تحریک آزادی کشمیر اور بھارتی سفاکیت

جمعرات 6 اگست 2020

Rana AIJAZ HUSSAIN Chauhan

رانا اعجاز حسین چوہان

گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر ریاست کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا تھا۔ اور ریاست کو دو حصوں، جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی بھارتی سازش کا سال مکمل ہونے پر حکومت پاکستان نے پانچ اگست کا دن یوم استحصال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ غاصبانہ بھارتی قبضے کی بھرپور مذمت کی جا سکے۔

کشمیر در حقیقت تقسیم ہند کا ایسا حل طلب مسئلہ ہے جو کہ بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی ، ظلم و ناانصافی اور اقوام عالم کی چشم پوشی کے باعث تاحال حل نہیں ہو سکا۔ جس پر کشمیری مسلمانوں نے جدوجہد آزادی اور اپنے حق خود ارادیت کے حصول کیلئے لاتعداد قربانیوں سے تاریخ رقم کردی ہے۔

(جاری ہے)

مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کے منصوبے سے دیگر ریاستوں کے ہندو شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش کا حق حاصل ہوگیا ہے، جس سے کشمیری مسلمانوں میں تشویش شدت اختیار کرگئی ہے اور جدوجہد آزادی کشمیر میں شدت آئی ہے۔

جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو 2 حصوں میں تبدیل کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے ، یہ بھارتی اقدام کشمیریوں کے بھروسے کیساتھ دھوکا ہے، کشمیریوں کے حق پر ڈاکہ ہے، مقبوصہ کشمیر میں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بساکر یہاں کشمیری مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کی سازش ہے۔
 مودی سرکار کا یہ فیصلہ 1947 ء میں مقبوضہ کشمیر کی لیڈر شپ کی جانب سے بھارت سے الحاق نہ کرنے کے فیصلے سے متصاد م ہے ، یکطرفہ بھارتی فیصلہ سراسر غیر قانونی ، غیر آئینی ہے جس کے خطرناک نتائج ہوں گے، اس سے مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ ہوگا اور خطے کا امن تباہ ہوکر رہ جائے گا۔

مقبوضہ جموں اور کشمیر پر غیرقانونی قبضہ کر کے بھارت نے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے 2 لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ بھی بنالیا ہے ۔ان دو لاکھ گھروں میں بھارت کی ریاستوں سے ہندؤوں کو لاکر بسایا جانا شروع کر دیا گیا ہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 30 ہزار سے زائد انتہا پسند ہندووں کو مقبوضہ کشمیر بھیجا جا چکا ہے ۔ بی جے پی حکومت ان 30 ہزار کارندوں کی مدد سے وادی میں منظم فسادات کروانے کی سازش کر رہی ہے ۔

فسادات کے ذریعے غیرقانونی طور پر قبضہ کی گئی وادی جموں اور کشمیر میں ہندووں کی آبادکاری کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ اسی لیے بھارتی فوج روزانہ کی بنیاد پر آر ایس ایس، شیو سینا اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو مقبوضہ وادی منتقل کر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب بسنے والے کشمیری مسلمانوں اور پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور35 اے ختم کرنے کا بھارتی فیصلہ مسترد کردیا ہے۔

مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بجائے مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی مظالم انتہا ء پرہیں جہاں طویل ترین لاک ڈاؤن سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکررہ گیاہے ، جو کہ آبادی کو بلا خوراک کے جیل میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ جبکہ ایک لاکھ کشمیریوں کی شہادت کے بعدبھی بھارتی فوج انتہائی ڈھٹائی سے بربریت کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے ، اور مظالم روکنے کی بجائے مقبوضہ وادی کشمیر میں مذید تازہ دم فوجی دستے بھیج دیئے ہیں۔


 اس وقت کرفیو کے باوجود پوری وادی سراپا احتجاج ہے اور ”آزادی آزادی“ کی صداؤں سے گونج رہی ہے۔ جبکہ تحریک آزادی کے دوران بھارتی بربریت سے شہید ہونے والے نوجوانوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں آخری منزل تک پہنچایا جارہا ہے اس سے بھارتی حکمرانوں کے دہشت گردی کے پروپیگنڈے کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔ د نیا بھر میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے محبت کرنے والے لوگ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ان بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو سلام پیش کررہے ہیں جنہوں نے ہر قسم کے مظالم کا سامنا کرنے اور ہر روز اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آزادی و حریت کا پرچم نہ صرف سر بلند رکھا بلکہ ان کی جدوجہد ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ولولہ انگیز نظرآرہی ہے۔

مظلوم کشمیری عوام نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر ظلم کے باوجود آزادی آزادی کے نعرے لگا کر اور جابجا پاکستانی پرچم لہرا کر اقوام عالم کے سامنے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھارتی انتہاپسند چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 35 اے کوختم کرکے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے اور پھر اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ مستحکم بنایا جائے ۔


 حکومت پاکستان کی جانب سے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں کئی بار پہنچایا گیا اور ہر بار اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے حل کے لئے بھارت پر زور دیا گیا۔ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر مظالم کے تہتر سال کے بعد تک اس مسئلے کے حل کے سلسلے کی کوششیں جاری ہیں، جس کے لئے کئی فارمولے اور معاہدے ہو چکے ہیں لیکن بھارت کبھی اس معاملے کے حل میں مخلص نہیں رہا ۔

جہاں تک بڑی طاقتوں کا تعلق ہے ان کا اپنا طویل المدت مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کبھی امن و امان قائم نہ ہو کیونکہ یہ تاریخی خطہ لا محدود وسائل و معادنیات کا مالک ہے ،اور کہیں یہ خود آپس میں کوئی سمجھوتہ نہ کر لیں،اور یہ اپنی مرضی سے عالمی سیاست میں اپنا کوئی کردارادا کرنے کے قابل نہ ہوجائیں۔ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا توبلا شبہ ہے ہی لیکن یہ عصرحاضر کے چند اہم ترین سیاسی اورا نسانی مسائل میں سے ایک نہایت تکلیف دہ مسئلہ بھی ہے ۔

کشمیر کی بے پناہ مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں اس وقت اپنے سامنے یہ سوال رکھنا چاہئے کہ بطورریاست اور من حیث القوم ہم ایسے کیااقدامات اٹھاسکتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے کشمیر ی بھائیوں کی بھرپور حمایت کر سکیں۔ پاکستان کو شدید ضرورت ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اصل صورتحال اور سنگینی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرے تاکہ بھارتی میڈیا کا مقابلہ کر کے کشمیری عوام سے موقف کی صحیح ترجمانی ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :