حساب دینا پڑے گا !
جمعرات 15 اپریل 2021
کون نہیں جانتا کہ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا تھا جس میں کئی امور جرگہ اور پنچایت کے طریقہ کار سے مستعار لیے گئے تھے کہ یونین کونسل اور کمیٹیاں اپنے علاقے کا نیم خود مختار ادارہ تھا اور اسے ترقیاتی کام کروانے کے اختیارات تو حاصل تھے مگر باقاعدہ قانونی طور پر ہر یونین کمیٹی اورکونسل کی مصالحتی عدالت بھی تھی اور ایک الگ قانون کے تحت گلی یا محلے کے معاملات اسی کے ذریعے سے حل ہوتے تھے مصالحتی عدالتوں کی ترجیح مصالحت ہوتی تھی اور گھمبیرتا کی صورت میں مسئلہ عدالت یا کچہری جا تا تھا بلاشبہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نظام جب تک چلتا رہا معاشرتی توازن قائم رہا اور پولیس کی مداخلت بھی رک گئی تھی مگر کچھ کرتا دھرتا کو راس نہیں آیا اور اسے اتخابی ادارہ بنا دیا گیا جو بعد ازاں مخالفت کا شکار ہو کر اپنی افادیت کھو بیٹھاپھر بعد میں آنے والے آمر اور سویلین تمام حکمرانوں نے ان اداروں کو حصول مفادات کے لیے کٹھ پتلی ادارے بنا لیااور بلدیاتی نمائندے وڈیرہ شاہی طرز حکومت کے آلہ کار بن کر رہ گئے سوال تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد مقامی قیادت کے ذریعے عوامی مسائل کو عوامی سطح پر حکومتی وسائل بروئے کار لاکر حل کرنا تھا تو اس نظام کے تحت قائم ہونے والے اداروں نے عوام کو کتنا فائدہ پہنچایا ہے ؟ان اداروں کے لیے مختص کئے گئے فنڈز کی تفصیلات موجود ہیں مگر کہاں لگے اس کا حساب کس نے دینا اور کس نے لینا ہے ؟ کیا ان نمائندوں کی مدت پانچ برسوں کے حوالے سے ہی رہے گی جس کے ختم ہونے میں صرف سات ماہ باقی ہیں یا اس میں توسیع ہوگی ؟بلدیاتی نمائندوں کی قابلیت میں اچھی شہرت کو مدنظر رکھا جائے گا یا وفاداری کو؟ چونکہ ن لیگ نے بلدیاتی انتخابات کروانے میں ڈھائی سال حیل و حجت سے کام لیا تھا پھر عدالتی حکم پر انتخابات کروائے تھے اور ن لیگ بمقابلہ ن لیگ امیدوران کو میدان میں اتار دیا تھا جن میں بعض جرائم پیشہ افراد کے منتخب ہونے سے بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا دوسری طرف کٹھ پتلی نمائندے اتنے بے اختیار تھے کہ خود بھی تذبذب کا شکار تھے ؟ چلیں یہ تو ن لیگ کی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں تھیں مگر تبدیلی سرکار نے کیانیا کیا ؟کرونا کا سہارا لیتے ہوئے تین برس انتخابات ہی نہیں کروائے حالانکہ ضمنی انتخابات ڈنکے کی چوٹ پر کروائے جبکہ قسمیں اور دعوی ایسا نظام لانے کے تھے کہ دنیا دھنگ رہ جائے لیکن دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ریت کی دیوار اور عزم دودھ کا اُبال ٹھہرا۔
(جاری ہے)
شاید اسی خدشے کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب متحرک دکھائی دیتے ہیں اور کہا ہے کہ نادان دوست کہتے ہیں کہ پنجاب کو ریورس گئیر لگ گیا ہے حالانکہ ترقی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔اب پتہ نہیں ترقی ماپنے کا کونسا پیمانہ ہے جو اتنے بڑے لمحہ فکریہ کے باوجود ترقی کا راگ آلاپا جا رہا ہے کہ ہم کرونا ویکسین سمیت چینی اور کپاس بھی دشمن ملک بھارت سے درآمد کرنے جارہے ہیں کون جانے مئورخ اسے غداری یا عیاری لکھے گا کیونکہ کہا جارہا ہے کہ ملکی مفاد میں یہی بہتر ہے کہ امن کی بھاشا کو عام کیا جائے حالانکہ ماضی کی طویل تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ اگر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان وجود میں نہ آتا تو مسلمانوں کو مذہبی آزادی ، امن و سلامتی اور معیشت و سیاست میں کبھی نمایاں مقام نصیب نہ ہوتا درحقیقت امن کی بھاشا کا راگ آلاپنے والے پاکستان سے مخلص نہیں بلکہ منافق یا نادان ہیں !موجودہ سیٹ اپ میں ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ اچھے بھلے تجزیہ نگار اپ سیٹ ہوچکے ہیں کیونکہ جمہوریت کے طور اطوار آج افلاطون کے بیان کو سچ کر رہے ہیں چونکہ جمہوری اقتدار رکھنے والوں نے ارسطو کو حق گوئی پر زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا تھاتوا س نے کہا تھا کہ یہ جمہوریت بھی مفاد پرست اقتدار رکھنے والوں کا ٹولہ ہے جو عوام کا نام لیکر ہر طرح کی من مانی کرتے ہیں لہذا وہ طرز جمہوریت کے خلاف تھا اور مختلف سیاسی ادوار کا تقابلی جائزہ بتاتا ہے کہ آج کی جمہورتیں بھی ایسی ہی ہیں کہ جمہور کو الو بنا کر اقتدار حاصل کئے جاتے ہیں اور اختیارات ملنے کے بعد جمہور ہی کی درگت بنائی جاتی ہے لہذاوقت کا تقاضا ہے یا تو جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ قائم کیا جائے یا پھر یہ ڈرامے بازی ختم کر کے جیسے ہر چیز کسی نہ کسی کو رہن ،گروی یا ٹھیکے پر دی جارہی ہے اس پورے ملک کے بارے میں بھی سارے سیاستدان ملکر کوئی اسی قسم کی کوئی شاندار لوٹ مار کا پروگرام بنا لیں تاکہ ریاکاری ختم ہو اور عوام خوش فہمیوں سے باہر آجائیں اس سے کم از کم اتنا تو ہوگا کہ امن کی بھاشا کی بات کرنے والے لوگوں کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی یہ الگ بات ہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کے بہے خون اور عصمت گریوں کا حساب روز محشر کسی نہ کسی تو دینا پڑے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.