ہزارہ لہو لہو

جمعہ 8 جنوری 2021

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

کیا لکھوں کیسے لکھوں دل حوصلہ نہیں باندھ رہا اعصاب ساتھ نہیں دے رہے مگر پھر بھی اپنے تمام حوصلے اور ہمت سے دل کی بات کو قلم کی زبان دینے کی گستاخی کر رہا ہوں بلوچستان ایک بار پھر لہو لہو ایک بار پھر کئی بیویاں بیوہ ہوئیں کئی بیٹیاں یتیم ہوئیں کئی بہنیں بھائیوں کے لاشوں پر ماتم کناں ہیں کئی مائیں اپنے جگر گوشوں سے ہمیشہ کیلۓ جدا ہوئی ہیں ایک بار پھر ہزارا بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی
جس  بے دردی اور سفاکی سے مقتولیں  عزیز رضا ۔

(جاری ہے)

محمد ناظم ،عبدالرحیم ، انور علی ، شیر محمد، احمد شاہ ، محمد صادق ، حسین جان ،محمد علی ، عبداللہ اور آصف علی کو جب وہ نیند کی حسین وادی میں خواب دیکھ رہے تھے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر  کھنڈی چھری یا چاقو سے ان کے گلے کاٹے گئے ہیں امیجن کر کے  دل خون کے آنسو روتا ہے  ذہن کانپ جاتا ہے دل کی دھڑکنیں ساکت  ہو جاتی ہیں کلیجہ منہ کو آتا ہے ارے ہندہ مزاج لوگو  ایسا ظلم  تو قرون اولیٰ اور غار کے دور میں بھی نہیں کیا جاتا تھا  ایسا  ظلم تو جانوروں سے بھی نہیں  کیا جاتا انسانیت کے گلے کاٹنے والے ستمگرو تم نے اپنے اعمال سے کربلا کی یاد تازہ کردی اور اس بات کا ثبوت دیا کہ کہ تم یزید کے پیروکار ہو  یہ عمل وحشی معاشرے کا عکاس ہے  ایسا تو جنگلی درندے بھی نہیں کرتے جنگل کا بھی کوئی قانون اور قاعدہ ہوتا ہے وہاں بھی اگر شیر کا پیٹ بھر جاۓ تو وہ جانوروں پر حملہ آور نہیں ہوتا اگر   جنگل میں کوئی مصیبت یا افتاد آن پڑے یا سیلاب آجاۓ تو شیر اور بکری ایک ہی تختے پر ہوتے ہیں  جنگل میں آندھی یا طوفان آجاۓ تو کوئل کوے کے بچوں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے  مگر یہاں انسان انسان کا خون پینے پر تلاہوا ہے یہاں ہر شخص خود سے یا دوسروں سے ڈرا سہما رہنے لگا ہے کہ کوئی اس کو یا وہ کسی کو قتل نہ کر دے میں سممجھتا ہوں جب معاشروں پر زوال آتا ہے تو وقت کی نعمت  اور دماغ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب کر لی جاتی ہے پھر  لوگوں کے پاس اپنے پیاروں کو دفنانے کا وقت بھی نہیں رہتا  گلی گلی نگر نگر شہر شہر قابیل بن جایا کرتے ہیں نسلوں کے ضمیر مردہ ہوجایا کرتے ہیں حسد اور خون حکمرانی کرنے لگتا ہے   خامشی کا زہر پئیے گلیاں آہٹوں کی آس لیے اونگھتی رہتی ہیں  آمن کی فاختہ  ڈری سہمی رہتی ہے دلوں کی بینائی رات بن جایا کرتی ہےاور پھر ہر شخص سورج کا پتہ پوچھتا پھرتا ہے  رزق کا ایسا قحط نازل ہوتا ہے جو بھی پردیس جاتا ہے پلٹ کر واپس نہیں آتا کھلونوں کی دکانوں پر بندوق اور بارود بکنے لگتا ہے بارود کی  بو سے گلشن میں بلبل اور کوئل چہچہانا بھول جاتی ہیں قومیں عقیدوں کے سلاخوں والے زنداں میں مقید واسیر ہوجاتی ہیں  بھوک غربت اور افلاس اس حد تک پہنج جایا کرتی ہے کہ کسی کو اپنے ہونے کی گواہی نہیں ملتی آج کل وطن عزیز بھی کچھ ایسے حالات سے دوچار ہے  ریاست مدینہ کا خوبصورت ماڈل پیش کرنے کے دعوے دار اپنی ناہلی نالائقی اور نا تجربہ کاری سے اسے ریاست نابینہ بنا چکے ہیں  ریا ست مدینہ میں تو دریا ۓ فرات کے کنارے بھوک سے کتا بھی مر جانے کا ذمہ دار خلیفہ وقت ہوا کرتا تھا یہاں پانچ دنوں سے ٹھٹھرتی سردی منفی چھ ڈگری میں سوگواران اپنے پیاروں کےلاشے کھلے آسمان تلے رکھ کر بیٹھے گریہ زاری کررہے مگر ارباب بست کشاد کے پاس ان کی اشک شوئی کیلۓ چند منٹ نہیں وہ اپنی کمین گاہوں میں کتوں کو قیمے والے پراٹھے کھلانے میں محو و مشغول ہیں بے حسی کا یہ عالم  کہ ایک منسٹر صاحب نے کہا کہ اگر وزیراعظم صاحب یہاں آ بھی جائیں تو آپ اسے کیا فائدہ دیں گے
کراۓ کے مشیروں کا ہجوم ہے جس کے ذریعے دن رات میڈیا پر جھوٹاپراپگنڈہ کیا جاتا ہے اور نااہل نالائق حکومت کے گن گاۓ جارہے ہم بچپن سے ایک بات سنتے اور مطالعہ پاکستان میں پڑھتے آرہے ہیں کہ ہماری ایجنسیز  دنیا کی نمبر  ون ایجنسیز  ہیں ہماری سیکورٹی فورسز اور آرمی دنیا کی نمبر ون آرمی ہے ہمارے پاس دنیا کا مضبوط ترین دفاعی نظام ہے ہم اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں ہم اگر انڈیا سے جنگ چھڑی تو انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے ہماری آئی ایس آئی اُڑتے پرندوں کے پر گن سکتی ہے  خلا سے روۓ زمین پر چلتی چیونٹیوں کی حرکات و سکنا ت دیکھ سکتی ہے اور شائد یہ بات درست بھی ہو کیونکہ ہماری ایجنسیز آرمی اور سیکورٹی ادارے کئی جنگوں کاتجربہ رکھتے ہیں مگر  جب ایسے حملے اور وارداتیں ہوتی  ہیں یا ان کی پیش گوئی کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں اس شہر میں فلاں شخص یا فلاں لیڈر پر حملہ ہونے کا خدشہ ہے تو انھیں وقت سے پہلے پکڑا یا روکا کیوں ؟ نہیں جا سکتا ان نامعلوم کو معلوم کیوں نہیں کیا جا سکتا یہ کہاں سے آتے ہیں کہاں جاتے ہیں کیوں پیچھا نہیں کیا جاتا بس ہر دفعہ را  یا موساد  پر ذمیداری  ڈال کر خودکو بری الزمہ قرار کیوں دے دیا جاتا ہے یہی ایک سوال جو میرے علاوہ بھی ہر پاکستانی کے  ذہن میں کئی دہائیوں سے گردش کر رہا ہے مگر میری طرح  ہر پاکستانی اس سوال کے جواب سے جواب رہا ہے دمہ دران کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا یا پھر سوال کرنے والا نہ ہوگا
میں آخر میں دست دعا ہوں کہ مقتولین کو لم یزل غریق رحمت کرے اور سوگواران کو یہ ناقابل برداشت صدمہ برداشت کرنے کی ہمت وحوصلہ عطا فرماۓ اور ورثا کو ان شہدا کا متبادل سہارا عطا فرماۓ اور اس ملک سمیت ہمسب پر سحاب کرم کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :