خوف قیامت ہے کیا؟

جمعہ 27 مارچ 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کرونا وائرس نے گلوبل ولیج کہلانے والی دنیا کو عالمی تنہائی میں مبتلا کر دیا ہے۔پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو آج تنہائی،معاشی اور معاشرتی مشکالات کا شکار ہے۔لیکن حکومت کے بعد سبذمہ دار طبقہ اس اھم موقع پر گومگو کی کیفیت کا شکار ہے وہ طبقہ علماء کرام کا ھے ابھی گزشتہ دنوں رات کو اذانیں دی گئیں تو دل اور دکھی ھوا کیونکہ ایک خوف کی کیفیت اور قیامت کا منظر پیش کیا گیا۔

کیا یہ علماء کرام کی ذمہ داری ہے؟ حکومت اور دوسرے طبقے معاشرتی فاصلے، نماز اور نماز جمعہ گھر پر ادا کرنے کی تاکید کر رہے ہیں صدر، گورنر اور کئی اہلکاروں نے علماء سے تعاون کی درخواست بھی کی مگر اجتماعی فتویٰ اور بعض بڑے زعماء کی درخواست کے باوجود علماء کرام مساجد میں مختلف بیان اور رؤیہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)


نماز باجماعت پر زور دیا جا رہا ہے اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ متاثرہ افراد بھی وہاں سے نکل رہیہیں۔

حضور کی پیاری دعا ہے کہ جو قرآن میں موجود ہے کہ'' اے میرے رب میری دنیا بہترین بنا دے اور میری آخرت بہترین بنانا اور مجھے عذاب جہنم سے بچانا'' کیا یہ دعا اور ہدایت قرآنی اس بات کی علامت بلکہ اعلان نہیں ہے کہ دنیا بھی حقیقت اور آخرت بھی حقیقت ہے؟ اب دنیا کی بہتری ھی آخرت کو بہتر کر سکتی ھے،علماء کرام عموماً دنیا کو نکال کر بس آخرت کی فکر کرو پر مصر رہتے ہیں البتہ اپنی دنیا تو بنا جاتے ہیں آخر یہ تضاد کیوں ھے؟ کیا رات کو کرونا وائرس کے خوف سے اذانیں دے کر لوگوں مزید خوف زدہ نہیں کرے گا کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل اپنایا ھو یا کوئی ایسی مثال، البتہ وبا سے لڑنے کا طریقہ ضرور بتایا کہ نہ وہاں آیا جائے اور نہ جایا جائے۔

بہت سارے تبلیغی جماعت کے احباب پولیس سے چھپا کر گھروں کو لوٹ گئے انہیں آگر اپنا خیال نہیں تو کیا دوسروں کا بھی نہیں ھے۔اپ کے پاس دنیا بہتر بنانے کا اللہ کا دیا اختیار ھے کہ اس کے احکامات کی پاپندی کریں تو آخرت بھی بہتر تو کیا انسان جیسی عظیم تخلیق ایسے ہی پیدا کی گئی اس نے لڑنا ہے دنیا کو بہتر بنا کر آخرت کا ساماں پیدا کرنا ہے،بے شک اللہ کی ہدایت بھی مانگنی ھے مگر کام کے بعد،اج علماء۔

خاموش کوئی علمی و فکری رہنمائی نہیں تو پھر کس طرح لوگ آپ پر اعتماد کریں گے۔ مشکل گھڑی میں آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں خدا کو تو ھم سب کی ضرورت نہیں،انسان کو ھے اس کو بچانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم اور کعبہ کو مخاطب کر کے کہا کہ بے شک انسان کی حرمت زیادہ ہے۔پھر علماء اذانیں دے کر خوف پیدا کریں گے یا سوشل انٹریکشن ختم کر کے لوگوں کو بچائیں گے،دعا اور بچنے کا راستہ لوگوں کو بتائیں گے۔

 
کرونا وائرس کے خلاف بھرپور جہاد کا اعلان کریں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر علماء کو غور کرنا ہوگا۔اس وقت حکومت کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری علماء، ذرائع ابلاغ اور پھر سماجی رابطے کے میڈیا کی ھے جو شعور،احساس ذمہ داری اور انسانی جان کی اہمیت پر رہنمائی فراہم کریں۔ غلط خبروں،علاج اور جہالت کا بازار کم از کم ان حالات میں بند کر دیں اور اس آفت کو خوف نہیں لڑنے کے جذبے کی علامت بنائیں گے تو مسائل حل ہوں گے۔

کچھ صحافی،سیاستدان اور علماء بھی فلاسفر بن کر بیٹھ گئے ہیں حالانکہ میں اگر۔ اس بیماری کا ماھر نہیں تو مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اپنا فلسفہ پیش کروں بلکہ شعوری کوشش ھر طبقے اور خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں کی ذمہ داری ہے اس کو ادا کرنا پڑے گا۔تاکہ قیامت کا خوف بھی کم ہو اؤر بچاؤ بھی ممکن ہو۔دنیا بھی بہترین اور آخرت بھی شاندار ھو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :