حساب دینا ہوگا

منگل 19 مئی 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

حکومت نے عوام کی معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں انتہائی درجے کی نرمی اور ردو بدل کر دیا ہے مگر ماہرین کے بقول کروناوائرس ختم نہیں ہوا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ کرونا حملوں کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے اور اموت بھی بڑھ رہی ہیں لیکن حکومتی مشینری کاکہنا ہے کہ ایسے حالات متوقع تھے اس لیے زیادہ پریشانی نہیں ہے اگر اس شدت میں اضافہ ہوا تو دوبارہ لاک ڈاؤن پالیسی کو اپنانا ہوگا کیونکہ حکومت مزید پیسے نہیں دے سکتی اور نہ ہی حفاظت کر سکتی ہے چونکہ ”بھوک “ کا وائرس” کرونا“ وائرس سے زیادہ خطرنا ک ثابت ہورہا ہے اور یقینا ایک تہائی آبادی بھوک و ننگ کا شکار ہو جائے گی۔


 یہی بات جب ہم کہہ رہے تھے اسوقت اموات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں تو مکالمے اور اٹلی کی مثال دی جاتی تھیں اور اب جبکہ درجنوں اموات ریکارڈ کی جارہی ہیں تو الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے بلاشبہ تبدیلی سرکار کے سقراط و بقراط کی حکمت عملیاں وہ ٹیڑھی کھیر ہیں جو کسی سے نہیں کھائی جائے گی تبھی تواکثر دانشوران کہتے ہیں کہ” شامت ِاعمال ماصورتِ نادر گرفت “یعنی ہماری طرف سے ہی کوئی غلطی ہوئی ہے جو ایسے غیر ذمہ دار حکمران مسلط ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)

خان صاحب کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کروایا تھا مگر حاکم تو آپ ہیں تو ایسے میں دور اندیشی سے کام کیوں نہیں لیا گیا ؟ ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ”تو کی جانے یار امیرا روٹی بندہ کھا جاندی اے “ بھوک اور بیماری کے درمیان غریب پس رہا ہے حکومتی اقدامات اور ہسپتالوں میں مریضوں کی حالت زار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ اب تو متوسط طبقہ بھی پریشان حال ہے کیونکہ جس نے جو بچایا تھا وہ لگ چکا ہے بوجہ کمر توڑ مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں رمضان المبارک میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے مگر اس سلسلے میں کوئی ایکشن نہیں لیا گیا بلکہ کسی بھی قسم کا ایسا اعلان بھی نہیں کیا گیاکہ ٹیکسوں کی مد میں کی جانے والی کٹوتی کو ختم کیا جائے گا الغرض حکومتی ریلیف نہ ہونے کا برابر ہے اور وہ لوگ جو کل تک ملک کو کامیابی کی راہ پر دوڑانے کے طریقے بتاتے تھے انھوں نے تو ایسے ہولناک حالات کا نقشہ کھینچا ہے کہ دل دہل گئے ہیں اسد عمر نے پریس کانفرنس میں خبردار کیا کہ سات کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے اور دس لاکھ ادارے بند ہو جائیں گے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمیشہ اداروں کو بند کرنے کی بات کیوں کی جاتی ہے وہ بہترین ٹیم کہاں ہے جو چاند پر گھر تعمیر کرنے والی تھی۔

ہمیں سبز باغ دکھا کر تبدیلی کا لالی پاپ تھما کر سبھی خود کرسی کرسی کھیل رہے ہیں۔ہمارا وہ حال ہے آگے کنواں پیچھے کھائی کہ کرونا سے بچ بھی گئے تو معاشی حالات اور بیانیے ہمیں مارنے کے لیے کافی ہیں ۔
کراچی میں ڈاکٹر فرقان الحق کی سڑک پر اور لاہور میں باریش بزرگ کی باتھ روم میں المناک ا موات ہسپتالوں کی حالت زار سمجھنے کے لیے کافی ہیں ۔

ڈاکٹر فرقان تو پیشے سے ایک ڈاکٹر تھے پھر بھی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں اچھوتوں کی طرح گھمایا گیا مگر کسی نے انھیں بیڈ نہ دیا بلکہ وینٹی لیٹر ہوتے ہوئے بھی انھیں سہولت فراہم نہ کرنے کی بنا پر وہ اکھڑتی سانسوں سے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ایسا سفاکانہ اور بے رحمانہ سلوک ہر کس و نا کس کے ساتھ ہو رہا ہے ڈاکٹر صاحب کا معاملہ سوشل میڈیا پر آگیا تو انکوائری رپورٹ دکھا کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا ۔

۔
 ہمارے ہاں بعض اوقات چیف جسٹس ایک شراب کی بوتل کو شراب ثابت نہیں کر سکتا مگر ایک عام پولیس والا بسا اوقات بے گناہ پر چرس ثابت کر دیتا ہے اور سزا بھی ہو جاتی ہے ایسے المناک واقعات اب معمول بن چکے ہیں میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف دوسرے مہلک امراض سے متاثرہ مریضوں کو عمومی طور پر اٹینڈ ہی نہیں کرتے اور کہا جاتا ہے کہ کرونا کیوجہ سے لوگ اپنی بیماریاں بھول گئے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ عام بیماروں کو کرونا مریض بنا کر اسکے گھر والوں کے ساتھ قرنطینہ بھیج دیا جاتا ہے اگر وہ صاحب استطاعت ہو تو چند دن بعد منفی ٹیسٹ آنے پر واپس گھر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو کس نے تلقین کی تھی کہ دوسری مہلک بیماریوں کے جن سے مرنے والوں کی تعداد دو گنا ہے ان مریضوں کو بے یارو مددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیں ۔۔؟ کس کس کا رونا روئیں کہ جدھر جائیں لوگ سراپا احتجاج ہیں اور ہم سب اچھا ہے کہ نعرے پیٹ رہے ہیں جبکہ کابینہ رہنماؤں کی آنیاں اور جانیاں ہی بس نظر آتی ہیں اور کچھ نظر نہیں آتا بلکہ جو جاتا ہے اس پر کرپشن اور نا اہلی کا الزام لگایا جاتا ہے مگر چند ماہ بعد وہ کسی اور عہدے پر براجمان دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اہل وطن حیران ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ وبائی دنوں میں ریلیف نہ دینا، ٹیکسوں کی مد میں کٹوتی جاری رہنا ، ترقیاتی منصوبوں پر ایک پائی بھی خرچ نہ کرنا اور حکومتی مشیران کا با بانگ دہل بیروزگاری کا عندیہ دینا تبدیلی سرکار کے لیے لمحہ فکریہ ہے حالانکہ قرضوں کی ادائیگیوں پر تاخیر کی سہولت بھی میسر آچکی ہے اور مختلف اور مدعات میں ملکی اور غیر ملکی اطراف سے وافر مقدار سے فنڈز بھی اکٹھے ہو چکے ہیں تو ایسی صورت میں سابقہ رکے ہوئے اور نئے ترقیاتی کام شروع نہ کرنا ملک و ملت کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے ویسے بھی ریاست مدینہ بنانی ہے تو یاد رکھیں کہ اسلام کا مسلم حکمرانوں سے یہ تقاضا ہے کہ اقتدار کو خدا کی امانت سمجھیں اور اس یقین کے ساتھ اسے استعمال کریں کہ اس امانت کا پورا حساب خدا کو دینا ہوگا۔

بہر کیف حکومت نے کاروباری مراکز کو کھول کر کچھ برا نہیں کیا لیکن اگر انھی مراکز کے اوقات صبح تا رات 8 بجے تک مقرر کیے جاتے تو اس سے بازاروں اور ماریکٹس میں آمدو رفت کا دورانیہ بڑھنے کیوجہ سے رش کم ہوتا اور یقینی طور پر عوام اپنی معاشی حالت کو بھی بہتر کر لیتے اور افرا تفری بھی کنٹرول ہو جاتی ورنہ اب کے بھی ایسا ہی ہوگا کہ 5 بجے کے بعد کئی کاروباری حضرات رات گئے تک چور دروازوں سے کاروبار جاری رکھیں گے جس سے کاروباری طبقے میں سماجی نا ہمواری اور رقابت کی فضا پیدا ہوگی ۔

ہاں ۔۔مگر اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چاند ی ضرور بنی رہے گی جیسا کہ پہلے ہی شٹر ڈاؤن خریداری کرنے والوں نے بازاروں کو گرمارکھا ہے لیکن اب جبکہ معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں تو محتاط رہیں اورا زخود اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :