انتہا پسندی،خطرہ یا طاقت!

جمعرات 7 مارچ 2019

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

فیاض الحسن چوہان سے ہندو برادری کے خلاف دئیے گئے متنازعہ بیان پر وزیر اطلاعات کا قلم دان واپس لے لیا گیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے عمران خان کی ہدایت پر ایسا کیا،فیاض الحسن کے متنازع بیانات اب زبان زدعام ہیں،انہوں نے کشمیری عوام کو ان پڑھ کہہ کر بھی خوب بے عزتی کروائی۔جبکہ فنکاروں کے خلاف بیان بازی پر بھی انہیں معافی مانگنی پڑی تھی۔اس کی بنیاد ی وجہ وہ تنگ نظری ہے،جس میں فیاض الحسن چوہان کی پرورش ہوئی اور سیاسی و مذہبی پرداخت کے اثرات مرتب ہوئے۔

فیاض الحسن میرے کالج فیلو ہیں موصوف کہی خوبیوں کے مالک بھی ہیں لیکن متلون مزاجی غالب ہے ہم نے جس فیاض الحسن چوہان کو دیکھا تھا اس میں بہت فرق آچکا ہے۔وہ لوگوں کے کام آ نے والا بلکہ حنیف عباسی کو شہرت دینے والا بھی ہے۔

(جاری ہے)

دوست نواز اورہمدرد بھی تھا۔ہمارا روز کا اصغر مال کالج کے ہوسٹل میں جم کٹھا ہوتا تھا،فیاض روزہمارے کمرے میں ایک ہنگامہ خیز محفل بپا کرتا اور خود مرکز نگاہ بن جاتا۔

کسی کا تھانے کچہری کا مسئلہ ہوتا تو فیاض آ گے ہوتا۔اسی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں مشہور تھا،البتہ اس کے اندر آ نے والی تبدیلیاں میرے لئے حیران کن تھیں،نا مناسب الفاظ،دل آ زادی اور معذرت یہ فیاض انتہا پسند تھا۔وہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کیا اہمیت حاصل ہے،اسلام اقلیتوں کو کیا تحفظ دیتاہے؟اور عمران خان کی سوچ اور نظریہ کیا ہے،اس کے باوجود وہ توازن نہ رکھ سکا۔

یہی اس کی کمزوری ہے۔انتہا پسندی کسی بھی مذہب،عقیدے یا ملک میں ہو وہ معاشرے اور انسانیت کے عدم توازن کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان میں پانچ فیصد سے زیادہ انتہا پسند نہیں ہوں گے۔مذہب سے سب لوگ محبت کرتے ہیں۔مگر 70 سال سے ہر طبقے اور مکتب فکر کو معاشرہ برداشت کرتا آیا ہے۔وقتی ابال شاید ہو لیکن پورا پاکستانی معاشرہ ہندو،سکھ۔عیسائی سمیت دیگر اقلیتوں سے باہمی رواداری کے اصول پرقائم ہے۔

کچھ غیر ملکی مداخلت نے اس کو نقصان ضرورد یا ہے،مگر اجتماعی لحاظ سے معاشرے میں رواداری غالب ہے،آپ انتخابات کو ہی دیکھ لیں۔باوجود کوشش کے انتہا پسندوں اور متوازن مذہبی جماعتوں کو شکست ہوئی ہے۔کیونکہ پوری قوم مذہب اور سیاست کو الگ الگ مقام دیتی ہے۔امریکہ،روس جنگ اور پھر نائن الیون کے بعد پاکستان فرنٹ لائن بنا اس نے پاکستانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچا یا۔

گویا یہ بیج بھی انہوں نے بویا،جو اس درخت کو کاٹنے کے درپے ہیں۔اس سے انہیں کوئی فائدہ نظر آ رہا ہو گا۔
دنیا خود یہ کندھا استعمال کرتی ہے اورہمارے معصوم لوگ ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔تعلیم اور شعور کی کمی انہیں پرفریب جال میں پھنسا دیتی ہے۔دین اسلام اخلاق پر کھڑا ہے،یہی آس کا اصل ہتھیار ہے،باقی سب سیاست کے مفادات کے پیرائے میں دیکھا جا رہا ہے۔

اپ دیوار کے اس پار چلے جائیں بھارت میں،سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ تعصب،نفرت اور انتہا پسندی کو طاقت بنایا۔بی۔جے۔پی تو کھڑی ہی مسلم دشمنی پر ہے۔واجپائی جیسا دانش مند آدمی بھی اس کا شکار رہا جبکہ مودی تو گجرات میں مسلم اقلیت کو کچل کر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔انسان کا قائل قرار دینے والے۔اس کے دوست بن گئے۔اج بھر اسی فکر پر الیکشن جیتنے کی کوشش کر رہا ہے مگر دنیا کا دوغلا پن دیکھئے، کشمیر کی حالت زار ملاحظہ فرمائیں۔

انتہا پسندی کو کس نے خطرہ جانا اور کس نے طاقت بنایا۔سیکولرازم کی دعویدار انتہا پسندی کے ذریعے وار ہسٹریا اور نیوکلیئر خطرات پیدا کر رہی جے،سکھوں،مسلمانوں اور دلتوں کو کچلا جا رہا ہے۔مگر شدت پسندی۔دجشت گردی کا الزام پاکستان پر۔ہمارا آ ئین۔۔قومی پرچم اور رواداری تمام اقلیتوں کو تحفظ اور حقوق دیتا ہے۔ریاست کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔

بھارت ریاستی طور پر اور ٹرمپ برملا نسلی تفاخر میں مبتلا ہے۔اس کو انصاف سے کون دیکھے گا۔پاکستان دو قومی نظریے کا پاسدار توہو گا لیکن نفرت کا وہ بازار گرم نہیں جو بھارت میں ہے۔مودی تعصب پیدا کر کے اپنے انتہائی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔کوئی انگلی اٹھانے والا نہیں،ہم امن چیخ رہے ہیں،5فیصد طبقے کو پابند سلاسل کر رہے ہیں مگر بھارت ہوا دے رہا اس طرح ایک دیوار کے آر پار کتنافرق پڑے گا۔؟ فیاض الحسن چوہان ہندو برادری کے خلاف بیان بازی سے روندہ درگاہوچکا۔بھارتی متعصب کب دنیا کی نظر میں آ ئیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :