ڈاکٹر قاسم علی خان ایک متحرک آفیسر

منگل 24 اگست 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

تنقید کے لیے معاشرے میں بہت کچھ مل جاتا ہے، بے جا تعریف کی بھی کمی نہیں، لیکن اس زد میں اگر اچھے اور متحرک لوگ بھی آجائیں تو نقصان ھمیشہ لوگوں کا ہوتا ہے، یہ بات درست ہے کہ عوام کی خدمت اور ان کا خیال رکھنا پبلک سرونٹ کی ذمہ داری ہے، تاہم آج کل خالصتاً عوامی خدمت اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے کم لوگ ملتے ہیں ، انگریز دور سے لے کر سب سے مضبوط اور اہم پوسٹ ڈی سی کی ھے، آج تک اس کی اہمیت اور ضرورت اسی طرح موجود ہے، اب اگر ڈی سی وائسرائے ںن کر بیٹھ جائے تو عوام ھمیشہ رولتے ہیں، حکومت کی اہم میشنری اور انتظامی آمور کا حصہ ڈی سی صاحب ہی ہوتے ہیں، میں عرصہ دراز سے آن انتظامی سطح پر خدمات انجام دیتے ہوئے آفیسران کو دیکھتا اور لوگوں سے پوچھتا رہتا ہوں، جب سے عمران خان کی حکومت آئی ھے، یہ مشاہدہ اور تجزیہ زیادہ شروع کر دیا ہے، کیونکہ تبدیلی کا نعرہ اور انتظامی خامیوں اور خوبیوں پر نظر رکھنا ھمارا کام ھے،
  گزشتہ دنوں انتہائی قریبی دوست اور فزکس کے پروفیسر سہیل احمد ملک کی وساطت سے ڈاکٹر قاسم علی خان ڈی سی مانسہرہ کا تعارف ھوا، وہاں کے سیاسی اور سماجی رہنماؤں سے بھی اس سلسلے میں سوالات کیے، مجھے اندازہ ہوا کہ ڈی سی مانسہرہ بڑی ہی برق رفتاری سے عوامی خدمت میں جتے رہتے ہیں، مہنگائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور عوام اس پر سخت پریشان ہیں، ایک طویل مشاہدے کے بعد حکومت کو مصنوعی مہنگائی کا ایک نسخہ ھاتھ آیا کہ "مڈل مین" اسمیں سب سے خطرناک کردار ادا کرتا ہے، ویسے بھی یہ جو"درمیانہ" کردار ہوتا ہے وہ بڑا ہی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، جسے کہتے ہیں کہ نہ ادھر کا، نہ ادھر کا، یہ صرف اپنی خواہش کی تکمیل کرتا رہتا ہے، مفاد عزیز ھوتا ھے وہ بھی صرف اپنا مفاد، خیر ڈی سی مانسہرہ ڈاکٹر قاسم علی خان کی مڈل مین پر گہری نظر ھوتی ھے، قیمتوں کے کنٹرول میں وہ بڑی عوامی خدمت سر انجام دیتے ہیں، غریب لوگوں کی اس مشکل وقت میں ایک ریڑی والے سے لے کر بڑے دکاندار پر ڈی سی صاحب کی نظر ھے اور آن کو قابو میں رکھنے کا ھنر جانتے ہیں، ایک ایم بات اور دیکھی کہ ایک عام آدمی بھی اگر سوشل میڈیا پر کسی چیز کی اور عوام دشمنی کی نشاندھی کرتا ہے، ڈی سی صاحب اگلے چند گھنٹوں میں ایکشن کر چکے ہوتے ہیں، امن و امان کا مسئلہ ھو، جھگڑا فساد، زمین کے مقدمات اور روزمرہ کے معمولات زندگی متاثر ھونے کا خطرہ ھو ڈی سی صاحب  کوحل کے لئے پیش پیش پائیں گے، مانسہرہ ایک خوبصورت علاقہ ھے، تاہم گنجان آباد شہر کے باوجود صاف ستھرے گاؤں ہیں، زمینوں کے تنازعات، ٹمبر مافیا اور دیگر جرائم کی بھی بہتات تھی ڈی سی ڈاکٹر قاسم علی خان کے آمد ان لوگوں کے لیے خشک سالی میں بارش کا قطرہ ثابت ھوئی ایسے آفیسر ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں، عوام کی خدمت کریں تو معاشرہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہتا، قاسم علی خان اپنی توانائی، ذھانت اور محنت کو ضائع نہیں کرتے بلکہ حکمت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مانسہرہ کے عوام ان سے بہت خوش ہیں، میں نے بزرگوں، نوجوانوں اور علاقے کے کئی معززین سے ان کے بارے میں پوچھا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ اچھا کام نہیں کرتے ،  یہ الفاظ لکھنے کی وجہ بھی ان کے بارے میں عوامی  رائے کا عمل دخل ہے، خیبرپختونخوا حکومت پرویز خٹک کے زمانے میں بھی تعلیم، صحت ، اور پولیس کے شعبے میں اصلاحات کی وجہ سے شہرت کا باعث بنی تھی، بہتری کا یہ تسلسل برقرار رہے تو عوام کا معیار زندگی بدل جائے گا، لوگ ساتھ دہائیوں سے پٹواری، تحصیلدار اور گرداور صاحب کے ہاں بہت ذلیل و خوار ھوئے ھیں، یہی وہ بنیادی شعبے ہیں جہاں بہتری آ جائے تو عوام سکھ کا سانس لیں گے، آپ کہیں بھی چلے جائیں، "نصاب پٹواری," یکساں ھے، دکھ اس بات کا نہیں کہ کام نہیں ہوتا،یا رشوت لی جاتی ہے، تکلیف اس بات کی بھی ھے کہ رشوت لے کر بھی کام میں کئی سقم چھوڑ دئیے جاتے ہیں، نتیجتاً دو پارٹیاں مرتے دم تک آپس میں لڑتی رہتی ہیں، قیامت کی صبح تک یہ درد ، درد ہی رہے گا، ان شعبوں میں ڈاکٹر قاسم علی خان جیسے پڑھے لکھے، فرض شناس اور محنتی لوگ آجائیں تو اس زخم خوردہ معاشرے کو مرہم ملے گا ایبٹ آباد، مانسہرہ ایسے علاقے ہیں جہاں سیاحت، اور دیگر چھوٹی صنعتوں کو فروغ دے کر معاشی مشکلات کو دور کیا جانا چاہیے، تعلیم کی شرح دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے، لیکن انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں، حکومت کو ضلعی، تحصیل اور یونین کونسل سطح پر ایک منظم انتظامی نیٹ ورک بنانا چاہیے تاکہ ستائے ہوئے عوام کو انصاف مل سکے جیسے ڈی سی مانسہرہ ڈاکٹر قاسم علی خان کام کر رہے ہیں اس تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، یقیناً ان کے پاس اے سیز اور دیگر انتظامی ٹیم ھوگی تاہم کام والے کو کام پہ لگانا سب سے بڑا مسئلہ ھوتا ھے اور ڈاکٹر صاحب یہ خوب جانتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :