عمران خان اورخیبرپختونخواحکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کوئی مناسب حل نکال کر بے موت مارے جانے والوں کی دادرسی و اشک شوئی ضرور کرنی چاہییے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :