احتیاط علاج سے بہتر ہے!

منگل 6 اپریل 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

گذشتہ سال نومبر2020ء میں عالمی ادارہ صحت کے کورونا کے معاملے پرخصوصی نمائندے ڈیوڈ نبارو نے خبرادار کیا تھا کہ اگر حکومتوں کے کرونا کی دوسری لہر کو قابو کرنے کے اقدامات ناکام رہے تو سال 2021ء کے آغاز میں یورپ کو تیسری لہر کا سامنا ہوگا۔کورونا کی پہلی لہر جب گذری تو جون اور جولائی کے مہینوں میں کورونا کیسز کی تعداد میں بتدریج واضح کمی آئی اور اور بہت کم مریض وینٹی لیٹر پر تھے جب کہ ہمسایہ ملک بھارت میں سینکڑوں کی تعداد میں اموات واقع ہو رہی تھی۔

پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر اکتوبر2020ء میں شروع ہوئی تو ملک میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں کورونا کے پازیٹو کیسز رپورٹ ہوئے اور اس وبا کے ہاتھوں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں جن میں کئی نامور ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

ابھی کورونا کی ویکسین دنیا کی مارکیٹ میں آئی ہے اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں اس کی باقاعدہ ویکسی نیشن کا آغاز بھی کر دیا گیا اسی دوران برطانیہ میں کورونا وائرس کی ایک نئی قسم نے خطرناک انگڑائی لی ہے جس کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی یہ تیسری لہر اتنی خطرناک ہے کہ اس سے انفیکشن بہت جلد پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور مریض علاج سے قبل ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

کورونا کی تیسری لہر نے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی اپنے قدم جمانا شروع کر دئیے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کورونا کی اس تیسری لہر سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر پر عمل کو یقینی بنایا جائے ْ۔حکومت کی جانب سے بار بار اس بات کی عوام کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تیسری لہر خطرناک ہے اور دن بدن صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے ہسپتالوں میں کرونا متاثرین مریضوں کی تعداد میں اضافہ کے باعث جگہ کم پڑتی جا رہی ہے اگر ہماری بے احتیاطی کے باعث کرونا متاثرین کے مریضوں میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ صورتحال خطرناک حدوں کو چھو جائے گی۔

اس لئے جہاں حکومت کی جانب سے اس وبا کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات کرنا ناگزیر ہو چکے ہیں وہیں بحیثیت قوم ہمیں بھی حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے دی گئی احتیاطی تدابیر اور اقدامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وبا اس وقت کرہ ارض پر آباد انسانی حیات کو لقمہ اجل بنانے کے لئے اپنے پھن پھیلا چکی ہے کرونا کی اس تیسری لہر نے پوری دنیا کو تشویشناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

حکومت اوروزارت صحت اس وبا کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں لیکن ہمیں بھی چاہئیے حکومت اور وزارت صحت کی جانب سے اٹھائے جانیوالے اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں ۔اس وبا کی ویکسین کی ایجاد کے بعد بڑی تیزی کیساتھ دنیا کے ممالک اس وبا کی مزید پیش رفت کو روکنے کے لئے ویکسین کی خرید و فروخت کے معاہدے کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ ویکسی نیشن اس بات کی ضمانت نہیں کہ ہم پوری طرح اس وائرس سے محفوظ ہو چکے ہیں ویکسی نیشن سے بڑی حد تک بیماری کے خلاف مدافعت ضرور پیدا ہو جاتی ہے اس لئے کرونا ویکسین کے اثرات اور کارکردگی تحقیق طلب ہے کیونکہ دنیا میں کئی کیسز ایسے بھی سامنے آنے کی اطلاعات ہیں کہ کرونا وبا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کروانے کے باوجودبعض افراد پر کرونا حملہ آور ہوا ہے ۔

مجموعی طور پر طبی ماہرین کی پہلی رائے یہی ہے کہ ویکسی نیشن کروانے کے باوجود احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ابھی پاکستان میں ویکسی نیشن کا عمل شروع ہوا ہے اور جن لوگوں نے ویکسی نیشن کے لئے آن لائن رجسٹریشن کروائی ہے ابھی تک وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں ویکسی نیشن لگوانے کے لئے کب مطلع کیا جا ئے گا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو صرف اس انتظار میں ہیں کہ وہ اس خطرناک وائرس سے بچاؤ کے لئے ویکسی نیشن کروائیں ۔

دوسری جانب صورتحال پر نظر دوڑائیں تو حالات کی نزاکت اس نہج کو چھوتی نظر آتی ہے کہ عوامی مقامات‘بازاروں‘تفریح گاہوں میں رش کے باوجود لوگوں کی اکثریت ماسک تک استعمال نہیں کر رہی اور نہ ہی سماجی فاصلہ کو برقرار رکھا جا رہا ہے ملک گیر حالات کا جائزہ لے لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کرونا وبا کا خاتمہ ہو چکا ہے اور کسی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا جا رہاخدا را عوام اپنے حال پر رحم کرے پہلے ہی ملک میں ہوا میں نمی کا تناسب انتہائی کم ہونے کے باعث گلے کا خشک ہونا‘ناک‘کان سے خون بہنا‘سانس کا رکنا اور ہونٹوں کا خشک ہونا جیسے امراض میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور جس کے باعث بچوں‘جوان اور بوڑھوں کی قوت مدافعت میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے ۔

اگر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے میں عوام مزید تاخیری حربے استعمال کرتی رہی تو حالات کی سنگینی کو سنبھالا دینا مشکل ہو جائے گا ۔اخبارات اور چینلز پر خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ ماسک نہ پہننے پر اتنے مقدمات درج ہوئے حالانکہ یہ بہت غلط رجحان ہے جرمانہ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو غلطی کا احساس ہو اور آئندہ کے لئے سختی کے ساتھ انہیں پابند کیا جائے نا کہ رقومات جمع کرنے کے لئے سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے۔

عوام کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ احتیاط میں کچھ خرچ نہیں ہوتا احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے اپنی قیمتی جان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کرونا کے پھیلاؤ کو اسی صورت روکا جا سکتا ہے جب عوام چوکنا ہو کر ہر جگہ اور ہر پل خاص کر عوامی مقامات پر جسمانی فاصلہ اورماسک کا استعمال خود پر لازم کر لیں گے۔پہلے ہی ملک میں کرونا کی پہلی لہر نے جس طرح معاشرے کے ہر شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے ابھی تک ملکی معشیعت اور عام آدمی کے معمولات زندگی درست نہیں ہو پائے اب کرونا کی تیسری لہر نے اس ملک عزیز میں اپنے قدم جمانا شروع کر دئیے ہیں متعدد شہر بند ہو گئے پبلک ٹرانپورٹ پر کئی شہروں میں قدغن لگ چکا ہے ملکی معشیت ایک بار پھر گراوٹ کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے جو کہ ملکی استحکام کے لئے خطرناک دستک ہے۔

اگر ہم نے احتیاطی تدابیر کو پس پشت ڈال دیا تو پھر ملک میں مکمل لاک ڈاؤن ناگزیر ہو جائے گا اور ایسے سنگین حالات کا سامنا کرنے کے لئے عوام اور حکومت متحمل نہیں ہے اس لئے ہر فرد کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے فکر مندی کے ساتھ کرونا ایس او پیز پر عمل کرنا ہو گا اور اسی کے ذریعے اس وبا سے بچا جا سکتا ہے ویکسی نیشن اس بات کی مکمل ضمانت فراہم نہیں کرتی کہ آپ کرونا وائرس سے محفوظ رہ سکتے ہیں اس لئے احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :