خطے میں امن واستحکام کے لئے پاک نیوی کا قابل فخر کردار

جمعرات 31 دسمبر 2020

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

سمندر کسی بھی ملک کے لئے اہم اثاثہ ہونے کے ساتھ مختلف ممالک کے درمیان معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
 پاکستان کو بھی اللہ رب العزت نے سمندری صلاحیتوں سے بخوبی نوازا ہے.  پاکستان کی سمندری حدود یعنی کہ Exclusive Economic Zone اور Continental Shelf دو لاکھ 90 ہزار مربع کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ پانی کا وسیع قطع پاکستان کے زمینی پھیلائو کا تقریبا 35 فیصد بنتا ہے۔

اس سمندری حدود میں تمام وسائل کو صرف اور صرف پاکستان بروئے کار لا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی 90 فیصد تجارت سمندر کے ذریعے سے ہی ہو رہی ہے۔ اس حجم میں چین کے میگا پروجیکٹ BRI اور میری ٹائم سلک روڈ (Maritime Silk Road) کے پھیلائو سے بے پناہ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

(جاری ہے)

اسی بنا پر بحیرہ ہند گریٹ پاور پولیٹکس جیو اکنامکس کا محور بنتا جا رہا ہے۔

  دنیا کی تمام عالمی طاقتیں اس خطہ کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنی طاقتور بحری افواج سے کام لے رہی ہیں اور اس مقصد کے لئے امریکی بحریہ نے اپنا نیول بیس بحرین اور جبوتی میں قائم کررکھا ہے اسی طرح برطانیہ کا نیول بیس قطر، چین کا نیول بیس جبوتی اور روس کا نیول بیس سوڈان میں قائم ہے۔ دنیا کی ان بڑی طاقتوں کے جنگی بیڑوں کی اس خطے میں موجودگی کا عمومی مقصد سمندر میں نظم وضبط اور امن قائم کرنا ہے کیونکہ یہ خطہ ہر طرح کے روایتی اور غیر روایتی خطرات سے دوچار ہے جس میں بحری قذاقی، انسانی سمگلنگ، ہتھیاروں کی غیر قانونی رسد وغیرہ شامل ہیں۔

اس تمام تر صورتحال کی پیچیدگی اور اہمیت سے پاک نیوی نہ صرف  بخوبی واقف ہے بلکہ سمندری حدود کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے ہر دم تیار بھی ہے۔ سمندری راستوں کے ذریعے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے بھرپور کردار ادا کرنے کے ساتھ پاک نیوی خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش ہے - اس مقصد کے تحت نیول ڈپلومیسی کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس کے تحت پاکستانی بحریہ دنیا کے تمام براعظموں میں اپنے بحری جہاز روانہ کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ پاک نیوی خطہ میں منعقد ہونے والی تقریبا تمام بڑی بحری مشقوں میں عمومی طور پر شرکت کرتی ہے۔


علاقائی امن میں دنیا کے تمام ممالک کو شریک کرنے کے لئے پاکستانی بحریہ نے سال 2007 میں "امن مشقوں" کا بھی باقاعدہ آغاز کیا۔
 2007 کی  پہلی امن مشق میں بنگلہ دیش، چین،فرانس، اٹلی، برطانیہ، ملائیشیا اور امریکا  سے 14 جنگی بیڑے شریک ہوئے۔ پاکستانی سمندری حدود میں منعقدہ پہلی امن مشقوں کی کامیابی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور پذیرائی حاصل ہونے کے بعد مارچ 2009 میں دوسری  امن مشقوں کا انعقاد کیا گیا۔

اس بار آسٹریلیا، چین، بنگلہ دیش،فرانس، جاپان، ملائیشیا، برطانیہ، نائیجیریا، ترکی اور امریکا سمیت 24 ممالک کی بحری فوجوں نے شرکت کی، ان مشقوں کے دوران  14 جنگی بیڑوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ دو سال کے وقفے کے بعد تیسری امن مشقیں مارچ 2011 میں منعقد ہوئیں، ان مشقوں میں 28 ممالک کی بحری فوجوں نے شرکت کی، آسٹریلیا، چین، فرانس، انڈونیشیا، اٹلی، ملائیشیا،سعوی عرب اور امریکا سے 11 جنگی بیڑوں کے علاوہ آسٹریلیا اور جاپان سے 3 ایئر کرافٹ بھی امن مشقوں میں شریک ہوئے۔

سال 2013 میں پاکستان بحریہ نے چوتھی امن مشق کا انعقاد کیااور اس بار 29 ممالک کی میزبانی کی،جن میں ترکی، ملائیشیا، برطانیہ، چین، اٹلی،سری لنکا،بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، امریکا اور آسٹریلیا وغیرہ شریک ہوئے۔
سال 2017 میں منعقد ہونے والی پانچویں امن مشق کا دائرہ کار مزید بڑھایا گیا- ان میں آسٹریلیا، چین، انڈونیشیا،روس، سری لنکا، ترکی، برطانیہ، امریکا اور جاپان سمیت 33 ممالک نے شرکت کی- چھٹی امن مشقیں فروری 2019 میں منعقد ہوئیں۔

عمان، آسٹریلیا، چین، اٹلی، ملائیشیا، سری لنکا، ترکی سمیت 46 ممالک کی بحری افواج نے پاکستانی سمندری حدود میں منعقدہ ان مشقوں میں حصہ لیا جبکہ ایک سو سے زائد آبزرورز اور مندوبین نے بھی شرکت کی-
پاک نیوی کی جانب سے ساتویں امن مشقوں کی تیاریاں بھی زور وشور سے جاری ہیں۔ فروری 2021 میں منعقد کی جانے والی ان مشقوں میں شرکت کے لئے  50 ممالک کی بحری افواج پاکستانی سمندری حدود میں اتریں گی جو یقینی طور پر پاکستان کے لئے فخر کا مقام ہونے کے ساتھ خطے میں امن کے قیام اور استحکام کے لئے پاکستان نیوی کی خدمات کا اعتراف ہے۔

پاک نیوی دور جدید کے جنگی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے پر بھی خاص توجہ دے رہی ہے۔ جون 2020 میں پاکستان میں ترکی کے تعاون سے پاک نیوی کے لئے جدید بحری جنگی جہازوں 'ملجیم' کی تیاری کا آغاز اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ F-22P کلاس وار شپ کی تیاری کا آغاز، تبوک کلاس OPV وار شپ کی بحری بیڑے میں شمولیت، UAVs، جیٹ LRMPA ہوائی جہاز اور جدید آبدوزوں کی  بیڑے میں ٹیکنالوجی کے تبادلے کے تحت مستقبل قریب میں شمیولیت، بحریہ کی دفاعی پیداوار اور صلاحیتوں کو مزید بہتر بنا دے گی-
پاک نیوی کا کردار وطن عزیز کی سمندری حدود کے ساتھ  قومی مفادات کے تحفظ میں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

ایک طرف جہاں پاک نیوی پاکستان کی معیشت میں "گیم چینجر" کی حیثیت اختیار کر جانے والے  پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی کے لئے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کوشاں ہے تو دوسری طرف روایتی دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔روایتی دشمن بھارت کی طرف سے پلوامہ میں دہشتگردی کے واقعہ کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور فالس فلیگ آپریشن جیسے واقعات کے بعد پاک نیوی نے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی آبدوز کو پاکستانی سمندری حدود سے نکال باہر کرکے ثابت کردیا کہ پاک نیوی جدید جنگی حکمت عملی اور دفاعی صلاحیتوں سے لیس ایک قابل فخر بحری طاقت بن چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :