اٹھارویں ترمیم کی کمزوریوں پر نظر ثانی ناگزیر کیوں؟

پیر 18 مئی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

اٹھارویں ترمیم کا معاملہ ایک عرصہ سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔ حکومت اٹھارویں ترمیم میں کی گئیں کچھ شقوں میں تبدیلی لانا چاہتی ہے جب کہ اپوزیشن خصوصاً پیپلز پارٹی کا مٴوقف ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں کسی قسم کی بھی تبدیلی بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
 آئین میں اٹھارویں ترمیم 2010ء میں ہوئی تھی۔ اس ترمیم نے 100 سے زائد معاملات کو جوہری طور پر تبدیل کر ڈالا اور وفاق کے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے تھے۔

این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کے تحت صوبوں کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوا جب کہ مرکز صوبوں کا دستِ نگر ہو گیا۔ اس ترمیم پر عملدرآمد کے عمل میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے، خاص طور پر نصاب کے معاملے میں تنازعہ کھڑا ہوا اور ادویات کے معیار اور ان کی قیمتوں کے تعین کے لئے بھی وفاقی ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

(جاری ہے)

18ویں ترمیم کے مطابق نصاب کی تیاری کی ذمہ داری صوبوں کا حق ہے۔

صوبوں کی تاریخ اور ثقافت کو اس طرح تحفظ مل سکتا ہے۔ سائنس کے مضامین کا پورے پاکستان میں ایک جیسا معیار ہونا بھی ضروری ہے، عالمی مالیاتی اداروں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے فنڈنگ کے تناظر میں ہائے ایجو کیشن کمیشن کو لازمی قرار دیا۔ مگر اس تمام صورتحال میں صوبوں کا منفی رویہ سامنے آیا۔ صوبوں نے این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی رقم کو تعلیم، صحت، سڑکوں کی تعمیر اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر خرچ کے لئے شفاف طریقہٴ کار اختیار نہیں کیا۔

گزشتہ دس سالوں میں یہ احساس ہوا کہ اٹھارویں ترمیم سے جو توقعات وابستہ کی گئیں تھیں پوری نہیں ہو سکیں۔ کہا یہی جا رہا تھا کہ اگر صوبوں کو اختیارات منتقل ہو گئے تو وہ صحت، تعلیم اور بلدیاتی نظام کو بہتر پوزیشن میں لے آئیں گے۔ لیکن تعلیم اور صحت کی بہتری کے لئے صوبوں نے کوئی مثالی کام نہیں کئے اور نہ ہی بلدیاتی نظام جو کہ جمہوریت کو طاقت بخشنے کا اہم ذریعہ ہے اس کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا گیا۔

صوبوں نے مرکز سے اختیارات تو حاصل کر لئے لیکن ان اختیارت کو بلدیاتی سطح پر منتقل کرنے سے احتراز کیا۔ مرکز کمزور اور صوبائی حکومتوں کا محتاج نظر آنے لگا۔ یہ ایسی کمزوری تھی جس کی اساس پر مبینہ طور پر مرکز گریز قوتوں کو تقویت ملنے لگی اور انہیں اپنے ایجنڈے آگے بڑھانے کے مواقع میسر آئے جو کہ ملکی استحکام اور سا لمیت کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔

خاص طور پر کرونا وباء پھیلنے پر صوبائی حکومتیں تمام وسائل رکھنے کے باوجود متاثرین کی مدد کرنے میں ناکام نظر آئیں۔ مصیبت میں گھرے عوام کی مدد کے لئے وفاقی حکومت کو آگے آنا پڑا۔ ایسے میں اٹھارویں ترمیم کو نئے تقاضوں میں ڈھالنے کا احساس بڑھا۔ خود مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے بھی اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں محسوس کیا کہ اٹھارویں ترمیم میں کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

 
اٹھاریں ترمیم میں کچھ تبدیلیوں سے اقتدار کے ستونوں، حکومتی اداروں اور صوبوں کے درمیان اختیارات کا توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ بہت سے ملکی مسائل کا حل بھی نظر آنے لگے گا بلکہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مددگار بھی ہو گا۔ اٹھارویں ترمیم سے مرکز اور صوبوں میں جو عدم توازن قائم ہو گیا تھا اسے ختم کرنے میں مدد بھی ملے گی۔

 
جلا وطنی کے دوران لندن میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے، اس میثاقِ جمہوریت کے تحت آئین کی بحالی، آزاد عدلیہ، آزاد الیکشن کمیشن کے قیام، صوبائی خود مختاری اور سیاست میں رواداری کے کلچر کو مستحکم کرنے کے معاملے پر اتفاق ہوا۔ تاہم اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے منتخب نمائندے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت کے استحکام اور آئین کی بالا دستی کے معاملات پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔

میثاقِ جمہوریت کے تحت ہونے والی اٹھارویں ترمیم میں گریجوایشن اور صرف دو بار وزارتِ عظمیٰ کی شرائط کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 
میری ذاتی رائے میں یہ دونوں شرائط بڑی اہم ہیں کیونکہ ایک معمولی سے معمولی نوکری کے لئے بھی تعلیمی قابلیت ضروری جانی جاتی ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اس ملک میں قانون سازی کرنی ہے، ان کے لئے تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی ہے۔

دو بار وزیرِ اعظم کی شرط موروثی سیاست کے خاتمے میں بڑی اہم ثابت ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے سیاست دانوں کی روایت رہی ہے کہ وہ ملکی مفاد کی جگہ عموماً ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ گریجوایشن کی شرط ختم ہونے پر آصف زرداری خود صدر بن گئے۔ ہمارا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ بری طرح سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ہر دہائی کے بعد یہ ایک نئے بحران سے دوچار ہوتا ہے۔

اس ڈھانچے پر قائم مفادات فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے قائم رکھنے کے لئے نئے سمجھوتے کرتے ہیں۔ کچھ ظاہری تبدیلیاں لائی جاتی ہیں، کچھ چہرے بدلے جاتے ہیں اور اس لوٹ مار کے نظام کو چلانے کے لئے مزید 10 سال کی مہلت حاصل کر لی جاتی ہے۔ 
 پاکستان کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی اشد ضرورت تھی لیکن اٹھارویں ترمیم عمرانی معاہدہ قطعاً نہیں تھا۔

ریاست اور عوام کے مابین تعلقات ایک نئے کنٹریکٹ کے متقاضی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں اس حوالے سے کچھ نہیں شامل کیا گیا۔ سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں پہنچنے والے لوگوں کو عوامی نمائندہ تصور کر لیا جاتا ہے، حالانکہ ہمارا انتخابی نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ کسی مڈل کلاس تو درکنار اچھے بھلے امیر آدمی کے لئے بھی الیکشن لڑنا محال ہو چکا ہے۔

جس نظام میں مڈل کلاس اسمبلی میں پہنچ ہی نہ سکے، اسے کس طرح حقیقی جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے؟ انتخابی نظام کو شخصیت کے بجائے متناسب نمائندگی کے ذریعے پارٹی کے نام یا نظریے پر لانا ایک بہتر آپشن ہو سکتی تھی مگر اس پر غور نہیں کیا گیا۔
 جہاں تک صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کے سوال کا تعلق ہے تو اس بارے میں سیاسی یا عوامی سطح پر دو آراء نہیں ہیں کہ اس کی ضرورت طویل عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی۔

دنیا بھر میں کامیاب جمہوریتوں کے تجزیے سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کار کو اطمینان بخش حد تک بہتر رکھنے اور بین الصوبائی تعلقات کو اعتدال پر رکھنے کے لئے صوبائی خود مختاری از حد ضروری ہے لیکن دونوں میں اختیارات کا توازن اس سے بھی اہم ہے۔ جمہوریت میں کوئی بھی پیکیج آخری نہیں ہوتا ، عوامی رائے عامہ اور انٹیلی جنشیا کے ساتھ سول سوسائٹی کا دباوٴ اس میں بہتری کے نئے زاویے شامل کرتا رہتا ہے۔

بے شک اٹھارویں ترمیم میں کئی سقم رہ گئے تھے مگر صحیح سمت پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کا سلسلہ ایک جمہوری رجحان ہے جو اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ عوامی نمائندے بدلتے حالات کا ادراک رکھتے ہیں۔ جو سقم رہ گئے تھے وہ انیسویں، بیسویں ترامیم کے ذریعے دور کئے جانے چاہئیں۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت جو ترامیم لانا چاہتی ہے وہ پارلیمنٹ میں پیش کرے تا کہ پتہ چل سکے کہ کون سے ایشوز اور معاملات ہیں جن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

امید کی جا سکتی ہے کہ آئینی ترامیم کے مسودے کی مشترکہ منظوری ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کا باعث بنے گی۔ اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت بڑھے گی اور یوں ملک میں جمہوری نظام اور جمہوری اقدار و روایات کو قائم رکھا جا سکے گا جو جمہوری نظام کی بقاء اورا ستحکام کے لئے از حد ضروری تصور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :