شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‎‎

پیر 6 ستمبر 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

قرآن کی ہر آیت اپنے اندر تہہ در تہہ راز سموٸے ہوٸے ہے جس تک پہنچنا ما وشما کے بس کی بات نہیں۔مگر اللہ کی ذات نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پہ فرمایا کہ اسمیں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنیوالوں کے لیے۔
اہلِ فکر،اہلِ دانش،اہلِ نظر ہی اسے سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں
میں جب بھی یہ آیتِ مقدسہ پڑھا کرتی
وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور نہ کہو جو اللہ کی راہ میں مارے گٸے انہیں مردہ،بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اسکا شعور نہیں رکھتے۔


تو میں سوچا کرتی کہ ایسا مقام کہ جو اللہ کی راہ میں مارا گیا وہ مر کے بھی زندہ  ہے۔
آخر ایسا کیا ہے؟ کیسے ہے؟ کیونکر؟
پھر جیسے جیسے تاریخ کا مطالعہ کیا اشاعتِ اسلام سے لیکر آج تک کے شہدا کی زندگی کو پڑھنے،سننے اور سمجھنے کا موقع ملا تو سمجھ آیا کہ اللہ کو اسلام اور اسلام کے نام پہ بناٸی گٸی ریاستوں یا اسلام کی ترویج کرنے والے ممالک سے اسقدر محبت ہے کہ جب کوٸی انکی سرحدوں پہ اسکا نام لیکر قربان ہوجاتا ہےتو اللہ کی ذات اسے ہمیشہ دوام کردیتی ہے۔

(جاری ہے)


ایسے ہی سلسلے کی ایک کڑی جنگِ ستمبر ہے جسمیں سے ہم ٦ ستمبر کو بطورِ خاص یومِ دفاع کے نام  سے موسوم کرتے ہیں۔
یہاں ایک نقطہ گوش گزار کرتی چلوں کہ شہدا کی یادکا تعلق کسی ایک خاص دن،مہینے یا سال سےنہیں بلکہ ہماری ہر شام و صبح یا ہر پہر کی آزادی شہدا کے خون کے احیا کی بین دلیل ہے۔
٦ ستمبر 1965 کی  دفاعی جنگ میں ہمارے مجاہدین سے جس جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا وہ آج بھی دشمن کی سوتی آنکھ کو جگا دینے کے لیے سنایا جاتا ہے۔


جس طرح ہمارے بہادر جان ہتھیلی پہ رکھ کے دشمنوں کےسامنےایک سیسہ پلاٸی دیوار بنے کھڑے رہے اس منظر نے تاریخِ پاکستان کا سر ہمیشہ کے لیے فخر سے بلند کردیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک نوجوان ٥ دن تک مسلسل دفاعی جنگ لڑتا رہتا ہے اور بالآخر دشمنوں کے ایک ٹینک کے گولے سے جامِ شہادت نوش کرلیتا ہے۔تاریخ اسے میجر عزیزبھٹی شہید کے نام سے رقم کرتی ہے ۔


اوپر آسمان پہ ان شہدا کا نام ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں لکھا جاتا یے جبکہ زمیں پہ ملک و ملت کی جانب سے ایک اعزازی تمغہ نشانِ حیدر دیکر رہتی دنیا تک ایک مثال بنا دیا جاتا یے۔
٦ستمبر کی جنگ اس کی زندہ مثال ہے۔ جس میں پاکستانی قوم اورافواجِ پاکستان نے ثابت کردیا کہ ان کا دل اللہ کی یاد سے لبریز ،حبِ رسولﷺ سے مامور ، دین کی محبت سے آباد اوروطن کی آزادی و حرمت پر مر مٹنے کے جذبے سے سرشار ہے۔

یہی وہ سرمایہ تھا جس کے بل بوتے پر اس نے اپنے سے تعداد اور اسلحہ میں کئی گنا بڑی طاقت کے سارے خواب بکھیر دیئے اور سارے منصوبے اورغرور خاک میں ملا دیئے۔
آج ہمیں یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان یکبارگی میں ہمیں ایک طشت میں سجا کر نہیں دیا گیا ۔
بلکہ کٸی ماٶں کے بچے قربان ہوٸے،کٸی سہاگ لٹے،کٸی بچے یتیمی  کی راہ کے مسافر بنے،کٸی راتیں کاٹی گٸیں ،کٸی دن آہوں،سسکیوں کے شور پہ زخموں سے چور چور تیغوں کے ساٸے میں گزارے گٸے،پھر یہی نہیں اسکے قیام کے بعد بھی کٸی سالوں تک ان لازوال قربانیوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا تب جا کر ہمیں یہ آزاد اور روشن وطن نصیب ہوا۔


جسے آج کوٸی اپنے مفاد کے لیے بیچنے کے چکر میں ہے تو کوٸی اسے نچوڑ کر پی جانے کا پیاسا،جو جو جس جس میدان میں ہے اس کی خدمت کی بجاٸے اس سے خدمت لینے میں مصروف ہے۔اور کچھ سر پھرے لبرلز اس پاک ملک کے تقدس کو پامال کرنے کے لیے اپنی گھٹیا حرکات کا سہارا لیے ہوٸے ہیں۔
یہ دن ہمیں یہ بتانے نہیں آتے کہ ٹی وی چینلز پہ پروگرام چلا دو،گلی محلوں کوچوں میں جھنڈے لہرا دو بلکہ یہ پیغام دینے آتے ہیں کہ اس ملک کی خاطر دی گٸی قربانیوں کو ہر لمحہ یاد رکھو،یاد رکھو کہ خون میں لتھڑے وہ لاشے تمہیں ایک ہی پیغام دیکر گٸے کہ جب بات ملک و ملت کی آجاٸے تو پھر کوٸی تیسری راہ نہیں ہوتی صرف دو راہیں ہوتی ہیں
مار دو یا مر جاٶ۔


اے جے چوہدری صاحب کا یہ پیغام بہت دلفریب لگا جو انہوں نے اس دن کے حوالے سے اپنے قارٸین تک پہنچایا لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہمیں دشمنوں کے ناپاک عزائم کو سب نے مل کر خاک میں ملانا ہے جو ہمیں آپس میں دست و گریبان رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ فرقوں قبیلوں کی عصبیت سے پاک ہماری منزل ہے اپنے مکار دشمنوں کی سرکوبی اور اس کی مکارانہ حرکتوں پر کاری ضرب لگانے کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھنا ہے۔

اس کے لیے ملک کے دانشوروں، ادیبوں ، اہل قلم اور صاحب بصیرت ہم سب نے مل کر قوم کی رہنمائی کرتے رہنا ہے۔ یہ وقت آپس کے تفرقات اور تنازعات میں الجھنے کا نہیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ ملک کو دشمن کی سازشوں سے بچانے کا ہے۔ یوم دفاع شاندار طریقے سے منا کر دشمن کو باور کروانا ہے اور قوم کو یہ یاد دلانا ہے کہ مکار دشمن ابھی موجود ہے اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

جب تک ہم 6 ستمبر مناتے رہیں گے۔ اس سے ہمارے دشمن کے ہوش ٹھکانے پر رہیں گے۔ دشمن کوئی بھی غلطی کرنے سے پہلے ایک دفعہ نہیں سو دفعہ سوچنے پر مجبور ہو گا۔ حکمران یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ دشمن کے قبضے سے اپنی شہ رگ کو چھڑوانا ہماری بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ اب وقت آ گیا ہے مقبوضہ کشمیر کو چھیننے کا۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں حکمرانوں کو اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔

سفارتکاری اور ہر محاذ پر اقوام عالم کو باور کروانے کا وقت آ گیا ہے۔ یہی وقت ہے قائد اعظم کے پیغام پر عمل کرنے کا اور حکمرانوں کو سوچنے اور اصلاح کا تقاضا بھی، ستمبر کا مہینہ پاکستانی قوم کے لیے بہت اہم ہے ہم نے دشمن کو ایک ٹھوس پیغام دینا ہے۔ آج قوم کا امتحان بھی اور عہد بھی ۔
خون دل دیکے نکھاریں گے رخِ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھاٸی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :