
ظلم کے ضابطے
پیر 23 جولائی 2018

پروفیسر رفعت مظہر
رَن ایک طرف ، چرخِ کُہن کانپ رہا ہے
(جاری ہے)
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اِس جان کی کوئی بات نہیں
طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے
آجکل گلی گلی میں یہی تجزیے و تبصرے سنائی دیتے ہیں کہ ”مہربان “ عمران خاں کی پُشت پر ہیں اِس لیے وہ ”آوے ای آوے“۔ لیکن تاریخِ پاکستان اِس کی تصدیق کرتی نظر نہیں آتی۔ یحییٰ خاں نے 70ء میں انتہائی منصفانہ انتخابات کروائے۔ اُس کا خیال تھا کہ انتخابات میں منقسم مینڈیٹ سامنے آئے گااور کمزور پارلیمنٹ سے اُس کی صدارت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ”کلین سویپ“ کر گئے۔ یحییٰ خاں کا منصوبہ ناکام ہوا، ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ضیاء الحق نے بھی 85 کے غیرجماعتی انتخابات کروا کر محمدخاں جونیجو کو ”ڈَمی وزیرِاعظم“ بنایا لیکن اِسی ”ڈَمی“ نے ضیاء الحق سے بغاوت کی اور ضیاء الحق کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ آئی ایس آئی نے محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی تشکیل دی لیکن یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا اور بینظیر کو گھر بھیجنے کے لیے 58-2B کا سہارا لینا پڑا۔
پرویز مشرف نے اپنی نگرانی میں قاف لیگ تشکیل دی اور 2002ء کے عام انتخابت میں اپنی تماتر طاقت قاف لیگ کو کامیاب کروانے میں صرف کر دی۔ الیکشن کے دنوں میں ایوانِ صدر قاف لیگ کے ہیڈ آفس میں ڈھَل گیا جہاں پرویز مشرف کی نگرانی میں اُمیدواروں کو ٹکٹیں جاری ہوتی رہیں۔ سارے ادارے قاف لیگ کی پشت پر تھے، ایجنسیاں پَل پَل کی خبر پہنچاتی رہی، کرپشن کی فائلیں کھُلتی رہیں لیکن جب نتائج سامنے آئے تو قاف لیگ وزارتِ عظمیٰ کے لیے مطلوبہ تعداد کے حصول میں ناکام۔ پھر اندھی طاقت کے زور پر فارورڈبلاکس تشکیل دے کر بلوچستان کے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیرِاعظم منتخب کروایا گیا۔ 2008 ء کے انتخابات بھی پرویزمشرف کی نگرانی میں ہی ہوئے۔ اُس وقت بھی تمام اداروں پر مشرف ہی کا کنٹرول تھا لیکن قاف لیگ چاروں شانے چِت ہوئی، پیپلزپارٹی نے چھوٹی سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنائی ۔ وردی کو ”چَمڑی“ قرار دینے والے پرویزمشرف کی ”چَمڑی“ تو پہلے ہی اُتر چکی تھی ۔ 58-2B کی اندھی طاقت اب بھی اُس کے پاس تھی، پھر بھی اُسے ایوانِ صدر چھوڑنا پڑا۔ اب وہ دیارِ غیر میں خود ساختہ جلا وطنی کے دن کاٹ رہا ہے۔
اِن دنوں بھی منصوبہ ساز اپنے منصوبوں کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ لاڈلے کے علاوہ ”جیپ سوار“ بھی میدان میں ہیں اور آصف زرداری کے مطابق سندھ میں جی ڈی اے بھی اِنہی منصوبہ سازوں کا کارنامہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر پھر بھی نوازلیگ جیت گئی یا پیپلزپارٹی، ایم ایم اے اوراے این پی کی مدد سے حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہو گئی تو منصوبہ سازوں کا رَدِعمل کیا ہوگا؟۔ یہ بھی طے کہ اگر کسی ”سنجرانی ٹائپ“ شخص کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی گئی تو سوائے تحریکِ انصاف کے اُسے کوئی بھی سیاسی جماعت تسلیم نہیں کرے گی۔ اِس صورت میں جو انارکی پھیلے گی، اُس
کے ذمہ داروں کا تعین ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.