غربت مہنگائی اورٹیکسیز کا بوجھ

پیر 13 جنوری 2020

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

عوام کی امیدوں کا دھرن تختہ کا سفر جاری ہے یہی ووٹ دینے کا صلہ ہے تو الیکشن کروانے کی کیا ضرورت تھی اربوں کے اخراجات الیکشن پرہر بار کیے جاتے ہیں مگر الیکشن کے دوران بلند بانگ دعووٴں وعووں کو پورا نہ کرنے کی روایات بر قرار عوام کی ہر صبح مہنگائی کا پیغام کے ساتھ ہوتی ہے یہ لوگ آس امیدوں کے ساتھ جمہورت کا منہ تکتے سوچتے اور مشکلات مسائل کی دلدل میں دھنستے مرتے جیتے آ رہے ہیں غربت مہنگائی نے کمسن بچوں کو مزدوری کرنے سردی میں گرما گرم انڈے فروخت کرنے پر بھی مجبور کر رکھا ہے اور تعلیم بھی ان کے مستقبل سے چھینی جا سکی ہے یہ لوگ مالی مجبوریوں کے باعث بیماریوں سے سسک سسک کر گھروں میں ہی دم توڑ تے اور دکھوں ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں ہم کب خوشحال ہوں گے کب طاقت ور طبقہ کے پنچوں سے چھٹکارہ ملے گاپون صدی قبل ہمیں آزادی مل گئی بظاہر ہم آزادمگر طاقتورہمارااستحصال کرتے آرہے ہیں ان لوگوں کی کرپشن لوٹ مار نے ہمیں بنیادی سہولتو ں سے بھی محروم کر رکھا ہے ہر حکومت عوام کو تسلیاں دیتی آ ئی ہے لگائے جانے والے ٹیکسزسے عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا یہ ایساسوال ہے جس کا جواب ہر دور حکومت میں عوام کو مہنگائی میں ملتا آ رہا ہے اورہمیشہ جھوٹی تسلیاں حکمران دیتے آ رہے ہیں تما م ٹیکسز کا بوجھ تو صارفین ہی برداشت کرتے آرہے ہیں غور کریں جب کوئی بھی صارف میڈیکل سٹور سے میڈیشن خریدتا ہے اس میڈیشن کے سالٹ کے تاجرفیکٹری اسٹاکسٹ اور میڈیکل سٹورسمیت تمام ٹیکسز ان کے اخراجات ڈال کر یہ میڈیشن صارف کو پر چیز کرنی پڑتی ہے ایک ماچس سے لیکر اشیائے خوردونوش مشروبات اشیائے ضروریہ علاج ومعالج لیبارٹری ٹیسٹ تعلیم ٹرانسپورٹ مکانوں کے کرایہ جات بجلی گیس پانی کے بلوں اجناس خوردنی پر اوپر سے لیکر نیچے تک لگائے جانے والے تمام ٹیکسز جن میں انکم ٹیکس سیل ٹیکس درآمدی ٹیکسز ویلتھ ٹیکسز ٹی وی ٹیکسز سمیت دیگر ٹیکسز کا بوجھ امیر اور عام طبقہ کے صارفین کو ہی برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس کے بر عکس فیکٹری مالگان اسٹاکسٹ در آمد کندان تاجر کمشن شاپ آڑ ھتی زمیندار ہی ٹیکس گزار ہونے کا دعوے کرتے ہیں اور کہتے آ رہے ہیں ہم ہی ٹیکس دیتے ہیں ٹیکس گزار ہونے کی حکومت کی طرف سے دی جانے والی سہولتیں بھی لیتے آ رہے ہیں مگر اصل میں ٹیکسز کا بوجھ صارفین ہی برداشت کرتے آ رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی آ بادی کی کثرت متوسط اور غریب عوام پر مشتمل ہے ان ٹیکسز کا بوجھ ان پر کمر توڑ مہنگائی کے طور پر پڑتا آ رہا ہے حکمرانوں کاہر دور حکومت میں یہ کہنا درست نہیں ہے لگائے جانے والے ٹیکسز کا بوجھ عام طبقہ پر نہیں پڑے گا بے چارہ صارف ہی مشکلات کی دلدل میں پھنس کر اپنی بمشکل گزراوقات کرتا اور اپنے کمسن بچوں سے محنت مزدوری کرانے پر مجبور ہیں علاج معالج تعلیم جیسی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ان کا معیار زندگی کو بھی دیکھیں تو کھاتے پیتے لوگ کم از کم یہ سوچیں ان کو تما م ٹیکسز برداشت کرنے کے باوجود مایوسیوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اس مہنگائی نے ان کے بچوں کے منہ سے ایسی نعمتوں کے ذائقے بھی چھین لئے ہیں جو ان کی زندگی کیلئے انتہائی ضروری تھے ایوب دور حکومت میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پانچ پانچ کلو وزن کے خشک دودھ کے ڈبے طالب علموں میں تقسیم ہر ماہ کئے جاتے تھے اس کے ساتھ ہر روز ہر کلاس میں خشک دودھ کو پانی میں مکس کر کے نیم گرم دودھ کا کلاس ہر طالب علم کو پلایا جانا معمول تھا تا نئی نسل کو اس کی ضرورت کے مطابق دودھ مل سکے اور چیچک کی ویکسین بھی لگانے کا اہتمام تھا مگر آج ہماری نسل نو کی اکثرت ان سہولتوں سے محروم کیوں یہ نعمتیں ان کی صحت کیلئے انتہائی ضروری بھی ہیں مگر کسی بھی حکومت نے نئی نسل کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا چائلڈ بیورو تو قائم کر دئے گئے ان کی کارگردگی بھی اعدادو شمار پر مشتمل ہے سب اچھا کی رٹ لگاکر فائلوں کاپیٹ دیگر محکموں کی طرح بھرنے کی روایت قائم ہے سوچنے کی بات یہ ہے حکمران اور اپوزیشن نے کسی بھی دور حکومت یہ نہیں سوچا ہمارے بچوں کو تو تما م سہولتیں میسر ہیں مگر عام طبقہ کے بچے سہولتوں سے محرومی کا شکار چلے آ رہے ہیں جب کہ حکومت کو چلانے میں جو بھی قومی خزانہ سے خرچ ہوتا ہے یہ ٹیکسز کی مد سے چلتا ہے عام صارفین کا بھی حصہ ہے جس سے ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں ان کی سوچ ایسی ہونی چاہیے کم از کم عام طبقہ کے بچوں کی ضرورت کے مطابق ان نعمتوں کی مفت فراہمی کی پالیسی اپنائیں تاکہ نئی نسل صحت مند ہو کر بڑی ہو سکے ان کیلئے دودھ کیڈ تو انتہائی ضرورت ہے ایسے ہی اشیائے ضروریہ سمیت بجلی گیس کے بلوں کو بھی کنٹرول کیا جائے علاج معالج کی بر وقت اور مفت سہولتیں کی فراہمی بھی حکومت کا فرض اولین ہونا چاہیے ماضی کی روایات سے ہٹ کر عام طبقہ کی جانب توجہ دینا وقت کی ضرورت بھی ہے اور وعدوں کی تکمیل بھی ہے اور ٹیکسز کا بوجھ برداشت کرنے والوں کو بھی صلہ ملنا چاہیے یہ ہی تبدیلی ہوگی اگر اب بھی ان کو نظر انداز کیا گیا یہ ان صارفین کا استحصال کے مترادف ہو گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :