ظلم کے ضابطے

پیر 23 جولائی 2018

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

موبائل فون بند، انٹرنیٹ بند، شہر کے سارے داخلی راستے بند، کاروبارِزندگی مفلوج، سڑکیں سنسان، پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع، مگر پھر بھی نئے جذبوں سے سَرشار ایک قافلہ رواں دواں۔ اہلِ جنوں کے اِس قافلے کا ہر فرد جانتا تھا کہ وہ اپنے قائد کا استقبال تو کجا، اُس کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ پائے گا۔ اِس کے باوجود بھی وہ قافلہ کشاں کشاں یہ کہتا ہوا جانبِ منزل رواں ”قدم بڑھاوٴ نوازشریف ،ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔

اِس آتشِ شوق کو محسوس کرکے ہم نے سوچا کہ اب جیت ہار بے معنی ہوچکی۔ وہ جیت چکا جو ”زنجیر بوسی“ کے لیے وطن لوٹ رہا ہے، جو ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے، جو ظلم کے ضابطوں کے خلاف ڈَٹ کر کھڑا ہونے کے لیے آرہا ہے۔ شاعر نے حضرت علی کی شان میں کہا
کِس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے
رَن ایک طرف ، چرخِ کُہن کانپ رہا ہے
آج اگر ”شیرِخُدا“ کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا وہ شخص وطن لَوٹ رہا تھا تو پھر اُس کا والہانہ استقبال کیوں نہ کیا جاتااور ایک ”پروفیسر“ کی سَربراہی میں قائم نگران حکومت لرزاہ بَراندام کیوں نہ ہوتی۔

(جاری ہے)

13 جولائی آئی اور گزر گئی لیکن ”پروفیسر“ کے حوالے سے تاریخِ پاکستان یقیناََ اِس دِن کو ”سیاہ“ لکھے گی کہ پروفیسر تو حلیم وشفیق ہوتے ہیں مگر یہ کیسا پروفیسر ہے جس نے ظلم کے سارے ہتھکنڈے آزما ڈالے ۔ ساری زندگی اخلاق کا درس دینے والے کا ایسا بھیانک روپ؟۔ میاں نوازشریف کے اِس انتہائی جرأت مندانہ قدم اور استقبالی ہجوم کو دیکھ اور محسوس کرکے بے اختیار لبوں پہ آگیا
جِس دَھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اِس جان کی کوئی بات نہیں
 میاں نوازشریف احتساب عدالت میں لگ بھگ 100 پیشیاں بھُگتنے کے بعد اب اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ہیں اور ”زورآور“ اپنی تمامتر سختیوں کے باوجود باپ بیٹی کے عزمِ صمیم میں دراڑ تک نہیں ڈال سکے۔

صنفِ نازک کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ۔ نازونعم میں پلی بڑھی مریم نواز شاید محترمہ بینظیر کے بعد پہلی خاتون ہے جس کے ہمالہ سے اونچے عزم کی للکارہے کہ
کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل
طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے
ایک طرف ظلم کے سارے ضابطے جبکہ دوسری طرف زورآوروں کا محبوب ومرغوب ”لاڈلا“ جو ”کھیلن کو چاند“ مانگتا ہے۔

مکتب ِ سیاست کے اِس ”طفل“ کا عالم یہ کہ امپائر کی اُنگلی کا سہارا نہ ہو تولڑکھڑا جائے۔ مانگے تانگے کی اِسی طاقت کے بَل پر وہ عدالتوں کو پرکاہ برابر حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی کورٹ میں طلبی ہوتی ہے تو حاضر ہونے سے انکاری پھر بھی استثنا مل جاتا ہے۔ نَیب طلب کرتی ہے تو ٹَکا سا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ فُرصت نہیں اور ”شرمسار“ نَیب 6 اگست تک کی مہلت دے دیتی ہے۔

ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن نے طلب کیا تو خود جانے کی بجائے بابر اعوان کو بھیج دیا۔ یہ بابراعوان بھی خاصے کی شے ہے۔ کہوٹہ کچہری میں اُسے وکالت کے لیے ”پھَٹا“ تک نصیب نہ ہوا تو سینے پر ضیاء الحق کا بَیج لگا کر راولپنڈی کھسک آیا۔ ضلع کچہری راولپنڈی میں موصوف بھٹو خاندان کو غلیظ گالیاں دے کر اتراتا پھرتا تھا۔ پھر چشمِ فلک نے عجب نظارہ دیکھا کہ جب پیپلزپارٹی بَرسرِ اقتدار آئی تو پتہ نہیں کیسے اُس نے پیپلزپارٹی میں جگہ پائی۔

آصف زرداری کے دَور میں اچانک پتہ چلا کہ اُس نے ڈاکٹریٹ بھی کر لی اور اب وہ” ڈاکٹر بابراعوان“ ہے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کا قصّہ بھی بڑا دلچسپ۔ شنید ہے کہ بابراعوان ایک ایسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی 2 ڈگریاں لے کر آیا جس کا وجود عالمِ بالا میں ہو تو ہو، دنیا میں کہیں نہیں۔ ایک ڈگری اُس نے رحمٰن ملک کو دینے کی کوشش کی لیکن اُس نے صاف انکار کر دیاجبکہ دوسری ڈگری کے زور پر اُس نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا ”پھُمن“ لگا دیا۔

آجکل موصوف ایک دفعہ پھر پیپلزپارٹی کے خلاف زہر اُگلتا ہوا تحریکِ انصاف میں پایا جاتا ہے۔ اُس نے الیکشن کمیشن میں کپتان کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ”گدھا“ کہنا بہت معمولی بات ہے، اُستاد اکثر اپنے شاگردوں کو گدھا کہہ دیتے ہیں۔ بابراعوان کے اِس بیان کے بعد ہمیں تو اُس کی وکالت کی ڈگری پر بھی شک ہونے لگا ہے۔ ہماری بابارحمت سے استدعا ہے کہ وہ اَزخود نوٹس لیتے ہوئے اُس کی وکالت کی ڈگری کی جانچ کروائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ اِس ”بیت الخلائی مخلوق“ کی ڈگری اصلی ہے یا نقلی۔

کپتان نے نوازلیگ کا ساتھ دینے والوں کے بارے میں کہا کہ جو نوازشریف کے استقبال کے لیے جائے گا، وہ ”گدھا“ ہے۔ جب میاں نوازشریف وطن لوٹے تو کہا کہ جو نوازشریف کے استقبال کے لیے گئے ،وہ ”گدھے“ تھے۔ یہ عمران خاں کا نوازلیگ کے کارکنان کے لیے انتہائی نفرت وحقارت کا اظہار تھا، جسے دور کی کوڑی لانے والے بابراعوان نے کچھ سے کچھ بنا دیا۔


 آجکل گلی گلی میں یہی تجزیے و تبصرے سنائی دیتے ہیں کہ ”مہربان “ عمران خاں کی پُشت پر ہیں اِس لیے وہ ”آوے ای آوے“۔ لیکن تاریخِ پاکستان اِس کی تصدیق کرتی نظر نہیں آتی۔ یحییٰ خاں نے 70ء میں انتہائی منصفانہ انتخابات کروائے۔ اُس کا خیال تھا کہ انتخابات میں منقسم مینڈیٹ سامنے آئے گااور کمزور پارلیمنٹ سے اُس کی صدارت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ”کلین سویپ“ کر گئے۔

یحییٰ خاں کا منصوبہ ناکام ہوا، ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ضیاء الحق نے بھی 85 کے غیرجماعتی انتخابات کروا کر محمدخاں جونیجو کو ”ڈَمی وزیرِاعظم“ بنایا لیکن اِسی ”ڈَمی“ نے ضیاء الحق سے بغاوت کی اور ضیاء الحق کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ آئی ایس آئی نے محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی تشکیل دی لیکن یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا اور بینظیر کو گھر بھیجنے کے لیے 58-2B کا سہارا لینا پڑا۔


 پرویز مشرف نے اپنی نگرانی میں قاف لیگ تشکیل دی اور 2002ء کے عام انتخابت میں اپنی تماتر طاقت قاف لیگ کو کامیاب کروانے میں صرف کر دی۔ الیکشن کے دنوں میں ایوانِ صدر قاف لیگ کے ہیڈ آفس میں ڈھَل گیا جہاں پرویز مشرف کی نگرانی میں اُمیدواروں کو ٹکٹیں جاری ہوتی رہیں۔ سارے ادارے قاف لیگ کی پشت پر تھے، ایجنسیاں پَل پَل کی خبر پہنچاتی رہی، کرپشن کی فائلیں کھُلتی رہیں لیکن جب نتائج سامنے آئے تو قاف لیگ وزارتِ عظمیٰ کے لیے مطلوبہ تعداد کے حصول میں ناکام۔

پھر اندھی طاقت کے زور پر فارورڈبلاکس تشکیل دے کر بلوچستان کے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیرِاعظم منتخب کروایا گیا۔ 2008 ء کے انتخابات بھی پرویزمشرف کی نگرانی میں ہی ہوئے۔ اُس وقت بھی تمام اداروں پر مشرف ہی کا کنٹرول تھا لیکن قاف لیگ چاروں شانے چِت ہوئی، پیپلزپارٹی نے چھوٹی سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنائی ۔ وردی کو ”چَمڑی“ قرار دینے والے پرویزمشرف کی ”چَمڑی“ تو پہلے ہی اُتر چکی تھی ۔

58-2B کی اندھی طاقت اب بھی اُس کے پاس تھی، پھر بھی اُسے ایوانِ صدر چھوڑنا پڑا۔ اب وہ دیارِ غیر میں خود ساختہ جلا وطنی کے دن کاٹ رہا ہے۔
اِن دنوں بھی منصوبہ ساز اپنے منصوبوں کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ لاڈلے کے علاوہ ”جیپ سوار“ بھی میدان میں ہیں اور آصف زرداری کے مطابق سندھ میں جی ڈی اے بھی اِنہی منصوبہ سازوں کا کارنامہ ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ اگر پھر بھی نوازلیگ جیت گئی یا پیپلزپارٹی، ایم ایم اے اوراے این پی کی مدد سے حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہو گئی تو منصوبہ سازوں کا رَدِعمل کیا ہوگا؟۔ یہ بھی طے کہ اگر کسی ”سنجرانی ٹائپ“ شخص کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی گئی تو سوائے تحریکِ انصاف کے اُسے کوئی بھی سیاسی جماعت تسلیم نہیں کرے گی۔ اِس صورت میں جو انارکی پھیلے گی، اُس
 کے ذمہ داروں کا تعین ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :