ڈھا دے مسجد۔۔۔!

منگل 4 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ آیاز نے قبضہ یا غصب والی جگہ مسجد بنانے کو غلط قرار دیا ہے، حال ہی میں کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیے اس میں ایک مسجد کو بھی شہید کیا گیا، لوگوں کے اندر مسجد گرانے کے عمل پر مختلف چہ مگوئیاں پائی جاتی ہیں، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک موقف دیا ہے ھمارے ہاں مذھب کو ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا رحجان عام ہے جس میں علماء اور مشائخ سمیت سیاسی اور سماجی رہنما بھی شامل ہیں، یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ گروہی اور مسلکی بنیادوں پر بھی اختلافات کو ہوا دے کر مفادات حاصل کیے جاتے ہیں، دوسرا بڑا المیہ مسلم امہ کا  ھے کہ تحقیق، اور قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے یا فروغ دینے سے خوف زدہ ہیں یا اس پر بات سننے کے لیے تیار نہیں ، ان وجوہات کی بنا پر آج تک ھم تعلیم، تحقیق اور ترقی میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو دوسری اقوام نے حاصل کیا ہے، مسجد کو صرف ایک جاگیر کے طور پر دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے یا کچھ لوگ عقیدت کی وجہ سے اس پر بات کرتے ہوئے خوف زدہ ہیں  مسجد عبادت اور سماج کا ایک اہم مرکز ہے، جس کا احترام اور استعمال معاشرے میں رواداری کا باعث بنتا ہے، مشاورت، درس و تدریس، تعلیم و تحقیق غرض ہر سماجی ضرورت کی چیزیں مسجد میں بیٹھ کر طے ہوتی رہی ہیں، یہاں تک کہ غیر مسلم وفود کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پناہ دی،
  علماء اور فقہاء جانتے ہیں کہ اسلام کی پہلی مسجد، مسجد قبا کی تعمیر کیسے ہوئی  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین حاصل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟ آپ نے جس قبیلے کے افراد کی زمین تھی ان کو بلایا زمین کی اجازت لی، قیمت ادا کی اور پھر مسجد تعمیر کی، ساتھ اس چیز کو بھی مد نظر رکھا کہ یہ زمین قابل کاشت ھے یا بنجر  یعنی مکمل مفاد عامہ کی ضرورت کو پہلے دیکھا ، یہی اصول مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی سامنے رکھا گیا, مگر آج خصوصاً برصغیر  کی تاریخ دیکھیں اور آج پاکستان کی تاریخ ملاحظہ کریں تو مسلکی بنیادوں پر قبضہ کرکے مسجد کی تعمیر، پھر تعمیر کے بعد زمین پر قبضہ کرنا، یہاں تک کہ کراچی اور کئی شہروں میں ندی نالوں کو روک کر مساجد اور گھروں کی تعمیر عام ھے، کوئی بھی عالم، ادارہ اور حکومت اس پر بات کرتے ہوئے سیاسی مخالفت یا مزاحمت مول لینا نہیں چاہتی اور نہ ہی علماء اس پر کھل کر بات کرتے ہیں، عوام کی اکثریت کسی گناہ کے خوف میں مبتلا ہو کر چپ ہو جاتی ہے، نہ کوئی رہنمائی کرتا ہے اور نہ بات کرنے کو درست سمجھتا ہے، معاشرے میں سب سے بڑا کردار علماء و اساتذہ کا ھے یہی سماجی تبدیلی اور اس کو پختہ بنیادوں پر تعمیر کرنے کے ذمہ دار ہیں، مگر دونوں اپنے فرض سے پہلو تہی کرتے ہیں، دیانتداری سے اپنے فرائض منصبی پورے کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرہ جمود اور گراوٹ کا شکار ہے،
یہ فرض اسلامی نظریاتی کونسل کا ھے کہ وہ اس سلسلے میں پالیسی بنائے اور علماء و مشائخ کو اعتماد میں لے کر ایک قانونی شکل دے، ایسا نہیں کیا جائے گا تو نفرت اور گروہی تعصبات کا زہر سماجی موت کا ذریعہ بن جائے گا، علماء کرام یہ کام بآسانی طے کر سکتے ہیں ایک ایسے سوشل کنٹریکٹ کے ذریعے جہاں مقصد مسلک نہیں ، فروغ دین ھو، اصولاً سسٹم دینے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے اگر علماء کو حکومت پر اعتماد نہ ہو تو آئینی فورم اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے اس پر تو اعتماد کرنا چائیے، دین کا مقصد معاشرتی اصلاح ھے جو فرد سے افراد تک جاتا ہے، میں اکثر علماء کرام سے گزارش کر چکا ہوں کہ کہ اگر منبر پر کھڑے ھو کر تحمل اور بردباری سے بات کی جائے،معاشرے کی اصلاح، قومی اقدار کے تحفظ کی بات کی جائے اور اخلاق و اخلاص کو فروغ دیا جائے تو سب کچھ اچھا ھو سکتا ھے، میں عالم فاضل تو نہیں لیکن کراچی میں جس طرح نالوں اور قدرتی پانی کے بہاؤ کو روک کر زمینیں غصب کی گئیں، جن پر مساجد بھی بنائی گئیں، وہ عمل کیسے درست ھو سکتا ھے؟ بعض فقہاء تو یہ بھی۔

(جاری ہے)

کہتے ہیں کہ قبضے والی جگہ پر موجود مسجد میں نماز بھی جائز نہیں، البتہ اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح کیا کہ عبادت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن مسجد بنانا غصب شدہ جگہ پر درست نہیں ہے، ویسے بھی اللہ تعالیٰ بندوں کے دلوں کو جوڑتا ہے، وہ کیا کہا تھا میاں محمد بخش نے کہہ،
ڈھا دے مسجد، ڈھا دے مندر،
اک بندے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :