حساب دینا پڑے گا !

جمعرات 15 اپریل 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

تبدیلی سرکار نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد صوبے میں رائج جو بلدیاتی نظام یکسرتحلیل کر دیا تھااسے سپریم کورٹ نے بحال کر دیا ہے جناب چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں لکھا کہ ”عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا تھا ،ایک نوٹیفیکیشن کا سہارا لیکر انہیں گھر بجھوانے کی اجازت نہیں دے سکتے ،آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت آپ قانون بنا سکتے ہیں لیکن منتخب ادارے ختم نہیں کر سکتے ، آپ کو کسی نے غلط مشورہ دیا ہے “ انھوں نے ایڈیشنل ایڈڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ بلدیاتی اداروں کو کیوں ختم کیا گیاتھا جس پر ایڈیشنل جنرل نے کہا کہ پنجاب میں نئی حکومت آئی تھی اس لئے اصلاحات لانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو قانون ابھی آیا ہی نہیں اس کی آڑ میں رائج قانون یا نظام کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ؟ واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے نیا آرڈیننس لاگو کرتے ہوئے ایکٹ 2019 کے تحت تمام بلدیاتی ادارے من پسند افسر شاہی کے حوالے کر دیے تھے اور نئے بلدیاتی نظام کا واحد مقصد صوبہ پنجاب میں حزب اختلاف کی جماعت ن لیگ کے بلدیاتی سطح پر اکثریتی طور پر موجود اثرو رسوخ اور انتخابی طاقت کو ختم کرنا تھالیکن اس نئے نظام سے غیر سیاسی عناصر اور ٹیکنو کریٹس کو ضرورت سے زیادہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں اور یہ نظام خیبر پختونخواہ کی طرح پنجاب میں بھی کامیاب نہ ہوسکا اور اب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 58 ہزار سے زائد بلدیاتی نمائندے بحال ہو گئے ہیں
کون نہیں جانتا کہ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا تھا جس میں کئی امور جرگہ اور پنچایت کے طریقہ کار سے مستعار لیے گئے تھے کہ یونین کونسل اور کمیٹیاں اپنے علاقے کا نیم خود مختار ادارہ تھا اور اسے ترقیاتی کام کروانے کے اختیارات تو حاصل تھے مگر باقاعدہ قانونی طور پر ہر یونین کمیٹی اورکونسل کی مصالحتی عدالت بھی تھی اور ایک الگ قانون کے تحت گلی یا محلے کے معاملات اسی کے ذریعے سے حل ہوتے تھے مصالحتی عدالتوں کی ترجیح مصالحت ہوتی تھی اور گھمبیرتا کی صورت میں مسئلہ عدالت یا کچہری جا تا تھا بلاشبہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نظام جب تک چلتا رہا معاشرتی توازن قائم رہا اور پولیس کی مداخلت بھی رک گئی تھی مگر کچھ کرتا دھرتا کو راس نہیں آیا اور اسے اتخابی ادارہ بنا دیا گیا جو بعد ازاں مخالفت کا شکار ہو کر اپنی افادیت کھو بیٹھاپھر بعد میں آنے والے آمر اور سویلین تمام حکمرانوں نے ان اداروں کو حصول مفادات کے لیے کٹھ پتلی ادارے بنا لیااور بلدیاتی نمائندے وڈیرہ شاہی طرز حکومت کے آلہ کار بن کر رہ گئے سوال تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد مقامی قیادت کے ذریعے عوامی مسائل کو عوامی سطح پر حکومتی وسائل بروئے کار لاکر حل کرنا تھا تو اس نظام کے تحت قائم ہونے والے اداروں نے عوام کو کتنا فائدہ پہنچایا ہے ؟ان اداروں کے لیے مختص کئے گئے فنڈز کی تفصیلات موجود ہیں مگر کہاں لگے اس کا حساب کس نے دینا اور کس نے لینا ہے ؟ کیا ان نمائندوں کی مدت پانچ برسوں کے حوالے سے ہی رہے گی جس کے ختم ہونے میں صرف سات ماہ باقی ہیں یا اس میں توسیع ہوگی ؟بلدیاتی نمائندوں کی قابلیت میں اچھی شہرت کو مدنظر رکھا جائے گا یا وفاداری کو؟ چونکہ ن لیگ نے بلدیاتی انتخابات کروانے میں ڈھائی سال حیل و حجت سے کام لیا تھا پھر عدالتی حکم پر انتخابات کروائے تھے اور ن لیگ بمقابلہ ن لیگ امیدوران کو میدان میں اتار دیا تھا جن میں بعض جرائم پیشہ افراد کے منتخب ہونے سے بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا دوسری طرف کٹھ پتلی نمائندے اتنے بے اختیار تھے کہ خود بھی تذبذب کا شکار تھے ؟ چلیں یہ تو ن لیگ کی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں تھیں مگر تبدیلی سرکار نے کیانیا کیا ؟کرونا کا سہارا لیتے ہوئے تین برس انتخابات ہی نہیں کروائے حالانکہ ضمنی انتخابات ڈنکے کی چوٹ پر کروائے جبکہ قسمیں اور دعوی ایسا نظام لانے کے تھے کہ دنیا دھنگ رہ جائے لیکن دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ریت کی دیوار اور عزم دودھ کا اُبال ٹھہرا۔

(جاری ہے)

ممکن ہے مذکورہ بحالی سے مسلم لیگ ن کی پوزیشن صوبے میں دوبارہ مستحکم ہو جائے گی
 شاید اسی خدشے کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب متحرک دکھائی دیتے ہیں اور کہا ہے کہ نادان دوست کہتے ہیں کہ پنجاب کو ریورس گئیر لگ گیا ہے حالانکہ ترقی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔اب پتہ نہیں ترقی ماپنے کا کونسا پیمانہ ہے جو اتنے بڑے لمحہ فکریہ کے باوجود ترقی کا راگ آلاپا جا رہا ہے کہ ہم کرونا ویکسین سمیت چینی اور کپاس بھی دشمن ملک بھارت سے درآمد کرنے جارہے ہیں کون جانے مئورخ اسے غداری یا عیاری لکھے گا کیونکہ کہا جارہا ہے کہ ملکی مفاد میں یہی بہتر ہے کہ امن کی بھاشا کو عام کیا جائے حالانکہ ماضی کی طویل تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ اگر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان وجود میں نہ آتا تو مسلمانوں کو مذہبی آزادی ، امن و سلامتی اور معیشت و سیاست میں کبھی نمایاں مقام نصیب نہ ہوتا درحقیقت امن کی بھاشا کا راگ آلاپنے والے پاکستان سے مخلص نہیں بلکہ منافق یا نادان ہیں !موجودہ سیٹ اپ میں ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ اچھے بھلے تجزیہ نگار اپ سیٹ ہوچکے ہیں کیونکہ جمہوریت کے طور اطوار آج افلاطون کے بیان کو سچ کر رہے ہیں چونکہ جمہوری اقتدار رکھنے والوں نے ارسطو کو حق گوئی پر زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا تھاتوا س نے کہا تھا کہ یہ جمہوریت بھی مفاد پرست اقتدار رکھنے والوں کا ٹولہ ہے جو عوام کا نام لیکر ہر طرح کی من مانی کرتے ہیں لہذا وہ طرز جمہوریت کے خلاف تھا اور مختلف سیاسی ادوار کا تقابلی جائزہ بتاتا ہے کہ آج کی جمہورتیں بھی ایسی ہی ہیں کہ جمہور کو الو بنا کر اقتدار حاصل کئے جاتے ہیں اور اختیارات ملنے کے بعد جمہور ہی کی درگت بنائی جاتی ہے لہذاوقت کا تقاضا ہے یا تو جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ قائم کیا جائے یا پھر یہ ڈرامے بازی ختم کر کے جیسے ہر چیز کسی نہ کسی کو رہن ،گروی یا ٹھیکے پر دی جارہی ہے اس پورے ملک کے بارے میں بھی سارے سیاستدان ملکر کوئی اسی قسم کی کوئی شاندار لوٹ مار کا پروگرام بنا لیں تاکہ ریاکاری ختم ہو اور عوام خوش فہمیوں سے باہر آجائیں اس سے کم از کم اتنا تو ہوگا کہ امن کی بھاشا کی بات کرنے والے لوگوں کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی یہ الگ بات ہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کے بہے خون اور عصمت گریوں کا حساب روز محشر کسی نہ کسی تو دینا پڑے گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :