
قوم کس کے بیانیے پر اعتبار کرے !
اتوار 15 نومبر 2020

رقیہ غزل
گندم اور گنے کی جائز قیمتوں پر احتجاج کرنے والا کسان پولیس ایکشن کے دوران زخمی ہونے کے بعد اس دار فانی کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گیا جس پرکہا گیاکہ تحقیقات کروائی جا رہی ہیں لہذا قبل از وقت قیاس آرائیوں سے پرہیز کریں مرنے والا مر گیا اور ہماری تحقیقات اور انصاف کسی سے چھپا ہوا نہیں کہ سانحہ ساہیوال ہو،سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا کوئی اورتو ہماری تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں یہاں بھی کسانوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کسی طور بھی مناسب نہیں تھا مگر بحکم سرکار تھا کہ” چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا جائے “میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ،تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے “کبھی کبھی گماں گزرتا ہے کہ ہم ایسے جنگل میں رہتے ہیں جہاں کوئی قانون نہیں اگر ہے تو اُسکی پاسداری نہیں کہ اپنی اپنی ڈفلی اپنے اپنے راگ ہیں پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں جبکہ زندہ قومیں اپنے آئین و اقدارکی پاسدار ہوتی ہیں اور کوئی قانون سے بالا تر نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں غصہ اور قانون زیادہ سیانے ہیں کمزور کو دبا دیتے ہیں اور طاقتور سے دب جاتے ہیں جیسا کہ ن لیگ بیانئے پر سوالیہ نشان ہونے کے باوجوداس کا سیاسی منظر نامے پر چھا جانا بھی سوالیہ نشان ہے لیکن دیگر سوالوں کی طرح اس کا جواب بھی نہیں مل رہاویسے عوام کو ملک مخالف بیانیوں سے کوئی خاص مطلب بھی نہیں انھیں بس روٹی سے مطلب ہے جو کہ فی الحال چھن چکی ہے اسلیے وہ مسیحا کی تلاش میں ہیں جوزف سٹالن نے ٹھیک کہا تھا! ایک دن اسٹالن اپنے ساتھ پارلیمینٹ میں ایک مرغا لایا اور سب کے سامنے ایک ایک کر کے اس کے پر نوچنے لگا ،مرغا درد سے بلبلاتا رہا مگر ایک ایک کر کے اسٹالن نے اس کے سارے پر نوچ ڈالے پھر مرغے کو فرش پر پھینک دیا ،جیب سے دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور چلنے لگا ، مرغا دانہ کھاتا ہوا اسٹالن کے پیچھے چلنے لگا اسٹالن دانہ پھینکتا رہا اور مرغا کھاتا ہوا پیچھے چلتا رہا ، اس نے اپنے کامریڈ کی طرف دیکھا اور کہا :”جمہوری سرمایہ دارانہ ریاستوں کے عوام اس مرغے کی طرح ہوتے ہیں ان کے حکمران عوام کا سب لوٹ کر پہلے انہیں اپاہج بنا دیتے ہیں بعد میں معمولی سی خوراک دیکر مسیحا بن جاتے ہیں“سچ پوچھیں تو ہماری موجودہ پستی ،جمود ،بے ضمیری ،اور عدم ثبات کیوجہ یہی ہے کہ ہم ذہناً ، طبعاً اور اخلاقاً محکوم اور بے مروت ہوگئے ہیں بایں وجہ ہماری اولادیں بھی اسی سانچے میں ڈھلتی جا رہی ہیں تبھی ہم اپنی لاشیں اٹھاتے رہتے ہیں کبھی بھوک اور کبھی اندھی گولی کا شکار ہو کر ۔
(جاری ہے)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.