فارن فنڈنگ کیس

ہفتہ 30 جنوری 2021

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

عوام اور اپوزیشن بہت ظالم ہیں کہ وزیراعظم سے فارن فنڈنگ کا جواب مانگتے ہیں اور ریاست مدینہ کےدعویدار وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ میں کسی عام شہری کو جواب دہ نہیں اب عوام اور اپوزیشن کو سمجھ نہ آۓ تو اور بات ورنہ وزیراعظم نے تو جواب دے ہی دیا ہے گناہ اتنے تھے کہ ان کا حساب کیا دیتے سوال ایسے تھے کہ ان کا جواب کیا دیتے ریاست مدینہ کا ڈھونگ رچانے والے کو شائد معلوم نہیں کہ فارن فنڈنگ کیس نے تحریک انصاف کی قانونی ہی نہیں اخلاقی حیثیت کو بھی بحران کا شکار کر دیا ہے قانونی اعتبار سے تو جیسا بھی ہو اور فیصلہ جو بھی آۓ مگر  ان کو علم ہی نہیں کہ ان کا اخلاقی وجود کتنے بڑے بحران سے دوچار ہو چکا ہے مجھ سمیت ہر عام شہری فارن فنڈنگ کے حوالے سے اپنے اندر تحفظات اور سوالوں کے انبوہ رکھتا ہے
اگر ان سوالات کے جوابات مل گۓ توہم سمجھیں گے کہ تحریک انصاف کا اخلاقی وجود انحطاط کا شکار نہیں بصورت دیگر سب گول مال ہے
ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اکبر ایس بابر نے عمران نیازی سے جن تحفظات کا ذکر کیا  تھا کیا ریاست مدینہ کے دعویدار کی یہ ذمیداری نہیں بنتی تھی کہ وہ غیر معمولی توجہ سے اس مسئلے کو دیکھ کر حقائق عوام اور اپنے کارکنوں کے سامنے لاتے اور انہیں مطمئن کرتے اکبر ایس بابر نے شروع سے ہی کہا تھا کہ جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جاۓ اور اس سے فیصلہ کرا لیا جاۓ کہ حقائق کیا ہیں تو اس تجویز کو کیوں رد کر دیا گیا جسٹس وجیہہ الدین جیسے شخص سے تحقیق کرانے میں آخر کیا خوف مانع تھا دوسرا اگر تحریک انصاف یا عمران نیازی کا دامن صاف ہے تو سیکروٹنی کے عمل سے انھیں کیوں خوف آتا ہے صرف یہی نہیں اپنے اکاؤئنٹس کی سکروٹنی سے بچنے کیلۓ تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ پورے گیارہ مرتبہ پٹیشنز دائر کیں کیا عوام پوچھ سکتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے
خان صاحب اپنے سیاسی حریفوں کو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں مگر جب اپنا فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن کے پاس آیا تو انھوں نے الیکشن کمیشن کے حق سماعت کو بھی چیلنج کر دیا یہ حربے اور ہتھکنڈے اتنے طویل ہو گۓ کہ الیکشن کمیشن کو بالآخر کہنا پڑا کہ تحریک انصاف قانونی طریقہ کار کے غلط استعمال کی تاریخ اور مثال قائم کر چکی ہے کیا الیکشن کمیشن سے اس تمغہ حسن کارکردگی سے کسی نے ازرہ مروت ہی بد مزہ ہونے کی کوشش کی؟
الیکشن کمیشن میں نیازی صاحب نے کہا کہ میں تو اپنی پارٹی کے فنڈز کے بارے میں کسی عام شہری کو جواب دہ نہیں اور نہ معلومات فراہم کر سکتا ہوں شائد ریاست مدینہ کا ڈھونگ رچانے والے یہ بھول چکے ہیں یا انھیں معلوم نہیں کہ ریاست مدینہ میں تو حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی رسول اور خلیفہ وقت سے ایک عام شہری اٹھ کر ایک کُرتے کے بارے میں سوال کر سکتا تھا تو نیازی صاحب کو یہ غلط فہمی کیسے ہوگئی کہ وہ کسی عام شہری کو جواب دہ نہیں ستم یہ ہے کہ اکبر ایس بابر کو عدالت میں حاضر ہوکر یہ ثابت کرنا پڑا کہ میں عام شہری نہیں بلکہ تحریک انصاف کا حصہ ہوں اور ہر پارٹی ورکر قانون کے مطابق اپنی پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیل طلب کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نے ایک دو تین چار یا پانچ مرتبہ نہیں بلکہ پورے چوبیس مرتبہ تحریک انصاف کو تحریری طور پر حکم دیا ہے کہ اپنے ملکی اور غیرملکی فنڈز اور اکاؤنٹس کی تفصیل پیش کریں مگر تحریک انصاف نے ان دو درجن احکامات کو ہوا میں آڑا دیا میں سمجھتا ہوں کہ اگر معاملات اتنے سادہ اور شفاف ہیں تو الیکشن کمیشن سے بینک اکاؤنٹ چھپانے کی کیا ضرورت ہے اور بالآخر مجبور ہوکر الیکشن کمیشن کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خط لکھنا پڑا کہ تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کی تمام تر معلومات اور ریکارڈ فراہم کیا جائے جب یہ ریکارڈ آیا تو معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کے بینک آکاؤنٹس کی تعداد 23 ہے جبکہ تحریک انصاف نےان کی   تعداد آٹھ بتائی تھی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان پندرہ اکاؤنٹس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پوشیدہ رکھنے کا کیا جواز تھا اور الیکشن کمیشن سے غلط بیانی کیوں کی گئی بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب سٹیٹ بینک سے اکاؤنٹس کی تمام تر تفصیلات آ گئیں تو تحریک انصاف نے نئی درخواست دائر کردی کہ جناب مہربانی کیجیۓ اب سیکروٹنی کی کاروائی خفیہ رکھی جاۓ قارئین حضرات سوال جواب طلب یہ ہے کہ  سیکروٹنی کی کاروائی خفیہ رکھنے کی درخواست آخر کیونکر کی گئی ؟ کیا ہے جس کی پردہ داری مقصود ہے کیا معاملات کو خفیہ رکھنے کی درخواست اس چیز کی گواہی نہیں کہ تہہ خاک کوئی بڑا سونامی یا بھوکمپ انگڑائی لے رہا ہے ایک اور سوال جس کا تعلق صرف اور صرف نیو ریاست مدینہ کے خلیفہ سے ہے کہ ایک بیان حلفی جو ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جاتا ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہر سیاسی پارٹی ہر مالی سال کے ختم ہونے کے ساٹھ دنوں کے اندر اپنی پارٹی کے اثاثے آمدن آخراجات اور فنڈز کے ذرائع کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع کرانے کے پابند ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ جماعت کا سر براہ ایک بیان حلفی بھی دیتا ہے کہ اس نے کسی غیر ملکی شہری ، ادارے یا کسی دوسرے ملک سے کوئی رقم نہیں لی یہ کوئی نیا قانون بھی نہیں بلکہ یہ بات پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں بھی موجود ہے اور نیازی صاحب نے بھی یہ بیان حلفی دیا ہوا ہے اب اگر آئین کے آرٹیکل 62 کو چھوڑ دیجیۓ الیکشن ایکٹ کو بھی نظر انداز کر لیجئے جس کے تحت سربراہ اور پارٹی دونوں نااہل ہو سکتے ہیں لیکن اتنا تو بتا دیجئے کہ فارن فنڈنگ کے ثبوت موجود ہونے کے باوجود یہ حلف نامہ جمع کرانا کہ ہم نے کسی غیر ملک یا غیر ملکی باشندے سے فنڈ نہیں لیا آپ کے آدرش اصول نظریات اور اخلاقیات کے خلاف نہیں ہے آخر اس کیس میں ایسا کون سا خوف اور پیچیدگی ہے کہ عمران خان کو بار بار وکیل بدلنے کی ضرورت پیش آئی ہے یا حقیقت سے آگہی اور جان کاری کے بعد وکلا حضرات خود معذرت کر لیتے  ہیں کہ یہ مقدمہ لڑنا ہمارے بس کی بات نہیں یا پھر معاملے کو طول دینے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے ہر دو صورتوں میں کیا یہ طرز عمل آعلی آدرش رکھنے والی پارٹی کو زیب دیتا ہے جبکہ وہ انصاف کے نام پر وجود میں آئی ہو اور ہمیشہ دعویدار رہی ہو کہ ہمارے علاوہ باقی تمام پارٹیز اور ان کے لوگ چور ڈاکو اور کرپٹ ہیں یا غدار اور مشکوک ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :