اپوزیشن کی مزاحمتی یا مفاہمتی سیاست؟

پیر 24 جون 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

جب سے محترم زرداری کو نیب نے گرفتار اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو گھر میں نظر بند کیا ہے تب سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت ایک دوسرے کے قریب تر ہو چکی ہے ۔ مریم ‘بلاول کی جو جاتی امراء میں ملاقات ہوئی اس کے نتائج تو سب کے سامنے ہیں مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس نے مسلم لیگ ن کو دو بیانیوں میں تقسیم کر کے رکھ دیااس پریس کانفرنس میں مریم نواز نے شہباز شریف کے بیانیے کو رد کرتے ہوئے اپنے والد کے بیانیے کو نہ صرف درست قرار دیا بلکہ حکومت مخالف عوامی جلسوں کے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا۔

مریم نواز کی اس پریس کانفرنس کے بعد ایک عام پارلیمانی رکن بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا جہاں پارٹی صدر کو خاطر میں نہیں لایا جارہا وہاں ہماری کیا اوقات انہی حالات کے پیش نظر مریم نواز کو دوبارہ میڈیا کی کچہری لگانا پڑی اور فرمایا کہ میڈیا نے ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیامطلب اب پارٹی کے سیاسی کارکنان اس مخمصے کا شکار ہیں کہ نواز اور شہباز کے دو الگ الگ بیانیوں میں سے کس بیانیے پر قیادت کیساتھ کھڑے ہوں۔

(جاری ہے)

یہ تو تقریبا سیاسی کارکنان سے لیکر عام آدمی سمجھ چکا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے اس کی دراڑیں اب واضح ہو چکی ہیں ۔پارلیمنٹ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین زرداری اور شہباز نے میثاق معشیت کا جو فارمولا پیش کیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اپوزیشن اب مزید مزاحمت کی متحمل نہیں بلکہ حکومت کے ساتھ مفاہمت چاہتی ہے۔

یہ آزمودہ سیاست دان جان چکے کہ عوام ان کی آواز پر لبیک کہنے والی نہیں ان کی آواز پر وہی سیاسی کارکن باہر نکلیں گے جن کے دل و دماغ کسی سوچ‘نظریے اور ویژن سے ہٹ کر صرف ان کی شخصیت کے اسیر ہیں۔آصف زرداری نے اپنی گرفتاری سے قبل بیان دیا تھا کہ میری گرفتاری کے بعد احتجاجی تحریک کو مریم اور بلاول لیڈ کرینگے اس بیان کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زرداری نے بڑی چالبازی کے ساتھ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اس تحریک سے مائنس کر کے ن لیگ میں باقاعدہ پھوٹ کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ تھی کہ بلاول‘مریم ملاقات میں شہباز اور حمزہ مریم کیساتھ نظر نہیں آئے جس کی بعد ازاں مسلم لیگی رہنما صفائیاں بھی دیتے رہے جس طرح اب مریم نواز اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس پر صفائیاں دے رہے ہیں اور میڈیا کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

مریم اور بلاول کی جو جاتی امراء میں ملاقات ہوئی ہے اس پر سنجیدہ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ یہ ملاقات محض حکومت کے خلاف ایک خانہ پری اور بے مقصد ملاقات تھی نواز‘زرداری اور فریال کی بڑی گرفتاریوں کے بعد حالات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اب مزید آنیوالے دنوں میں گرفتاریاں ہونے جا رہی ہیں اور اپوزیشن اس لئے مفاہمت کے لئے ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے تا کہ ان کا سیاسی مستقبل مخدوش ہو کر نہ رہ جائے۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے آصف زرداری کے سامنے نواز شریف کا حاصل ہے نواز شریف کی سیاست صرف بیانیوں کے مرہون منت ہو کر رہ گئی اپوزیشن کے پاس حکومت کیخلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے کوئی ایشو نہیں اسی لئے زرداری چاہتے ہیں کہ حکومت کیساتھ کسی نہ کسی طرح مفاہمت کا کوئی طریقہ کار طے پا جائے جس سے پارٹی اور ان کی سیاست کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔

نواز اور زرداری کو جو اس وقت سب سے بڑی فکر لاحق ہے وہ یہ کہ اگر کرپشن‘منی لانڈرنگ چارجز میں انہیں سزا ہو گئی اور سیاست سے بیدخل ہو گئے تو ان کی پارٹیوں میں سے موروثی سیاست کے خاتمے کی ابتدا ہو جائے گی اور ان کے خاندانی سیاست کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا۔نئی حکومت کے قیام کو ابھی دس ماہ کا عرصہ ہوا ہے اور اس عرصہ میں حکومت کی یہی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جائے تا کہ یہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکے اور معاشی استحکام کے لئے حکومت کی کوششیں نظر بھی آرہی ہیں جبکہ اپوزیشن صرف اور صرف اپنے آپ کو مزید گرفتاریوں‘آزمائش سے بچانے کے لئے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو تقویت دے رہی ہے ۔

یہ طے ہے کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام قائم نہ ہوا تو یہ ملک مزید چیلنجز کا شکار ہو جائے گا اور حکومت کی جانب سے ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات بھی غیر مئوثر ہوں گے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کو سیاسی و معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور عوام مہنگائی کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے لیکن عوام اپوزیشن کی جانب سے ملک میں عدم استحکام لانے جیسی طرز سیاست سے بھی بیزار نظر آرہی ہے ۔

اپوزیشن کی سابقہ طرز حکمرانی کا حاصل بھی عوام کے سامنے ہے عوام کی حالت دگرگوں ہی رہی ترقی و خوشحالی کے دعویدار حکمرانوں کی حکمرانی کا یہ عالم رہا کہ آج اس ملک کا ہر فرد سوا لا کھ کا مقروض ہے مجھ سمیت بائیس کروڑ عوام درپیش مسائل کا حل چاہتی ہے ۔اپوزیشن کے دل میں اگر مسائل میں گھرے ملک و ملت کا اتنا ہی درد سمایا ہوا ہے تو اس کی معشیت کو ٹھیک کرنے اور عوام کو مسائل سے چھٹکارہ دلانے کے لئے حکومت کیساتھ کھڑی ہو کر مہذب ہونے کا ثبوت دے یہ سیاسی ڈگڈگی تماشا اب بند ہونا چاہیے عوام کو اپنے مسائل کا حل چاہیے چالیس سال سے جو سیاستدان اس عوام کی تقدیر نہ بدل سکے حیرت ہے وہ اب بھی مزید موقع لینے کے خواہش مند ہیں ۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے ادوار میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے احتساب کا ڈرامہ رچایا اب اگر ملک میں بلا تفریق احتساب شروع ہوا ہے اور ادارے آزادانہ طور پر اپنا کام کر رہے ہیں تو واویلا شروع ہو گیا اس سے ظاہرہو رہا ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ نظام کو اس حد تک مفلوج کر دیا جائے کہ مٹی پاؤ پروگرام کو مکمل کیا جائے ۔ اپوزیشن اتحاد مزاحمتی ہے یا مفاہمتی اس کا پردہ تو پارلیمنٹ میں میثاق معشیت کے مطالبہ نے چاک کر دیااپوزیشن کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح حکومت کو بلیک میل یا دباؤ کے ذریعے مفاہمت پر راضی کرلیا جائے۔

حکومت فی الحال کرپٹ افراد کو ریلیف دینے پر رضامند نظر نہیں آرہی نواز‘زرداری کا ستارہ گردش میں ہے ان دونوں کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اور مزید کیا حکومت کرپٹ افراد سے ملک و ملت کی لوٹی گئی دولت واپس لینے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آنیوالا وقت کریگااس لئے پانچ سال کے لئے منتخب ہونے والی حکومت کو وقت دینا چاہیے دس ماہ کی کارکردگی کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کر لینا درست نہیں کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :