
جہانگیر ترین۔۔۔ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے!!
جمعہ 17 دسمبر 2021

پروفیسرخورشید اختر
یہ 2013ء کے انتخابات کی مہم تھی، محترم جاوید ہاشمی صاحب مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ھو چکے تھے اور اسلام آباد کے حلقے سے انتخابات لڑ رہے تھے، جنہیں دیکھ اور سن کر ھم بھی انتخابی مہم میں باقاعدہ کود گئے، چونکہ وہ سیاست میں ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے،ماضی کی جدوجہد کے احوال ھم نے پڑھ رکھے تھے، مشرف کے خلاف تحریک میں ان کو دیکھ چکے تھے اس لئے اعتبار بھی تھا اسلام آباد میں ھم ان کے ساتھ ساتھ رہے، ایک جلسے میں جو جو باتیں انہوں نے نواز شریف کے خلاف کیں، اس وقت یقین تو آگیا لیکن مجھے یہ رویہ کوئی اچھا نہیں لگا، جاوید ہاشمی جیت گئے، مگر پھر 2014 ء میں عمران خان کے مخالف ھو گئے اور نواز شریف کو لیڈر مان لیا، تکلیف یہ ھوئی کہ کیا یہ وہی جاوید ہاشمی ہیں جو کہہ رہے تھے کہ"نواز شریف سے بڑا چور، آمرانہ سوچ کا حامل، اور اقتدار کا بھوکا میں نے کوئی نہیں دیکھا' بڑے آدمی ہیں مگر دل سے اتر گئے، درد سے یہی مصرع زبان پہ آیا، "اب کسے رہنما کرے کوئی"
ایسے ہی کئی لیڈر دیکھے مگر زیادہ افسوس اس لئے نہیں ھوا کیونکہ بہت ساروں کو قریب سے دیکھا، اور یہ جان گئے کہ اقتدار کا لطف کچھ بھی کروا سکتا ہے، خیر اسی طرح جسٹس وجہیہ الدین صاحب کی عزت اور احترام بھی ھمارے۔
(جاری ہے)
ھمارے بادشاہ گر رہنما جہانگیر ترین خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور وجیہہ الدین صاحب کے الزامات کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ یہ کہہ دیا کہ عمران خان سے لاکھ دوری سہی مگر یہ بات درست نہیں ہے بلکہ میں نے تحریک انصاف کے لئے بہت کچھ کیا بنی گالا کے لیے نہیں، یہ جہانگیر ترین کا بڑا ظرف، دوستی کا حق اور اتنی ملامت اور مخالفت کے بعد بھی کھڑے رہنے کا اعلیٰ اخلاقی اصول ھے، مجھے یاد ھے، میڈیا میں ان کے خلاف اکثر بیان آتے تھے کہ وہ تحریک انصاف پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں یہی سوال 2017 ء میں بھی گردش کر رہا تھا، لیکن جب جہانگیر ترین صاحب کے ساتھ کام کا موقع ملا تو یہ دیکھا کہ وہ انتہائی محنتی، پروفشنل اور عمران خان کے سچے دوست تھے، ھم بیٹھے تھے ان سے طویل ورکنگ میٹنگ تھی، باہر پریس و میڈیا کا جم غفیر تھا، نور عالم صاحب تحریکِ انصاف میں شامل ھونے آئے تھے مگر جہانگیر ترین نے ورکنگ میٹنگ نہیں چھوڑی اور اپنے عملے کو کہا کہ نور عالم صاحب کو بنی گالا لے جائیں مرکزی دفتر وہ ھے، کسی شہرت کی پروا نہیں، نااہل ہونے پر افسردہ تھے مگر تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے کام جاری رکھا، ہر مشکل میں کھڑے رہے، انتہائی باریک بینی سے الیکشن میں کام کیا، سروے، ریسرچ، عوام کی ضرورت اور اہمیت پر سائنسی بنیادوں پر کام کیا، یہ ھمارے سامنے ھوا، اس لئے گواہی کی ضرورت نہیں، ان کے انکوائری ھوئی، سب سے ٹیکس دینے والے نکلے ، کوئی ھو سکتا ھے غلطی ھوئی ھو مگر یہ بات واضح ہے کہ وہ ایسے نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں، یا جو کچھ ان پر الزام عائد کیے گئے، باقی عدالتیں جانے اور وہ جانیں، البتہ وسیع ظرف صاف دکھائی دے گا، آج بھی جسٹس وجہیہ الدین صاحب کے الزامات کی تردید کر کے سچ اور حق دوستی ثابت کر دیا مگر وجیہہ الدین صاحب اپنا ظرف کھو بیٹھے، اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ،
۔ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.