کامیابی کا راستہ

منگل 2 جون 2020

Rana Muhammad Rizwan Khan

رانا محمد رضوان خان

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے 
کہ دانہ خاک میں مل کرگلِ گلزار بنتا ہے
آج کل کے مشکل حالات میں جہاں پوری دنیا کے رہنے والے پریشان ہیں وہاں پاکستان کے لوگ بھی معاشی طور پر بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں۔اس وقت نہ تو نوکری پیشہ مطمئن دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کاروباری، بزنس یا کسی بھی طرح کاروزگار کمانے والا سکون میں نظر آرہا ہے. میں سمجھتا ہوں ہم پاکستانیو کے لیے یہ بڑا معاشی کرائسز گھمبیر فکر اور پریشانی کے ساتھ کچھ لوگوں کے لیے کام کرنے کے بہت سارے نئے مواقعے بھی لے کر آیا ہے جہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں.جسکے لیے ہمیں انتہائی محنت، ایمانداری اور پختہ ارادہ چاہیے ۔

۔۔۔بجائے حالات کا رونا روتے رہیں اس سے بہتر ہے اپنے آپ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔

(جاری ہے)

ویسے تو بہت ساری مثالیں ہیں جو ان مشکل حالات میں آپ کو مثبت سوچ اور کڑی محنت کا درس دیتی ہیں مگر میں اپنے قارئین کے لیے دنیا کے بہترین شوٹر اور اولمپک گولڈ میڈلسٹ ٹیکس کیرولی کی ولولہ انگیز محنت اور ہمت سے بھرپور ایک منفرد سٹوری شیئر کرنا چاہوں گا جو انسان کو بے انتہا مشکل وقت میں بھی جینے اور اپنے خواب کے کامیاب ہونے پر ایک بہترین مثال ہے،

ٹیکس کیرولی، بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ہنگری کی فوج میں شمولیت اختیار کی. وہ ایک بہترین پسٹل شوٹر تھا اور 1938 تک ٹیکس اپنے ملک میں ہونے والے سب مقابلے جیت چکا تھا اوراسکی کارگردگی دیکھ کر ہر فرد یہ کہتا تھا کہ یہ نوجوان1940 میں ٹوکیو میں منعقد ہونے والے گرمائی اولمپکس میں ملک کے لیے سونے کا تمغہ باآسانی جیت جائے گا۔

اور ٹیکس کیرولی کا بھی ایک خواب تھا کہ وہ اپنے اس شوٹنگ والے ہاتھ کو دنیا کا سب سے بہترین شوٹنگ ہینڈ ثابت کر پائے جسکے لیے اسنے کئی سال محنت اور پریکٹس کی تھی۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور 1938 میں ہونے والی ٹریننگ مشقوں میں دوران ٹریننگ ایک ہینڈ گرنیڈ ٹیکس کیرولی کے اس ہاتھ میں پھٹ گیا جس ہاتھ سے اسکے سارے خواب وابستہ تھے اور اس حادثے کے دوران اسے اپنے اسی ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے محروم ہونا پڑا. اسکے سارے خواب ایک ہی جھٹکے نے ختم کردئیے۔

اب ٹیکس کے سامنے دوراستے تھے. چاہے تو جو ہوا اسکو قبول کرے اور میڈیکل گراؤنڈ پر ریٹائرمنٹ لے اپنی ساری عمر ابتک کی کامیابیوں اور کٹے ہاتھ کو دیکھ کر زندگی گزار دے یا پھر جو چلا گیا چھن گیا اور کاٹ دیا گیا اسکو بھول جائے اور پوری توجہ اور فوکس رکھے اس پر جو اسکے پاس ہے یعنی اسکا دوسرا اور بایاں ہاتھ۔
اسنے دوسرا راستہ چنا اور اپنے علاج کے خاتمے پر ہی اسنے اپنے بائیں ہاتھ سے پریکٹس شروع کردی اس ہاتھ سے جس سے وہ صیح طریقے سے اپنا کوئی بھی کام نہیں کر سکتا تھا. مسلسل ایک سال وہ اپنے ایک بچے ہوئے ہاتھ سے شوٹنگ کی پریکٹس کرتا رہا اور1939 میں ہونے والی نیشنل چیمپئن شپ میں جب وہ گیا تو اسکے سب دوستوں اور ساتھی کھلاڑیوں نے اپنے پرانے نیشنل چیمپئن کا کھڑے ہو کر استقبال کیا اور اسے گلے ملے کہ وہ اپنی معذوری کے باوجود انکا حوصلہ بڑھانے آیا ہے مگر اسنے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ وہ انکا حوصلہ بڑھانے نہیں بلکہ انکا مقابلہ کرنے آیا ہے اور وہ سب تیار ہو جائیں.
مقابلہ شروع ہوا اور سب پسٹل شوٹر اپنے بہترین ہاتھ سے مقابلہ کر رہے تھے صرف ایک ہی ہاتھ والے اس سابقہ کھلاڑی سے جو اپنا بہترین ہاتھ کھو چکا ہے مگر وہ سب اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ ایک ہاتھ پچھلے ایک سال دھوپ چھاؤں سردی گرمی اور دن رات اسی مقابلے کی تیاری کر رہا تھا۔

تو جناب شوٹنگ ہو رہی تھی دو بہترین ہاتھوں والے کھلاڑیوں اور صرف ایک ہاتھ والے کھلاڑی کے درمیان..مقابلہ ختم ہوا اور جیتا کون؟
جی ہاں صرف ایک ہاتھ والا جو ایک سال پہلے تک اپنے اس بائیں ہاتھ سے لکھ تک نہیں سکتا تھا.لیکن ابھی منزل بہت دور تھی ۔مگر ٹیکس کا مقصد بہت واضح تھا وہ آج بھی اسی خواب اور سوچ پر بضد تھا کہ اسے اپنے ہاتھ کو اپنے ملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا بہترین ہاتھ ثابت کرنا ہے تو اسنے اپنی پوری توجہ آنے والے اولمپکس پر رکھی ہوئی تھی.
مگر یہاں اسکے خواب میں ایک اور دوری حائل ہو گئی کہ ورلڈ وار کی وجہ سے1940 کے اولمپکس کینسل کر دیے اور نہ صرف یہ اولمپکس نہ ہوئے بلکہ1944 کے اولمپکس بھی نہ ہو سکے۔

ٹیکس کیرولی کو اپنے خواب کی تکمیل کے لیے1948 کے لندن اولمپکس تک انتظار کرنا پڑا. وہ نو سال تک مسلسل اپنے آپ کو اپنے اکلوتے ہاتھ کے ساتھ تیار کرتا رہا. 
اب ٹیکس کی عمر 38سال ہو چکی تھی جبکہ اسکا مقابلہ تھا دنیا کے سارے نوجوان شوٹرز سے جو بہت مشکل تو تھا مگر انکے مقابلے میں وہ فائٹر تھا جس نے زندگی کی مشکلوں سے نہ ہارنے کی قسم کھائی ہوئں تھی.مقابلہ ہوا اور جیتا کون؟جی ہاں ایک ہاتھ والا, میں ود اونلی ہینڈ گولڈ میڈل جیت کر ٹیکس کیرولی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا اور ثابت کر دیا کہ کیا ہوا جو اسکے پاس ایک ہی ہاتھ ہے مگر وہ دنیا کے بیسٹ ہینڈ کا مالک ہے 
اور اس صرف اور صرف ایک ہی بہترین ہاتھ والے نے 1952 کے ہیلسنکی اولمپکس جیت کر مسلسل دو دفعہ دینا کے سب سے بڑے مقابلے کو جیتنے کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے۔

“اولمپک ہیرو”کا اعزاز حاصل کیا۔بے شک مشکلیں، چیلنجز اور آزمائشیں ہر انسان کی زندگی میں آتی ہیں اور ناکام لوگوں کے پاس ان سے فرار کے ہزار راستے اور بے شمار وجہیں بھی ہوتی ہیں لیکن..!
کامیاب انسان کے لیے ایک وجہ ہی بہت ہوتی ہے اس پر عمل کر کے اپنے آپ کو سب سے بہترین ثابت کرنے کی اور وہ اس پر عمل کر کے اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔ہمیں بھی چاہیے کہ حالات کی پریشانی کی فکر اور غم چھوڑ کر وہ ایک راستہ تلاش کریں جو نہ صرف ہمیں اپنی منزل پر لے جائے بلکہ کامیابی کی بلندیوں سے ہمکنار کر دے...!!!اپنے آپ کو سب سے بہترین ثابت کرنے کی اور وہ اس پر عمل کر کے اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔

ہمیں بھی چاہیے کہ حالات کی پریشانی کی فکر اور غم چھوڑ کر وہ ایک راستہ تلاش کریں جو نہ صرف ہمیں اپنی منزل پر لے جائے بلکہ کامیابی کی بلندیوں سے ہمکنار کر دے...!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :