قوم کس کے بیانیے پر اعتبار کرے !

اتوار 15 نومبر 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی یقینی شکست کو دیکھ کر بعض پاکستانی صحافیوں کی باچھیں ایسے کھل رہی ہیں جیسے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے منتخب ہونے سے امریکی پالیسی بدل جائے گی یا جوبائیڈن ہمارا بہت سگاہے حالانکہ جوبائیڈن دو مرتبہ ماضی میں نائب صدر کے عہدے پرفائز رہ چکا ہے اور اسکی ترجیحات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں گو کہ جو بائیڈن نے اپنی الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کے لیے کوئی نا پسندیدہ بیان نہیں دیا مگر ممکنہ جیت دیکھ کر اس نے جو کہہ دیاہے وہی سچ ہے کہ ”ہم نے وہ کرنا ہے جو ایک امریکی ہونے کے ناطے ہمیں کرنا چاہیے“ یہ طے ہے کوئی بھی آئے وہ امریکی پالیسی کے مطابق ہی چلے گا البتہ جو بائیڈن کا یہ بیان دوراندیش پاکستانی سیاستدانوں کے لیے ہے کہ ”مخالف سوچ رکھنے والوں سے دشمنوں جیسا برتاؤ روکنا ہوگا ‘مگر قانون کے مطابق کاروائی جس سے انصاف ہوتادکھائی دے کرنا ہوگی “جو بھی ہومگر جو بائیڈن کی فتح امت مسلمہ کے لیے کسی خوشی کا پیغام نہیں ہوسکتی بلکہ مشکلات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ڈیموکریٹ باراک اوبامہ کے ادوار میں ہی ”ڈومور“ کا تقاضا کرتے ہوئے پاکستان میں جارحانہ کاروائیاں کی گئیں لہذا ٹرمپ کے منتخب ہونے پر میں نے لکھا تھا کہ شراب اور شباب کا شوقین تھا اور ایسے لوگ تلوار کم اٹھاتے ہیں بلکہ وقت پاس کرتے ہیں جبکہ جوبائیڈن مستقل مزاج اور امریکہ نواز سیاستدان ہے یہ لوگ ایسے انتہا پسند ہوتے ہیں جو کہتے نہیں بلکہ کردکھاتے ہیں گویا پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی بہتر اور سنجیدہ کرنا ہوگی اور مسلم ممالک کے اتحاد کا حمایتی رہناہوگا ورنہ پاکستان کا نام پہلے ہی گرے لسٹ میں شامل ہے باقی رہی بات امریکی کیا چاہتے ہیں اورٹرمپ کا دھاندلی کا الزام ” توتجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توں “ ہم خود ایسے گوناں گوں مسائل کا شکار ہیں اور” دھاندلی واویلا ‘ سیاسی کاریگروں کا تکیہ کلام بن چکا ہے لیکن پیش نظر رہے کہ مغربی عوام پارٹیوں کو نہیں منشور کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ شعور رکھتے ہیں شور اور شعور کے درمیان ایک عین کا فرق ہے ہمارے ہاں شور ہی عین عروج پرہے یہی وجہ ہے کہ جو دانشور کہلاتے ہیں وہ بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں مگر حتمی طور پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور آنے والا سورج کہاں طلوع ہو گا بد قسمتی کے ساتھ کچھ اچھا تو نظر نہیں آتا البتہ ہر روزایسے واقعات دیکھنے اور پڑھنے میں آتے ہیں جنھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے
 گندم اور گنے کی جائز قیمتوں پر احتجاج کرنے والا کسان پولیس ایکشن کے دوران زخمی ہونے کے بعد اس دار فانی کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گیا جس پرکہا گیاکہ تحقیقات کروائی جا رہی ہیں لہذا قبل از وقت قیاس آرائیوں سے پرہیز کریں مرنے والا مر گیا اور ہماری تحقیقات اور انصاف کسی سے چھپا ہوا نہیں کہ سانحہ ساہیوال ہو،سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا کوئی اورتو ہماری تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں یہاں بھی کسانوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کسی طور بھی مناسب نہیں تھا مگر بحکم سرکار تھا کہ” چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا جائے “میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ،تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے “کبھی کبھی گماں گزرتا ہے کہ ہم ایسے جنگل میں رہتے ہیں جہاں کوئی قانون نہیں اگر ہے تو اُسکی پاسداری نہیں کہ اپنی اپنی ڈفلی اپنے اپنے راگ ہیں پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں جبکہ زندہ قومیں اپنے آئین و اقدارکی پاسدار ہوتی ہیں اور کوئی قانون سے بالا تر نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں غصہ اور قانون زیادہ سیانے ہیں کمزور کو دبا دیتے ہیں اور طاقتور سے دب جاتے ہیں جیسا کہ ن لیگ بیانئے پر سوالیہ نشان ہونے کے باوجوداس کا سیاسی منظر نامے پر چھا جانا بھی سوالیہ نشان ہے لیکن دیگر سوالوں کی طرح اس کا جواب بھی نہیں مل رہاویسے عوام کو ملک مخالف بیانیوں سے کوئی خاص مطلب بھی نہیں انھیں بس روٹی سے مطلب ہے جو کہ فی الحال چھن چکی ہے اسلیے وہ مسیحا کی تلاش میں ہیں جوزف سٹالن نے ٹھیک کہا تھا! ایک دن اسٹالن اپنے ساتھ پارلیمینٹ میں ایک مرغا لایا اور سب کے سامنے ایک ایک کر کے اس کے پر نوچنے لگا ،مرغا درد سے بلبلاتا رہا مگر ایک ایک کر کے اسٹالن نے اس کے سارے پر نوچ ڈالے پھر مرغے کو فرش پر پھینک دیا ،جیب سے دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور چلنے لگا ، مرغا دانہ کھاتا ہوا اسٹالن کے پیچھے چلنے لگا اسٹالن دانہ پھینکتا رہا اور مرغا کھاتا ہوا پیچھے چلتا رہا ، اس نے اپنے کامریڈ کی طرف دیکھا اور کہا :”جمہوری سرمایہ دارانہ ریاستوں کے عوام اس مرغے کی طرح ہوتے ہیں ان کے حکمران عوام کا سب لوٹ کر پہلے انہیں اپاہج بنا دیتے ہیں بعد میں معمولی سی خوراک دیکر مسیحا بن جاتے ہیں“سچ پوچھیں تو ہماری موجودہ پستی ،جمود ،بے ضمیری ،اور عدم ثبات کیوجہ یہی ہے کہ ہم ذہناً ، طبعاً اور اخلاقاً محکوم اور بے مروت ہوگئے ہیں بایں وجہ ہماری اولادیں بھی اسی سانچے میں ڈھلتی جا رہی ہیں تبھی ہم اپنی لاشیں اٹھاتے رہتے ہیں کبھی بھوک اور کبھی اندھی گولی کا شکار ہو کر ۔

(جاری ہے)

۔ جانتے ہو بڑا دکھ کیا ہے کہ خلافت راشدہ کی بات کرنے والا ، ریاست مدینہ بنانے کا عزم رکھنے والا، سو دنوں میں نیا پاکستان بنا کر ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلا ن کرنے والاکسی احتجاج میں لوگوں کے دکھ درد بانٹتا نظر نہیں آتا بلکہ ایک ٹویٹ کرنے کی بھی فرصت نہیں ملتی جبکہ گڈ گورننس کا فقدان کسی سے چھپا ہوا نہیں گو بڑا زعم تھا نوجوانان ملت کو کہ انھوں نے ریت سے ہیرا چھانٹا ہے لیکن اب ٹک ٹاک پر آڑھے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں جبکہ ایسی سچائیوں سے کسی کو کوئی مطلب نہیں یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے سیاسی منظر نامے پر چھانے کے بعد توقعات کے بالکل برعکس تبدیلی سرکار نے عوامی ریلیف کے لیے کوئی خاص حکمت عملی ترتیب نہیں دی البتہ وزیر اطلاعات کی ادلا بدلی کی جاچکی ہے سسٹم کا اندازہ آپ خود کر لیں کہ جسے مبینہ کرپشن کے الزام میں برطرف کیا جاتا ہے اسے چند ماہ بعد زیادہ مراعات کے ساتھ اہم عہدے پرتعینات کر دیا جاتا ہے ہمیں اب اس با بانگ دہل دعوے کی سمجھ آئی ہے ”میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑونگا “تبدیلی سرکار کی چھتری تلے سبھی کو امان ہے بایں وجہ چوہدری برادران اتحادی ہو کر بھی جداگانہ رائے رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ بارہا دیکھنے کو ملتا ہے دیگر کا بھی یہی وطیرہ ہے بلکہ وقت ثابت کرے گا کہ سیاسی موقع پرست کسی کے نہیں ہوتے جبکہ تبدیلی سرکار لفاظی کو کام سمجھتی ہے حالانکہ ان گھسے پٹے بیانیوں سے اب تعفن اٹھ رہا ہے کون سمجھائے کہ چائے کے کپ میں خالی چمچ چلانے سے چائے میٹھی نہیں ہوتی مانا کہ خان صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فرشتے کہاں سے لاؤں انھی پر گزارا کرنا پڑے گا لیکن یہ بھی تو کہا تھا کہ اگر لیڈر ایماندار ہو تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے اور اگر نہ ہو ہو تو سب بگڑجاتا ہے ہم کب تک بیانیوں پر گزارا کریں گے کیونکہ دیکھا دیکھی ہر کوئی نئے سے نیا بیانیہ لا رہا ہے توتو قوم کس کے بیانیے پر اعتبار کرے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :