وفاقی بجٹ

ہفتہ 12 جون 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

11جون 2021 کو نیا وفاقی بجٹ پیش کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں کرونا کی وجہ سے معاشی صورت تسلی بخش میں۔اس صورت حال میں یہ ایک چیلنج سے کم نہیں کہ متوازن بجٹ پیش کیا جاے۔ خاص طور پر جب گزشتہ برس معاشی شرح نمو منفی دو فی صد ریکارڈ ہوئی ہو۔ پاکستان کو اس وقت ٹیکس وصولیوں میں مسائل کا سامنا ہے۔ بجٹ خسارہ، ریکارڈ سطح پر دیکھا جارہا ہے، روپے کی قدر، برآمدات اور تجارتی توازن کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسی صورت حال میں بجٹ بنانا اور پھر عوام دوست بجٹ بنانا مشکل نظر آ رہا تاہم چند ایسے اقدامات تجویز کرتے ہیں جنکو اگر بجٹ تجاویز کا حصہ بنایا جاے تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے
رئیل اسٹیٹ کیلئے مراعات۔

(جاری ہے)


پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہو رہی ہے لیکن بدقسمتی سے اس انڈسٹری کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے ہے۔

مختلف شہروں میں بننے والی ہاؤسنگ اسکیموں کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک ایسا طویل راستہ متعین کیا گیا ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا بظاہر ناممکن ہوتا ہے۔کروڑوں روپے کی رقم سرمایہ کاری کرنے کے بعد سوسائٹی مالکان دفتروں کے دھکے کھا رہے ہیں لیکن ان کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے موجودہ قوانین پر بھی عمل نہی ہورہا۔۔موجودہ بجٹ جو کہ موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ ہے اس میں رئیل سٹیٹ کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو قانونی شکل دینے کے عمل کو آسان بنائے اور جو سوسائٹی مالکان قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں ان کی ہاؤسنگ سکیموں کی منظوریچ دی جائے اس سے اربوں روپے کا ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔حکومتی اہلکاروں کی عدم دلچسپی کے باعث غیر قانونی رہائشی سکیمیں دن بدن بڑھ رہی ہیں جب کہ جو لوگ اپنے کاروبار کو قانونی شکل دینا چاہتے ہیں ان کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔

اگر رئیل سٹیٹ کے کاروبار کو راستے میں رکاوٹیں دور کی جائیں تو نہ صرف ریوینیو میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کے رہائشی مسلے حل کرنے میں مدد ملے گی۔
تعمیراتی شعبہ پر توجہ کی ضرورت۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت کے بعد سب سے ابڑا شعبہ تعمیراتی صنعت ہے۔اعدادو شمار کے مطابق تعمیراتی شعبہ سے مجموعی طور پر 35 فیصد روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔

اس طرح تعمیراتی صنعت روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ معیشت کی ترقی تعمیراتی صنعت میں مضمر ہے اس لیے پاکستان کی معیشت کو تعمیراتی صنعت کے ذریعے ترقی دینے کے لیے خصوصی ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس ریجیم کی سہولت دی گئی تھی۔

تاہم کورونا وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیراتی صنعت کودیا گیا ریلیف پیکج معیشت کی ترقی کے لیے درست فیصلہ ہے لیکن حکومت کو اس پیکج کی مدت میں توسیع کرنی چاہیے کیونکہ دیے گئے تعمیراتی پیکج کے تحت صرف 20 فیصد کام مکمل اور 80 فیصد کام باقی ہے۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ بقیہ 80 فیصد کام مکمل کرنے کے لیے اس پیکج کی مدت میں توسیع کریتاکہ یہ شعبہ ترقی کر سکے۔

ملکی معیشت کے اشاریے یہ بتاتے ہیں کہ تعمیراتی پیکج کے اعلان کے بعد ملک میں تعمیراتی سرگرمیاں بلند ترین سطح پر پہنچیں۔پاکستان کی تاریخ میں سیمنٹ اور سریا کی پیداوار اور ٹائلز سمیت دیگر تعمیراتی مصنوعات کی فروخت پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کے مثبت اثرات جاری مالی سال کے جی ڈی گروتھ میں حیران کن اضافے سے ظاہر ہوئے ہیں۔

ریئل سٹیٹ کے حوالے سے جس طرح پہلے عرض کیا کہ تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے جبکہ بجٹ 2021-22 میں تعمیراتی شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے۔
تعمیراتی صنعت کو دیے کئے پیکج کی اہمیت۔


تعمیراتی صنعت کو دیا گیا ریلیف پیکج صحیح معنوں میں عوامی پیکج ہے۔ کہ اس پیکج کے حقیقی فوائد عوام تک پہنچے ہیں۔ اس پیکج کے ذریعے کم آمدنی والے طبقے کا اپنا گھر کا خواب پورا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے،لیکن اس پیکج سے بلڈرز اور ڈیولپرز کوئی استفادہ نہیں کرسکے۔ تاہم ملکی ابادی کا کم آمدنی والا طبقہ اس سکیم سے مستفید ہوا ہے۔۔اس پیکج سے کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

۔سیمنٹ اور سریا تعمیرات کا اہم جز ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج کے اعلان کے بعد تعمیراتی سرگرمیاں کو فروغ ملا جس سے سیمنٹ اور سریا کے مینوفیکچررز کے کارٹیل نے سریا اور سیمنٹ میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا ہے جس سے کم آمدنی والے گھر بنانے کے خواہش مند افراد اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔

اس لیے حکومت کو چاہیے کہ سیمنٹ اور سریا بنانے والی صنعتوں کو قانون کے دائرے میں لائیں بصورت دیگر سیمنٹ اور سریا کی درآمد پر ریگولر ڈیوٹی اور ایڈیشنل ریگولر ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ سریا اور سیمنٹ کی قیمتوں میں استحکام آسکے۔کم آمدنی والے طبقے کو سستے گھروں کی فراہمی موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے۔وزیراعظم کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیمنٹ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے تاکہ تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر کے دوران مذکورہ مٹیریل کی قیمتوں میں اضافے سے ان منصوبوں کو نقصان سے بچایا جاسکے دوسری صورت میں بجٹ 2021-22 میں سیمنٹ،سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی مٹیریل پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں۔


این او سی کیلے غیر ضروری روکاوٹوں کا خاتمہ کیا جاے۔۔تعمیراتی منصوبوں کے لیے افسر شاہی کی طرف سے لاگو کیے گیے سرخ گیتوں کو ختم کیا جاے۔ این او سی کی منظوری کے لیے آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے اور تعمیرات کے حوالے سے تمام بائی لاز پورے ملک کے لیے یکساں کیے جائیں۔ تعمیراتی منصوبے کے لیے بلڈرز کو درجنوں متعلقہ سرکاری محکموں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور این او سی کے لیے بھی سال سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔

آن لائن ون ونڈو آپریشن کا نظام نافذ کرکے 15 روز میں تعمیراتی منصوبے کے لیے این او سی جاری کی جانی چاہیے۔قانونی طور پر رہائشی منصوبوں کو منظوری میں بڑے پیمانے پر رکاؤٹو ں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی تعمیرات کا اضافہ ہورہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی کے 54 فیصد رہائشی کچی آبادیوں میں رہائش پزیر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ قانونی تعمیرات میں ہونے والی رکاؤٹوں کو ختم کیا جائے تاکہ شہریوں کو معیاری رہائشی سہولت میسراور کچی آبادیوں میں کمی آسکے۔

پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو صنعتی ملک بنایا جائے۔بلڈرز اور ڈیولپرز کو صنعتی زونز بنانے کے لیے مراعات دی جائیں۔ان صنعتی زونز میں ورکرز کو معیاری رہائش، صحت کی سہولتوں کے لیے اسپتال،اسکولز اور پارکس وغیرہ سمیت بنیادی سہولتیں میسر آسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :