ڈاکٹر عبد القدیر خان بنام سرکار

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

ای سیون اسلام آباد کے ایک چھوٹے سے گھر کا مکین جنت مکانی ہوگیا۔اپنی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ پاکستان کے لیے صرف کرنے والا شخص، اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔پاکستان کی قسمت میں فخر اور مسرت کے چند دن ہیں وہ اسی مرد دانا کے مرہون منت ہیں۔زرا تصور تو کریں کہ 14اگست کے بعد اگر 28مء ہماری تاریخ میں نہ ہوتی تو تاریخ پاکستان کا کیا حال ہوتا۔


بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد جس شخصیت کو زندگی کے تمام شعبوں میں بے مثال پذیرائی اور محبت ملی انکا نام ڈاکٹر عبد القدیر خان ہے۔وہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میں یکساں طور پر مقبول تھے۔پوری قوم یہ سمجھتی تھی کہ پاکستان کو محفوظ اور مامون بنانے میں انکا بنیادی کردار ہے وہ حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت کا شاہ کار تھے۔

(جاری ہے)

انتہائی نرم اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے۔ایک مستقل مسکراہٹ ان کے چہرے پر رقصاں رہتی تھی ۔البتہ قوم نے ان کے چہرے پر ایک مرتبہ بے چارگی دیکھی جب وہ صدر مشرف کے سامنے نے بے بسی اور بے چارگی کی عملی تصویر بن کر بیٹھے ہوئے تھے۔ان کی تصویر نے پوری قوم کو رلا کر رکھ دیا۔وہ پاکستان کے محسن تھے۔ان کی وجہ سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوا تھا۔

انہوں نے اپنی ساری زندگی تحفظ پاکستان کے لیے صرف کر دی تھی۔لیکن ان کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔وہ ایک حساس دل کے مالک تھے۔یہی وجہ تھی کہ سانحہ 1971 کے بعد وہ پاکستان کے مستقبل کے لیے مستقل سوچ و بچار کرنے لگے۔وہ ہر صورت میں پاکستان کو ناقابل تسخیر ملک بنانا چاہتے تھے۔پاکستان سے محبت ان کی رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔

وہ دشمن کے عزائم سے آگاہ تھے۔انہوں نے دشمن کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خط تحریر کیا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔اور پھر صلہ اور ستائش کی تمنا کیے بغیر وہ اپنے کام میں کچھ اس طرح مصروف ہوئے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا۔بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان خان محسن پاکستان تھے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے۔پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا سہرا ان کے سر ہے۔لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جس شخص نے ہمارے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے اپنا مستقبل قربان کیا،پرکشش غیر ملکی نوکری چھوڑی،آرام دہ زندگی کو خیرآباد کیا،یہاں سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود دل چھوٹا نہ کیا،افسر شاہی کے رویے، ان کا عزم متزلزل نہ کر سکے،تھوڑا معاوضہ ان کی راستے کی رکاوٹ نہ بن سکا،ساتھیوں کے رویئے انہیں مایوس نہ کر سکے،عالمی سطح کی کردار کشی اس کے قدم نہ روک سکی،اسی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم نے فٹ پاتھ پر لا کر بٹھا دیا۔

جس شخص نے پوری دنیا میں ہمارے لیے عزت کے دروازے کھولے تھے اس شخص پر ہم نے آزادی کا دروازہ بند کر دیا۔جس شخص کی وجہ سے ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلتے تھے اس شخص کو سر جھکا کر وقت کے حکمران کے سامنے بٹھا دیا،جس شخص کی وجہ سے تارکین وطن خود کو فخریہ پاکستانی کہتے تھے اسے نے ہم نے نشان عبرت بنا دیا۔اور پاکستان کی اعلی عدالتوں سے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ لیتا رہا۔

کبھی اسلام آباد ہای کورٹ کی راہداریوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنام سرکار کی آواز پڑتی تو کبھی سپریم کورٹ میں۔اور پھر آزادی کے پروانے کی تلاش میں زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوگیے۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی زمہ دار ہے۔2004 میں جب ان کی نظر بندی کا آغاز ہوا اس وقت سے لے کر ان کے وصال تک تمام سیاسی رہنماؤں نے مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا۔

2008 سے لے کر 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار رہی لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے اطمینان کے دروازے نہ کھل سکے۔2013 سے 2018 تک مسلم لیگ نون برسر اقتدار رہی لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تلخیاں کم نہ کی جا سکیں۔2018 سے لے کر اب تک جناب عمران خان نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہی کیا جو ان کے پیشرو کرتے آرہے تھے۔انہوں نے تو ان کے جنازے میں شرکت کرنا مناسب نہ سمجھا۔

ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنے والی جماعت کے سربراہ نے جنازہ میں شرکت نہ کی البتہ سید مراد علی شاہ نے شرکت کر کے کچھ بھرم تو رکھ لیا۔سید مراد علی شاہ نے واقعتا ایک فعال وزیر اعلی کا کردار ادا۔لیکن توفیق عثمان بزدار سمیت کسی حکومتی عہدیدار کو نہ مل سکی۔ ایٹمی دھماکوں کے بٹن دبانے کا کریڈٹ لینے والی جماعت کے سربراہ،میاں شہباز شریف،جنوبی پنجاب کو رونق بخشنے والے میاں حمزہ شہباز تو کجا نچلی سطح کے کسی عہدیدار نے جنازہ میں شرکت نہیں کی۔

پی ڈی ایم کے روح رواں مولانا فضل الرحمان جناب اسفند یار ولی سمیت پاکستان کی بڑی سیاسی اشرافیہ نے شرکت نہ کرکے منفی پیغام دیا جو از حد افسوسناک ہے۔کیا قوم کے محسنوں ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسی سلوک کے حقدار تھے۔؟ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی آزادی کے لئے آخری مرتبہ 2019 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی درخواست دائر کی اور تین سالوں میں صرف پانچ سماعتیں ہوسکیں۔

اپنی زندگی کے 78 سال اس ملک کی خدمت میں میں صرف کرنے والے عمر رسیدہ بزرگ کی زندگی کے آخری ایام سپریم کورٹ آف پاکستان کے ترازو کی طرف دیکھتے ہوئے گزر گئے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سچے عاشق رسول اور تصوف سے شغف رکھنے والے مسلمان ایٹمی سائنسدان تھے اسلام کے متعلق ان کا ویژن بہت واضح تھا۔میرے والد ضیاالامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ان کا ایک تعلق خاطر موجود تھا۔

جب بھی ملاقات ہوتی نہایت عقیدت و احترام سے ملتے۔پیر صاحب کی تحریر کردہ تمام کتب ان کے مطالعہ میں رہتی روزنامہ جنگ میں شائع والے ان کے کالم ان کے ذہن کی عکاسی کرتے تھے۔وہ اسلامی روایات کے علمبردار تھے اور اسلام کا وہ چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے جو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے پیش کیا تھا۔ماہ ربیع الاول میں ان کی رحلت ان کے لیے بلند بختی کا باعث ہوگی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ قدرت کا تحفہ ہوتے ہیں۔اج وہ تحفہ ہم سے واپس لے لیا گیا۔اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :