گلاسگو کانفرنس۔ 2021عالمی ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان کا کردار

جمعرات 11 نومبر 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

ماحولیاتی تبدیلیوں پر غور کرنے اور اس کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کے طور پر سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی۔ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے لیے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں نے 2030 تک جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور کاربن گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے اہداف کے حصول کے لیے نئی مہم کے آغاز پر زور دیتے ہوئے سرکاری اور نجی شعبے میں بیس ارب ڈالر جمع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

اس کانفرنس کے انعقاد اور عالمی راہنماؤں کی فکر مندی نے ایک مرتبہ پھر اس تصور کو درست ثابت کیا ہے کہ دنیا ایک عالمی گاؤں کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔اور کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

(جاری ہے)

کسی ایک ملک کی بے احتیاطی کی قیمت دوسرے ممالک کو ادا کرنی پڑتی ہے۔اگ کہیں لگتی ہے، دھواں کہیں اٹھتا ہے اور نقصانات کہیں اور ہو جاتے ہیں۔

دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات سے تمام ممالک پریشانی سے دوچار ہیں۔سائنسدانوں نے تو کئی سال قبل ہی کرہ ارض پر ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے متعلق بھی وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جاتا رہا۔ لیکن دنیا نے اس پر کان نہ دھرے۔اور نقصانات توقع سے کہیں زیادہ ہو گئے۔اس وقت وقت پوری دنیا کو ماحولیاتی تغیر کا سامنا ہے، اگر بروقت مناسب تدابیر اختیار نہ کی گئیں اور درجہ حرارت بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرہ ارض ماحولیاتی تغیر کی لپیٹ میں آکر انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے انتہائی خطرناک ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حکومتوں کے درمیان ماحولیاتی تغیر کے پینل کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہے، بعض تبدیلیاں تو ایسی ہیں جنھیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال بھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اگر کمی نہ لائی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ گنا اور موسمی درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ نا گزیر ہو جائے گا، اس طرح سے بڑھتا حرارت کرہ ارض پر موجود زندگی کے لیے نقصان دہ بن جائے گا۔


پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔پاکستان میں آلودگی کا تعلق عالمی موسمیاتی تبدیلی سے کم اور ہماری اپنی غلطیوں سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم جو کوڑا کو آگ لگانا کے قائل اور سمجھتے ہیں یہ ایک مناسب قدم ہے، وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام، ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔

اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں دریاوں اور زیر زمین پانی اور ہوا کی آلودگی پیدا ہو چکی ہے جو اب خطرناک حدود میں داخل ہو چکی ہے۔

کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے، یہاں بھی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں کے بادل، لاکھوں گاڑیوں کا دھواں اور صنعتوں کے فضلے نے سمندر کو بھی آلودہ کردیا ہے، جب کہ دوسری جانب زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مشکل ہیں۔
ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں نے زراعت کو متاثر کیا ہے۔

تو دوسری طرف زہریلی ادویات نے بھی ذرعی آلودگی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کا پاکستان کی زراعت پر اثر کچھ اس طرح نمودار ہوا ہے بے وقت کی بارش اور طوفانوں نے فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔جب فصل کے پکنے کا موسم آتا ہے تو بارش اس کے نظام کو تہ وبالا کر دیتی ہے۔اور جب آرام کی ضرورت ہوتی ہے تب ضرورت کے مطابق بارش دستیاب نہیں ہوتی۔

جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ایک طرف زرعی پیداوار میں کمی آتی ہے تو دوسری طرف جو پیداوار ہوتی ہے وہ زہریلی ادویات کے کثیر استعمال کے باعث فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہو جاتی ہے پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔، بحیثیت قوم ماحول دشمنی میں ہم اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے طور تم نے پورے ملک خصوصاً پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہوتا ہے۔دھند جیسی نظر آنے والی اسموگ میں سلفر، لیڈ، میتھینسمیت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے، اسموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص صوبہ پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

کھیتوں کی صفائی کے لیے کوئی جدید طریقہ یا آلات دستیاب نہ ہونے کے باعث کسان اگلی فصل کی کاشت سے پیشتر پچھلی فصل کے مڈھوں کو جلا ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً متصل دیہاتوں اور شہروں میں اسموگ کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔ اسموگ سے آلودہ فضا میں ایک دن سانس لینا، دو سو سے تین سو سگریٹ پھونکنے کے مترادف ہے۔ گزرے برس لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں اسموگ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں اور متعدد افراد اسپتالوں میں داخل رہے۔

لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح بہت بلند ہے اور یہ شہر آلودگی کی رینکنگ میں مسلسل سرفہرست شہروں میں شامل ہوتا ہے۔لاہور کے علاوہ دیگر بڑے شہر بھی اسی طرح کی آلودگی کا شکار ہیں۔کراچی جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے وہابی صنعتی آلودگی اپنے عروج پر ہے۔فیصل آباد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔اور جن جگہوں پر صنعتیں نہیں ہیں وہاں دیگر ذرائع سے آلودگی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

اس طرح کے چیلنجز سے نپٹ امید حکومت کے بس کی بات نہیں۔تاہم حکومت بھی اپنے طور پر متعدد اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان جیسے کثیر آبادی اور کم وسائل والے ملک میں صنعتوں کا وجود غنیمت ہوتا ہے۔ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت ان میں سے ایک ہے جو کثیر تعداد میں پاکستانی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں مصروف ہے۔روزگار کی فراہمی کے ساتھ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔

لیکن اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں ان دونوں صنعتوں کا بہت کردار ہے۔ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اس سیکٹر کی فیکٹریوں بالخصوص رنگائی اور چھپائی کے دوران بے پناہ مایع فضلے کا اخراج ہوتا ہے۔ کیونکہ فضلے کے ٹریٹمنٹ کے لیے درکار وسائل مہنگے ہیں اس وجہ سے ان پر کام کیا ہی نہیں جاتا، اگر کہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب بھی کیے گئے ہیں تو عام طور پر انھیں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کا مقصد عالمی خریداروں کو بس یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے صنعتکار کتنے سنجیدہ ہیں۔

چمڑے کی صنعت بھی پاکستان میں شدید آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں میں شامل ہے۔ چمڑا بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل یورپ میں بنتے ہیں لیکن ان کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ شدید زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے نا صرف چمڑے کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بلکہ ملحقہ علاقوں میں بسنے والے علاقوں کے مکین بھی کینسر سے متاثر ہوتے ہیں۔


ماحولیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر اثرات :گرین ہاوس گیسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے درج ذیل صورتوں میں پاکستان بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔امکا ن ہے کہ ہمالیہ میں گلیشیر پگھلنے سے سیلاب کی آمد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ عمل اگلی دو سے تین دہائیوں میں آبی وسائل کو متاثر کرے گا۔

اس کے بعد گلیشیرز کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ دریاوٴں کے بہاوٴ میں بھی کمی واقع ہوگی۔میٹھے پانی کی دستیابی میں بھی کمی کا امکان ہے، جس کی وجہ سے بائیو ڈائیورسٹی (پاکستان میں یا کسی خاص ماحول میں پودوں اور جانوروں کی زندگی کے لیے موافق حالات) میں تبدیلی رونما ہوگی اورلوگوں کے پینے کے لئے بھی کم مقدار میں میٹھا پانی دستیاب ہوگا۔

پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب کے ساحل سے متصل علاقوں کو سمندری طوفان اور کچھ شہروں میں دریاوٴں کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ ہوگا۔ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے، اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی، جس کے نتیجے میں معاش اور خوراک کی پیداوار متاثر ہوگی۔

ملک میں تیزی سے بڑھتی آبادی، شہرکی طرف نقل مکانی اور کم ہوتی پیداوارکی وجہ سے قحط سالی کا خدشہ ہوگا۔بنیادی طور پر سیلاب اور خشک سالی سے وابستہ بیماریوں کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ساحلی پانی کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہیضے کی وباء پھیل سکتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اوروسائل کا بے دریغ استعمال معاشرے میں عدم مساوات کو بھی بڑھاوا دیں گے اور معاشرتی عوامل کو عدم استحکام، تنازعات اور لوگوں کی نقل مکانی کا باعث بنیں گے۔


پاکستان کے موسم۔تغیرات کی زد میں
گلاسگو کانفرنس کے ضمن میں جاری ہونے والی مختلف رپورٹس کے مطابق غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی آبی،فضائی اور زمینی آلودگی بھی پاکستان میں کچھ کم نہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہروں لاہور، کوئٹہ اور پشاور کا شمار دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں ہر روز کارخانوں سے ہزاروں ٹن زہریلا پانی نکل کر ندی نالوں کی صورت میں سمندر میں شامل ہو کر آبی حیات کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔یہی حال باقی شہروں کا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے صنعتی فضلے کو محفوظ اور ماحول دوست انداز میں تلف کرنے یا ٹھکانے لگانے کی جانب توجہ نہیں دی جارہی۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔

زیر زمین موجود یہی آلودہ پانی ہماری خوراک کا حصہ بن کر طرح طرح کی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے موجود ہر دوسرا شخص آلودہ پانی سے متاثر ہے۔
لاہور کی حالت تو یہ ہے کہ یہاں کے محکمہ ماحولیات کے پاس ہوا کا معیار ماپنے کے آلات بھی خاطر خواہ تعداد میں موجود نہیں ہیں اور جو موجود ہیں وہ طویل عرصے سے خراب پڑے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ماحولیات کے نام پر قائم یہ محکمے عوام کے ٹیکسوں پر ایک اضافی اور غیر ضروری بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
جنگلات کا کٹاؤ
پاکستان میں غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی مسلسل کٹائی ہے۔ جنگلات کی کثرت فضائی آلودگی کو کنٹرول میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جبکہ ان کی کمی زمینی کٹاوٴ اور لینڈ سلائڈنگ جیسے تباہ کن حالات کا سبب بنتی ہے۔

پاکستان کی سابق حکومت نے 2009ء میں ایک متنازع حکم نامے کے تحت شمالی علاقوں سے لکڑی کی نقل وحمل اور کٹائی کی اجازت دی تھی حالانکہ 1993ء سے ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی تھی۔یہ پابندی اٹھتے ہی تھوڑے سے عرصہ میں لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے اور اس موقع سے لکڑی کے سمگلروں نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔گو کہ نئی حکومت نے دوبارہ جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے مگر جو درخت کاٹے جا چکے ان #کی جگہ پر نئی شجر کاری کا تاحال کوئی خاطر خوا ہ انتظام نہیں کیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ موٹر گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں براہ راست شہریوں کی صحت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیرات کی منصوبہ بندی میں قدرتی ماحول سے موافقت رکھنے والے امور کو مدنظر رکھا جائے۔ دوسری جانب پنجاب میں سال میں دو مرتبہ(موسم برسات اور بہار میں) شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صرف بعض شہری علاقوں میں فوٹوسیشن کی غرض سے پودے لگائے جاتے ہیں اور دیہاتی علاقوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ سالانہ بنیادوں پر کچھ اہداف مقرر کر کے ان کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے اقدامات
 ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق وزارت(منسٹری آف کلائمیٹ چینج) کی جانب سے جاری کی گئی معلومات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے 22.8فی صد رقبے اور 49.6فی صد آبادی کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ماضی میں انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملک کو سیلابوں کی صورت میں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔2010ء میں 10.06بلین،2011ء میں 3.07بلین جبکہ 2012ء میں 1.87بلین کا مجموعی خسارہ ملک نے اٹھایا۔ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کا سبب بننے والی گیسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک پالیسی ترتیب دی جارہی ہے۔اس سلسلے میں اپریل 2015ء میں اس پالیسی پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایک میٹنگ بھی بلائی گئی تھی جس کے فیصلوں کے تحت صوبائی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے کی پالیسی پر عمل درآمد کی کمیٹیاں اور پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے محکموں کے تحت کلائمیٹ چینج یونٹس بنائے گئے ہیں۔

2018کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں یہ وزارت مزید متحرک انداز میں کام کر رہی ہے جس سے یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے طے کیے اصول و ضوابط کے مطابق پالیسی کی تشکیل ممکن بناء جا سکے گی۔فروری 2005 ء میں چین میں 160سے زائد ممالک کے مابین طے پانے والے ”کیوٹو پروٹوکول“ کے تحت 2012ء تک صنعتی ملکوں کو گرین ہاوس گیسوں کااخراج 5.2 فی صد کم کرنا تھا۔

بدقسمتی سے یہ ہدف پورا نہ ہو سکا۔
اس کے بعد دسمبر2015ء میں پیرس میں عالمی ماحولیاتی مسائل پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے شرکت کی اور آئندہ برسوں میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے اس موقع پر عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ 2025ء تک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں 30فی صد تک کمی لانے کے لیے اقدامات کرے گا۔

اس کے علاوہ پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے کے سلسلے میں بھی غیرملکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے سیکنڈ نیشنل کمیونیکیشن (SNC) پراسس بھی شروع کیا ہے جس کے تحت ان معاشی و تکنیکی امکانات کے بارے میں ضروری معلومات اکھٹی کی جائیں گی جن کے تحت ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرنے کے لیے مرتب کیے گئے ماسٹر پلان پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔


اگر ہم اس تناظر میں پاکستان کی بات کریں تو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رواں برس ایک ارب درخت لگائے جائیں گے جب کہ پہلے مرحلے کے اختتام پر 2023 تک 3.2 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔ موسمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک میں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال 30 فی صد تک لے جانے، آب پاشی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال، پلاسٹک کو ایک سے زائد بار استعمال کے قابل بنانے کے اقدامات، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کی تیاری اور دیگر منصوبوں پر بھی حکومتی سطح پر کام جاری ہے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ متعدد این جی اوز بھی اس کام میں حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔فلاح نامی تنظیم جو لاہور کے اسکولوں کے بچوں پر مشتمل ہے اس نے ملک کے مختلف حصوں میں شجرکاری کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔کسی طرح گجرانوالہ میں درخت لگانے کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا گیا ہے۔اس طرح کی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔اگر حکومت کے شانہ بشانہ عوام بھی طویل المعیاد منصوبوں پر کام شروع کر دیں تو آلودگی کے جن کو قابو کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :