ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پرٹی کے قائدین احتساب کی زد میں آکر منی لانڈرنگ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے پیش نظر پابند سلا سل ہیں ان کی گرفتاریوں سے ایکبار پھر دونوں جماعتوں کے درمیان اتنی قربت بڑھ چکی ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان میل ملاقاتوں کے بعد یہ طے پایا کہ احتجاجی تحریک کے ذریعے حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے۔
حکومت مخالف اتحاد کو مزید تقویت دینے کے لئے بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت کو اب گھر بھیجا جائے اور جلد اے پی سی بھی بلائی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کوئی اتفاقی نہیں بلکہ یہ مریم‘بلاول ملاقات کا ہی ایک تسلسل ہے کہ اب دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مولانا کی کمانڈ میں حکومت کیخلاف مورچہ زن ہوں گی ۔
(جاری ہے)
میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتحاد بھی سابقہ اتحادوں کا عکاس ثابت ہوگاکیونکہ اپوزیشن کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ حکومت پر اتنا دباؤ بڑھایا جائے کہ مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی جانب سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نظر نہیں آرہی وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں دو ٹوک کہہ دیا کہ میری حکومت یا جان چلی جائے لیکن کرپٹ افراد کو نہیں چھوڑوں گا۔
حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا اب یہ بحث کے بعد پارلیمان سے منظور کروایا جائے گا اپوزیشن اس بجٹ کو پاس نہ ہونے کا عندیہ دے چکی ہے کیونکہ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے اب حکومت نے اپوزیشن کی حمایت کے بغیر بجٹ پاس کروانے کی حکمت عملی بھی یقیننا طے کر لی ہے ۔سابقہ ادوار میں جتنے بھی بجٹ پیش ہوئے اس کے تناظر میں دیکھ لیں وہ بجٹ عوام دوست تھے یا عوام دشمن لیکن اپوزیشن نے ہمیشہ حکومتوں کو اپنی سیاست کو دوام دینے کے لئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اب بھی اپوزیشن کی جانب سے کئی جانیوالی تنقید میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
جب سے عمران خان نے سابقہ دس سالوں میں لئے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لئے اعلی اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ۔دیکھا جائے توقیام پاکستان کے بعد ہی ملک پر غیر ملکی قرضوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا بیرونی قرضوں کے لحاظ سے ان کو آٹھ اداوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس حکمران نے ملک کو کتنا مقروض کیا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا دور حکومت قرضوں کے حصول کے حوالے سے بڑا تباہ کن رہا اس دور حکومت میں بڑے بڑے قرضے لئے گئے جس سے پاکستان غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور اس سلسلے کو نواز اور زرداری حکومتوں نے تواتر کیساتھ قائم رکھا۔غیر ملکی مالیاتی اداروں سے جتنے بھی اب تک سابقہ حکومتوں نے قرض حاصل کئے اگر جائزہ لیا جائے تو ملک میں کوئی ایسے میگا پروجیکٹ نظر نہیں آتے جس سے ظاہر ہو کہ غیر ملکی قرضوں کی بدولت مفاد عامہ اور ملکی ترقی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے ہوں۔
جمہوری حکومتوں کے دور میں لئے گئے قرضوں کا صرف سود ہی دور آمریت میں لئے گئے قرضوں سے زیادہ ہے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنرل(ر)مشرف کے دور میں ملکی قرض 39سے41ارب ڈالر تک بڑحا جبکہ نواز اور زرداری کی حکومتوں میں یہ قرض اکتالیس ارب ڈالر سے بڑھ کر 97ارب ڈالر تک جا پہنچا ۔سوال یہ ہے کہ اگر نواز اور زرداری حکومتوں میں کرپشن نہیں ہوئی اور غیر ملکی قرضوں کو کسی ضابطے کے بغیر خرچ نہیں کیاگیا تو پھرعمران خان کی جانب سے اعلان کردہ اعلی اختیاراتی کمیشن پر اپوزیشن کی جانب سے تنقیدی نشتر کیوں برسائے جا رہے ہیں ۔
بحیثیت پاکستانی میں سمجھتا ہوں کہ جس جس نے بھی اپنے مفادات کے لئے اس ملک کی عوام کو قرض دار کیا ہے وہ کسی رعائت کے مستحق نہیں گذشتہ دس برس کا معاشی زائچہ نکال کر دیکھ لیں کیا ٹیکس دائرہ کارکو بڑھایا گیا‘کیا زرمبادلہ کے ذخائر ہمیشہ نازک تریں سطح پر نہیں رہے‘کیا ادارے سیاسی سفارش‘رشوت اور اقرباء پروری کے باعث معاشی بد حالی سے دوچار نہیں رہے اور سیاست میں دولت کا عنصر غالب نہیں رہا یہ وہ عوامل ہوتے ہیں جو ملک کو معاشی بد حالی سے دوچار کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان عوامل کو ٹھیک کئے بغیر نہ یہ ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی معشیت ٹھیک ہو سکتی ہے۔
ملک و قوم کو کن کن ناجائز اختیارات کی آڑ میں لوٹا گیا حکمرانوں کے اثاثے کس طرح دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے اور عوام کیسے ان کے سیاسی ڈھونگ کی بھینٹ چڑھتی رہی یہ بہت المناک کہانی ہے جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتوں کے ادوار کا خلاصہ یہ ہے کہ آج نصف سے زائد آبادی غربت کے دکھ جھیل رہی ہے اور ملک معاشی بد حالی کے نازک دور سے گذر رہا ہے ۔
ایسے حکمرانوں کے منہ سے جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والے بیانات بگل میں چھری اور منہ میں رام رام کے مصداق ہیں۔تضاد تو یہ ہے کہ ایک طرف کارپوریٹ کلچر کے پروردہ سیاستدان عشرت کدوں میں پر لذت زندگی کے شب و روز گذار رہے ہیں جبکہ دوسری طرف عوام اعصاب شکن مہنگائی‘بے روزگاری‘غربت ‘لوڈشیڈنگ‘انصاف کی عدم دستیابی‘رشوت‘سفارش ‘کرپشن جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے۔
فرق صرف پڑا تو اتنا کہ عوامی استحصال کے انداز بدل گئے نت نئے طریقوں سے عوام کے ذہنوں کو تابع کرنے کی کاریگری نے سیاستدانوں کو مضبوط کیا اور عوام کو مسائل کے سپرد کر دیا۔عمران خان نے اپنی سربراہی میں جس اعلی اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے اس میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے‘ٹیکس‘کمپنیزکے ذمہ دار ادارے ایف بی آر کے علاؤہ ایس ای سی پی‘آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل ہوں گے۔
اس کمیشن کے اعلان سے ان سیاستدانوں کی چیخیں صاف سنائی دے رہی ہیں جنہوں نے چارٹڑ آف ڈیمو کریسی کے سائے میں خوب کرپشن کی اکہترسال بعد قوم کو ایسا لیڈر میسر آیا ہے جو سابقہ حکمرانوں سے ملک و ملت کی لوٹی گئی دولت کا حساب مانگ رہا ہے ۔ان دونوں جماعتوں کے ادوار کا جائزہ لے لیں یہ وہی سیاستدان ہیں جو ایک دوسرے پر سر بازار کرپشن و بدعنوانی کے الزامات لگاتے آئے ہیں اور ایکدوسرے کے پیٹ سے قوم کی لوٹی گئی دولت نکالنے کی باتیں اور سڑکوں پر گھسٹینے کی بڑھکیں لگاتے رہے ہیں اور قوم کے جذبات کیساتھ ایکدوسرے کے اقتدار اور مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے میثاق جمہوریت کے نام پر کھلواڑ کرتے رہے آج جب خود احتساب کی زد میں آئے تو پاکدامن اور نیک سیرت بن گئے۔
حکومت کو چاہیے کہ کرپٹ مافیاز سے سعودی ماڈل اپنا کر حساب بے باک کیا جائے یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے قوانین ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن یہ بھی طے ہے کہ اگر ان معاشی مشکل حالات میں جب ہر فرد دل گرفتہ ہے ماورائے آئین اقدامات اٹھا کر کرپٹ افراد سے لوٹی گئی دولت واپس نکلوائی جائے تو قطعا اس سے جمہوری روایات اور جمہوریت کو کوئی خطرہ لا حق نہیں ہوگا۔
اگر ہم معاشی طور پر مستحکم ہونگے تو جمہوریت مضبوط ہو گی ملک میں سرمایہ آئے گا تو صنعت کا پہیہ چلے گا نئے صنعتی زون قائم ہونگے جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ممکن ہو گا۔کرپشن کے خاتمہ کے لئے انفرادی و ادارہ جاتی مئوثر جدوجہد کی اشد ضرورت ہے این آر او کے نام پر کرپٹ افراد کو رعائتیں دے دینا انصاف کے تقاضون کا خون کر دینے کے مترادف ہے۔ملک کی جو موجودہ معاشی صورتحال ہے اس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہو رہا ہے جب تک ہم معاشی استحکام کے ساتھ عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنا کر انہیں قومی داھارے میں نہیں لائیں گے تب تک ہم اس ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتے۔
آج ملک کرپشن و بدعنوانی کے باعث پوری دنیا کی نظر مین تماشا بن کے رہ گیا ہے اس کے ذمہ داروں کے خلاف بے رحم احتساب بہت ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔