
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- رانا زاہد اقبال
- اسرائیل امارات سمجھوتے پر سعودی موقف قائدانہ صفات کا حامل
اسرائیل امارات سمجھوتے پر سعودی موقف قائدانہ صفات کا حامل
پیر 21 ستمبر 2020

رانا زاہد اقبال
(جاری ہے)
یہ بھی سچ ہے کہ 1968ء سے ا ب تک عرب ملکوں نے اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کبھی نہیں کیا۔ مظلوم فلسطینی کل بھی تختہٴ مشق بن رہے تھے، آج بھی وہ مار کھا رہے ہیں۔ ظاہری طور پر البتہ فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، مگر اب امریکہ کی ذہنی غلامی کا کمال دیکھئے کہ عرب ریاستیں باقاعدہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام پر پوری طرح آمادہ ہیں ، جس کی ابتداء ابو ظہبی نے کر دی ہے۔ 1979ء میں مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ قائم کیا گیا جس کے بعد اردن نے ایسا ہی معاہدہ 1994ء میں کیا۔ ان دونوں کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات باضابطہ طور پر قائم کر لئے ہیں اور یہ ایسا کرنے والا خلیج کی 6 ریاستوں میں پہلا ملک ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان خفیہ طور پر تعلقات سالوں سے قائم تھے اور حالیہ معاہدے کی تفصیلات بھی آخری وقت تک خفیہ رکھی گئی تھیں۔ متحدہ عرب امارت کی ابو ظہبی میں وزارتِ خارجہ سے بھی اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی خطے کے کسی اور عرب ملک سے اس بارے میں بات کی گئی۔ سلامتی امور میں امارات پہلے ہی اسرائیل کے رابطے میں ہے۔ اسرائیل کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہے وہ طویل عرصہ سے خلیجی ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے زمین تلاش کر رہاتھا،جس میں اب جا کر اسے کامیابی ملی ہے۔
امارات نے اسرائیل سے دوستی کر کے جہاں فلسطینی عوام کو دھوکا دیا ہے وہیں عرب، اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیونکہ اس معاہدے کی رو سے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات تبھی استوار ہو سکتے ہیں جب اسرائیل، فلسطین اور عرب سر زمین کے مقبوضات سے پیچھے ہٹے۔ اس لئے جب تک فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہو تب تک اسرائیل کے ساتھ کوئی عرب ملک تعلقات استوار نہیں کر سکتا۔ 2002ء میں عرب لیگ کی ایک کانفرنس میں سعودی عرب کے بادشاہ عبد اللہ کی تجویز پر 22 عرب ممالک نے ایک قرارداد پاس کر کے اسرائیل کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر وہ فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقے خالی کر دے اور 1967ء والی جنگ سے قبل کی جغرافیائی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو عرب ممالک ایک ساتھ مل کر اس کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیں گے۔ یعنی یہ ایک شرط تھی کہ عرب دنیا اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک وہ فلسطینی سرزمین سے اپنا غاصبانہ تسلط ختم نہیں کرتا ہے۔ سعودی عرب اپنی اس بات پر مستقل مزاجی کے ساتھ قائم ہے اور اس نے عرب امارات اور اسرائیل کی دوستی کی مخالفت کی ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل ہوئے بغیر اس ضمن میں کوئی مثبت رائے دینے سے انکار کیا ہے۔ سعودی عرب نے حق و انصاف پر مبنی اپنے مٴوقف کا کھل کر ظاہر کیا ہے۔ اس کا یہ مٴوقف عالمی سطح پر مسلم کاز کے لئے قائدانہ صفات کا حامل ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ انتخابات میں اپنے سسر کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے ٹرمپ کے داماد جیراڈ کوچز نے اپنے دیرینہ دوست ولی عہد محمد بن سلیمان کے ذریعے متحدہ عرب امارات کو معاہدے پر قائل کیا ہے۔ کیونکہ سعودی عرب کے اشارے کے بغیر امارات اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا ہے لیکن سعودی عرب کے حالیہ مٴوقف نے ان ساری باتوں کو رد کر دیا ہے۔ اتوار کی شب سعودی شاہ اور امریکی صدر کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں سعودی فرماں روا نے امریکا پر فلسطین کا مسئلہ عرب امن اقدام کے تحت حل کرنے پر زور دیا۔ سعودی عرب مملکتِ فلسطین کا مستقل اور منصفانہ حل چاہتی ہے جس کے لئے عرب امن معاہدے کو بنیاد تصور کرتے ہیں۔ ادھر ایسیکس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر عزیز الغشیان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس لئے بھی ٹھیک نہیں کر سکتا کیونکہ سعودی عرب خود کو مسلم اور عرب دنیا میں بطور لیڈر دیکھنا چاہتا ہے اس لئے ضروری سمجھتا ہے کہ فلسطین کے معاملے کو عرب امن اقدام کے فریم ورک کے اندر تعلقات معمول پر آئیں۔
مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی کے لئے عالمِ اسلام بالخصوص فلسطین جس انداز سے اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس کے لئے جتنا خون بہایا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس پر مبینہ طور پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے۔ امارات کو سمجھنا چاہئے کہ اس کے پیچھے بہت گہری سازش ہو سکتی ہے یہودیوں پر کسی حال میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ امارات اور اسرائیل معاہدے میں سازش کی بو اس لئے بھی محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ جیسے ہی دونوں ملکوں نے معاہدے پر دستخط کئے امریکہ نے سب سے پہلے استقبال کیا اور امارات کو تجارتی سمجھوتے کی پیش کش کر دی، ایف 16 جنگی طیارے دینے کی حامی بھر لی۔ یہ ایک گہری سازش ہے جس کا آنے والے وقت میں اندازہ ہو گا۔ ممکنہ طور پر یہ معاہدہ مسلمان ممالک میں پہلے سے قائم خلیج میں مزید اضافے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رانا زاہد اقبال کے کالمز
-
آج مہنگائی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ
اتوار 25 جولائی 2021
-
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فیصل آباد میں منعقد ہونے والی "انیسویں سالانہ وویمن کانفرنس" کا احوال
جمعرات 8 اپریل 2021
-
عمران خان کیوں مقبول ہوئے؟
پیر 23 نومبر 2020
-
کشمیر پر غاصبانہ تسلط کو طوالت دینے کے بھارتی ہتھکنڈے
اتوار 1 نومبر 2020
-
خدا کرے ایسا نہ ہو!
پیر 26 اکتوبر 2020
-
اقوامِ متحدہ کی 75 ویں سالگرہ
منگل 20 اکتوبر 2020
-
پلاسٹک بیگز کا کچرا ماحول کے لئے انتہائی مضر
پیر 12 اکتوبر 2020
-
عمران خان ایک تجربہ ہیں انہیں کامیاب ہونا چاہئے
اتوار 27 ستمبر 2020
رانا زاہد اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.