سوالیہ نشان۔۔۔۔۔۔؟

جمعہ 8 مئی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ان دنوں گوگل کی بجائے یاہوڈاٹ کام کاراج ہوتا تھا۔میں یاہو کے سرچ انجن پر فوٹو گرافی کی انعام یافتہ تصاویر ڈھونڈ رہا تھا‘ جن کوفن پارے قراردیا جاتا ہے۔اپنی تلاش کے دوران میں نے انٹرنیٹ پر ایک غیر ملکی فوٹو گرافی سائیٹ پر وہ تصویریں دیکھی تو چونک گیا۔ یہ تصویروں کی نمائش تھی جس میں ایک نحیف بوڑھے کی تصویریں نمایاں تھیں۔

یہ بوڑھا شخص تصویر میں ”لچھے“ بنا رہا تھا۔یہ ہمارے ہاں کی کچی آبادی کی کسی گلی میں اتاری گئی تصاویر تھیں۔بوڑھا زمین پر بیٹھ کر اپنارزق تراش رہا تھا۔تصاویر کی سیریل‘ ایک فلم جیسا سماں پیدا کررہی تھیں۔ اس کے سامنے ایک گھومنے والا تھال‘ ہلکی آنچ پر رقص کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ چینی کے دانے دیوانہ وارگھومتے اور تپش کے باعث اپنے اپنے ذاتی وجود کو ایک نئے مشترکہ آہنگ میں سمودیتے۔

(جاری ہے)

”مقدار ایک معیاری تبدیلی کے بعد اپنا روپ بدلتی جارہی تھی“۔ رنگ دار”لچھوں“ کی دھنک‘ تصویروں میں اپنے جوبن پر تھی۔بوڑھے کے ہاتھ مہارت سے چینی کے چمکتے تاردار ریشوں کو لچھے کے بندھن میں پرورہے تھے۔ کمر خمیدہ بوڑھے کی آنکھوں پر کالے فریم کاموٹے شیشوں والا چشمہ‘ اسکی زندگی کے ناقابل برداشت بوجھ کی گواہی دے رہا تھا۔ایک طرف ٹوٹی اوردوسری ڈھیلی کمانی کو ہاتھ سے باٹے ہوئے کالے دھاگے سے سنبھالنے کی اک سعی سی کی گئی تھی ۔

بابے کا چہرہ ہی دراصل تصویر کافوکس پوائنٹ تھا۔ یہاں ابتداء سے آخیر تک ایک ہی چیز کا راج تھا۔ یہ تھی آڑھی ترچھی جھریوں کانیٹ ورک۔یہ جھریاں عمر رفتہ کے گزرنے کی بازگشت کم تھیں‘ اذیت بھری زندگی کی گزرگاہوں کا شائبہ زیادہ تھیں۔جوانی میں شائد ہی کسی نے اس شخص کا فوٹو کھینچنے میں دلچسپی لی ہوکیونکہ اس قسم کے بے شمار لوگ گردونواح میں موجود ہوتے ہیں۔

دراصل بابے کی عمربھر کی ایذانصیبیوں نے اسکے چہرے کو ”فوٹوجینک“بنا کرفوٹوگرافر کو تصویر کھینچ لینے پر مجبور کیا تھا۔ یہ فوٹو انٹرنیٹ پر بڑامقبول ہورہاتھا۔ان دنوں لائیکنگ کا تو آپشن اور رواج نہیں تھا مگران تصاویر پرپناہ تبصرے تھے۔مگرسارے کے سارے تبصرے فن فوٹو گرافی سے متعلق تھے۔ رنگوں اور لائیٹ کے کمبی نیشن، تصاویر کھینچنے کے زاوئے ، سورج کی کرنوں اور بابے کی تجربہ گاہ جیسے تھال اور ا س پر بننے والے سامان کی تصویر کشی پر ”ماہرین “ فن فوٹو گرافر کی بہت سی تعریفی آراء موجود تھیں۔

مگرتصویر کے آبجیکٹ یعنی اس بابے ،اسکی زندگی اور اسکی ان ابتلاؤں کے متعلق کوئی فقرہ نہیں تھا‘ جن کا اعلان بابے کی تصویر چیخ چیخ کر رہی ہے۔میں نے بابے کی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھی تو حیران رہ گیا۔کیوں کہ یہ میرے گھر کی عقبی گلیوں میں کہیں رہتا تھا ۔میں اس بابے کو تقریباََ روز دیکھتا تھا،وہ میرے گھر کے سامنے سے گزرکرمزدوری کرنے جاتا تھا۔

عام طور پر بابے نے گول پاپڑاٹھائے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی وہ چیونگم اور ٹافیاں بھی بیچتا، لچھے بنانے کا مجھے اسکی انٹرنیٹ پر تصویروں سے پتا چلا۔یہ کئی سالوں سے معمول تھا کہ ہمارا آمنا سامناہو تو سلام دعا ضرور ہوتی تھی۔ان کی عمرجو بھی ہولگتی کوئی اسی سال کے قریب تھی۔وہ بہت نحیف تھا۔اسکی عمر اور صحت کام کرنے کے قابل نہیں تھی۔

باباجی کودیکھ کرمیری طبیعت عجیب سی ہوجاتی تھی۔میں ان کا حال احوال ضرورپوچھتا تھامگرایسا کرتے میرے لاشعورمیں ہمیشہ ایک ڈرسا رہتا تھا۔ ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے نظر آتا تھا کہ بابا جی شوق سے مزدوری پر نہیں نکلتے، جب کہ ان سے ٹھیک طریقے سے چلا بھی نہیں جاتا۔ کئی دفعہ میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کہتے کہتے رہ گئے ہیں۔انکی جھجھک میں ہی میں نے ہمیشہ عافیت محسوس کی۔

میری اس کیفیت کو ”فراریت“کے علاوہ کیا کہا جاسکتاہے!میں صاف ستھرے کپڑے ضرور پہنتا تھا مگر مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس تھا ۔مجھے معلوم تھا کہ میں اپنی خالی جیبوں سے بابا جی کے کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کرسکوں گااور پھر شرمندگی ہوگئی ،یوں ہماراسرراہ کادیرینہ تعلق بھی ٹوٹ جائیگا۔ پھرایک دن وہی ہوا جس کا مجھے ڈرتھا۔

کئی دنوں کے وقفے سے بابا جی کے ساتھ مدبھیڑ ہوئی،بابا جی کافی نڈھال نظر آرہے تھے ۔ صحیح طریقے سے چلا بھی نہیں جارہاتھا۔ہاتھ میں ڈنڈا تھاجس پر ایک لمبا ساپولیتھین کا لفافہ لٹکایا ہوا تھا۔اس لفافے میں گول پاپڑتھے۔بابا جی چونکہ کافی دنوں کے بعد نظر آئے تھے لہذامیں نے پوچھاتو بتایا کہ کئی روز سے بیمار تھے۔میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا ،پھرمیں نے بات بدلنے کیلئے پوچھا کہ آپ کے کتنے بیٹے ہیں تو باباجی کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔

روتے ہوئے کہنے لگے، بچہ!تین بیٹے تھے تینوں ہی اللہ کوپیارے ہوگئے۔سب کوجوانی میں ہی موت نے دبوچ لیا۔اگر میرا کوئی بیٹا زندہ ہوتا تو اس عمر میں میں کیوں دھکے کھاتا پھرتا!!! پھر بابا جی نے بتایا کہ بیماری کی وجہ سے وہ کئی دنوں سے کام پر بھی نہیں جاسکے،جسکی وجہ سے نوبت فاقوں پر آن پہنچی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے شدید بخار ہے اور دل کا عارضہ بھی لاحق ہے، مگر گھر میں روٹی نہیں ہے اس لئے آج کام پر نکل آیا ہوں۔

باباجی اپنی روداد سنا رہے تھے ۔۔۔ میں نے خود کو بہت ہی بے بسی کے عالم میں پایا ۔ عجب سی شرمندگی ہورہی تھی،اسی عالم میں پوچھ بیٹھا کہ کوئی دوا دارو لی ہے؟جواب تھا کہ کہاں سے لیتا؟ میری گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا تھاکہ باباجی نے آخر مجھے امتحان میں ڈال ہی دیا۔ کہنے لگے ،بیٹا تم مجھے کہیں سے امداد دلواسکتے ہو؟تم جانتے ہو میں مزدوری پہ یقین رکھتا ہوں مگر اب میری ہمت جواب دے رہی ہے۔

اب کیفیت یہ تھی کہ میں کر بھی کچھ نہیں سکتا تھا اور انکاربھی نہیں کرسکتاتھا۔انہوں نے ”امداد“ کا لفظ منہ سے نکالتے کتنا خون جگر جلایا ہوگا۔اس کا میں اندازہ لگا سکتا تھا، مگر میری بساط کیا ہے! اس سے بھی میں خوب آگاہ تھا۔میں ہر کام کرسکتاتھا مگر کسی سے امداد کی استدعا کرنا بہرحال میرے لئے کٹھن ہی نہیں ناممکن کام تھا۔
”ناجائے رفتن نا پائے ماندن “کے مصداق میں نے کافی سوچتے ہوئے باباجی کواپنے ایک ایسے دوست کے پاس بھجوانے کا فیصلہ کی جو پیسے کے اعتبار سے ڈاکٹرتھے،کافی آسودہ حا ل تھے۔

ایک این ۔جی ۔او بھی چلاتے تھے،جسکی امدادی سرگرمیوں کی تصاویر اخبارات کی زینت بھی بنتی تھیں۔میں نے انکی ایسی کئی تصاویر دیکھی تھیں، جن میں ڈاکٹرموصوف اپنے ملازمین کے ساتھ امدادی پیکٹ غریبوں کو بانٹتے دکھائے گئے تھے۔میں نے بابا جی سے کہا کہ میرے دوست چونکہ ڈاکٹر بھی ہیں لہذا وہ آپ کو دوا بھی دے دیں گے اور آپکی مدد بھی کردیں گے۔ میں نے بابا جی کو ڈاکٹر صاحب کے نام خط بھی لکھ دیا اور باجی کے سامنے ان کو فون بھی کردیا۔

فون پر ڈاکٹرصاحب نے مجھے یقین دھانی کرائی تھی کہ باباجی کو انکے پاس بھجوادیاجائے، ان کاکام ہوجائیگا۔ مجھے تسلی اس لئے تھی کہ ایک دفعہ ڈاکٹرصاحب نے از خود فرمایا تھا کہ امریکہ میں رہنے والے انکے عزیز پہلے ”جہادیوں“ کو لمبی لمبی رقمیں بھجوایا کرتے تھے ،جب سے جہاد ختم ہوا ہے انکی رقم ہماری NGOکے پاس آرہی ہے۔

انہوں نے تو مجھ سے یہاں تک کہا تھا کہ کسی پراجیکٹ کی نشاندہی کروں تاکہ اسپر رقم خرچ کی جائے۔میں چونکہ این جیاٹک نظریات کے پس منظر اور اسکے سماج پر مہلک اثرات کو جانتا تھا اسلئے اسکا مخالف تھا ،لہذا میں نے انکے کسی بھی پراجیکٹ میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ بابا جی کو روانہ کرکے میں پھر گھر کے بیرونی دروازے کی دہلیز میں بیٹھ کرلکھنے میں مصروف ہوگیا۔

ہوادار جگہ ہونے کی وجہ سے میرا لکھنے کاوقت یہیں پر کٹتا تھا۔ باباجی گئے اورکوئی آدھ گھنٹے میں ہی انکی واپسی ہوگئی۔ان کے ہاتھوں میں ادویات ساز کمپنی کی ”سمپل“کی مہر والی چند ادویات تھیں اور چہرے پر بے پناہ خفت نے انکے چہرے پر ایک اور جھری کو گہری کردیا تھا۔میں 
نے ڈاکٹر صاحب کوفون کیا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے بات ہی نا کرنے دی اور کہا”یہ غریب لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں، ان کا ایک مسئلہ حل کرو تو بڑھنے ہی چلے جاتے ہیں ،بابا پہلے اپنی بیماری کا رونا رو رہا تھا،جب دوائی دی تو پیسے مانگنے لگا“۔

پھر فرمانے لگے، بھائی صاحب ‘ یہ لوگ پروفیشنل ہوتے ہیں،رونا دھونا انکی عادت ہوتی ہے،آپ زیادہ ٹینشن نا لیا کریں۔میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، مانگنے والا اگرواقعی پروفیشنل نا ہوتو ‘اسکے لئے اتنا ہی کافی ہوتاہے۔ اب میرے پاس فون بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔باباجی کی آخری امید میرے منہ کی ہوائیاں دیکھ کر ٹوٹ چکی تھی۔جاتے ہوئے باباجی کو دیکھا ‘ان کے چہرے کی ساری ”جھریاں “ مل کر ایک سوالیہ نشان بن چکی تھیں۔یہی سوالیہ نشان انٹرنیٹ کی اس تصویر پر نمایاں ہے،جس کی آج کل ایک فن پارے کے طور پر بین الاقوامی نمائش ہورہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :