ارشد ندیم، خوب مقابلہ کیا مگر۔۔۔۔۔!!

پیر 9 اگست 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس میں پاکستان کی طرف اتھلیٹ ارشد ندیم نے جیولین تھرو کے فائنل راؤنڈ میں جگہ بنا کر واحد امید جگائی، ایک زمانہ تھا پاکستان اولمپکس میں ہاکی کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا رفتہ رفتہ ہاکیاں رہ گئیں، مگر کھلاڑی تھک گئے، اس مرتبہ میاں چنوں کے ارشد ندیم نے جیولین تھرو میں نام پیدا کر کے قوم کے دل جیتے، اگرچہ وہ کوئی میڈل نہیں جیت سکے مگر دل ضرور جیتے لیے، خاص کر اس ماحول میں جہاں کوئی بھی کام پیشہ ورانہ تربیت کے بغیر کیا جاتا ہے، کئی سال سے ہر کھیل مسلسل زوال پزیر ہے، بلکہ فٹ بال نامی ایک کھیل میں فیفا نے فٹ بال ایسوسی ایشن کے جھگڑوں کی وجہ سے رکنیت ہی معطل کر دی، بحال رہتی تو کون سا ھم نے کمال کرنا تھا، بنیادی طور پر ھم من حیث القوم ہر شعبے میں زوال پزیر ہیں بچپن میں ترقی پزیر کا سنتے تھے، اب زوال پزیر بھی سن لیں، اگرچیکہ کھیل کے لحاظ سے کرکٹ اور فٹ بال مقبول کھیلوں میں شمار ہوتے ہیں، جن میں کرکٹ ہم کبھی کبھی کھیل لیتے ہیں، باقی تلاش سے بھی کوئی چیز نہیں ملتی، سکوائش اور ہاکی کا عروج دیکھ کر زوال میں بھی پہلے نمبر پر آرہے ہیں، بنیادی وجہ کیا ہے؟ بڑے کھیلوں میں کمرشل ازم غالب آگیا، ان کو دوش دے سکتے ہیں، سیاست کا بھی اثر ہے مگر باقی کا کیا ھوا، سیف گیمز سے ایک اچھی ابتدا ہوئی تھی ، وہ بھی اب نہ رہے، جو سب سے بڑی وجہ ہے اس کو کہا جاتا ہے، پیشہ ورانہ تربیت اور صلاحیت کی کمی، جس کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں، رائٹ مین فار رائیٹ جاب کا کوئی اصول نہیں، کھلاڑی جسمانی اور نفسیاتی طور پر انتہائی کمزور ہیں ، آپ کرکٹ میں دیکھ لیں زیادہ پاکستانی کھلاڑی جذبات اور جسمانی زور سے کھیلتے ہیں، کوئی بھی تکنیکی حربے کے قریب سے نہیں گزرا، ایکسرسائز، خوراک اور نفسیاتی تربیت کا کوئی خیال نہیں، نہ کھلاڑیوں کو ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کو، سچن ٹنڈولکر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میچ یا ٹورنامنٹ ھوں یا نہ ھوں میں چھ گھنٹے روز پریکٹس کرتا ہوں، یہاں ھمارا طریقہ مختلف ہے، میچ جیت کر واپس آئے پھر مہینہ خوب کڑاہیاں اڑائیں، گھوما پھرا اور بغیر تربیت کے پھر کھیل میں یا سفارشی، یا ضرورت کے تحت گھس گئے، بیٹ یا کوئی اور حربہ چل گیا بس ٹھیک ہے، کرکٹ میں تو پیسہ بھی، شہرت بھی واہ واہ یے، باقی کیا چائیے، اسی طرح باقی کھیلوں کو نہ حکومت اور نہ ہی جعلی ایسوسی ایشن کی کوئی مدد حاصل ہوتی ہے، سب کچھ غیر پیشہ ورانہ انداز میں بس چل رہا ہوتا ہے، ٹیم پر کوئی پریشر ہو تو بالکل نہیں کھیل سکے گی، کیونکہ نفسیاتی تربیت کا کوئی انتظام نہیں،دماغی اور جسمانی کمزوری کے بغیر کیا کوئی کھیلے گا،اس پر مستزاد یہ کہ ملک میں غیر فطری ہیجان پیدا کر دیا جاتا ہے، قوم دعائیں کر رہی ہے، ماں رو رہی ہے، بھائی ورد کر رہے ہیں، کیا گوروں اور دیگر کھلاڑیوں کے لیے بھی دعا کی جاتی ہے، ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ محنت اور لگن کا پھل دیتا ہے،محنت کی نہیں، کھیل کو سمجھا نہیں پھر دعا کیا کرے گی، آپ ایمان کو بھی چیلنج میں ڈال دیتے ہیں، ایک بندے سے بات ہوئی ، کہنے لگا یار ہمارے کھلاڑیوں کو انگلش تک نہیں آتی، میں نے کہا بھائی جان، ھم نے انگلش بولنے کے لیے نہیں کھیلنے کے لیے بھیجا ھوا ھے وہ کھیل لے، جس زبان میں بولے کوئی برا نہیں مانے گا، یہی نہیں ہر شعبے میں آپ دیکھیں پیشہ ورانہ طریقے سے کام نہیں کیا جاتا، سیاست، حکومت، اور کئی ادارے زوال شدہ ہیں، کیسے آگے بڑھیں گے؟، آج ارشد ندیم نے اس سوال کو نئی روح پھونک دی، یہاں بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ بے چارا دباؤ کا شکار تھا وگرنہ بہترین کھیلا، دوسری طرف پہلے نمبر پر آنے والے بھارتی ایتھلیٹ کو دیکھیں کس قدر اعتماد اور چستی کا مظاہرہ کر رہا تھا، اس نے 87 میٹر سے زائد تھرو پھینکی اور ارشد ندیم پانچویں نمبر پر۔

(جاری ہے)

رہا، مقابلہ خوب کیا دل ناتواں نے مگر یہ سب کھیل زوال کا شکار ہیں، کھیل ختم ہونے سے نوجوانوں کی سرگرمیوں پر گہرا اثر پڑا ہے، وہ نشے، انتشار اور ڈپریشن کا شکار ہیں تعلیم بھی متاثر اور تربیت میں بھی سب سے پچھلی صف میں کھڑے ہیں کوئی ہے چارہ گر،  جو غیر پیشہ ورانہ رحجان ختم کر سکے, تبدیلی خود اجائے گی۔ارشد ندیم کے لیے عقیدت حاضر ہے، تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :