دوہرے معیار

پیر 18 نومبر 2019

Saad Iftikhar

سعد افتخار

مارچ 2019نیوزی لینڈ کے شہر کریسٹ چرچ میں ایک دہشتگرد اسلحہ سے لیس مسجد کے اندر گھس جاتا ہے اور مظلوم انسانوں پر اندھا دھند فائر کھول دیتا ہے ،سینکڑوں لوگ شہید ہوتے ہیں ،جب ایک جگہ پر لوگ ختم ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی حوس کی بجھانے کیلئے ایک دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے اور وہاں پر بھی مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے اور اس سارے واقعے کو وہ اپنے کیمرے میں ریکارڈ کر رہا ہوتا ہے ،جیسے کوئی ویڈیو گیم چل رہی ہو ،مختصراََ سینکڑوں لوگ شہید ہوتے ہیں کچھ کا تعلق پاکستان سے بھی تھا ،دہشتگرد کو پکڑ لیا گیا ، جسنڈا آرڈن جو کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ہیں انھوں نے اس سارے واقعے پر بڑا دکھ کا اظہار کیا اور مسلمانوں کیساتھ بڑھ چڑھ کر اظہار یکجہتی بھی کی۔


شہیدوں کے گھر گئیں ، کالی شلوار قمیض میں ملبوس جسنڈا شہیدوں کے گھر جا کر لواحقین سے گلے لگ لگ کر روتی ہے ،اس سارے معملات کومیڈیا نے نشر کیا تو یہ سارے مناظر ہم نے بھی دیکھے ،جسنڈا کو اسلامک کلچر میں دیکھ کر ہم تمام مسلمانوں کو ایک قسم کا اطمنان ہوا ، کہ وہ کیسے مسلمانوں کے سا تھ کھڑی ہیں ،کالا لباس پہننا جو کہ ہمارے ہاں سوگ کی علامت سمجھا جاتا ہے ، وہ زیب تن ہے، جسنڈا اپنی تقریر کا آغا ز اسلام علیکم کہہ کر شروع کرتی ہے ،اسلام کو امن پسند دین کے نام سے بلاتی ہے ،ان سب کاموں نے ہمارے دلوں میں جسنڈا کیلئے ایک عزت پیدا کر دی بلکہ ہم میں سے اکثر نے جسنڈا کے کالے لباس میں ملبوس تصویر کو اپنی پروفائل کا حصہ بھی بنایا اور لوگوں نے یہاں تک بھی دعائیں کیں کہ اللہ اس نرم دل عورت کو اسلام کی دولت سے نوازے ۔

(جاری ہے)

اب یہاں پر تھورا سا وقفہ لے کر ایک دوسری بات کو شروع کرتے ہیں اور پھر آخر میں دونوں کو کنکلیوڈ کر دیں گے ۔
بابا گرو نانک 1469کو پنجاب کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے ہی حاصل کی ،اصل میں گرونانک سکھ ازم کے بانی ہیں ،سکھ ازم ،اسلام ازم اور ہندو ازم دونوں سے کچھ کچھ مماثلت رکھتا ہے ،اسلام سے اس کی سب سے بڑی مماثلت یہ کہ سکھ بھی ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں ،وہ بھی بت پرستی کو حرام جانتے ہیں ،اسی بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق واحد و یکتا ہے،یہ دنیا فانی ہے ایک دن سب کچھ ختم ہو جائے گا اور بقا صرف اسی ہستی کو حاصل ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ۔

سکھ مذہب کی سب سے بڑی کتاب گرو گرنتھ صاحب ہے اسی کتاب کے والیم ون میں ہمیں توحید کا ذکر ملتا ہے،باباگرونانک نے سب سے زیادہ زور انسانیت کی خدمت پر دیا وہ انسانیت کی خدمت کو مذہب سے بالا تر ہو کر دیکھتے تھے جیساکہ ہمیں بھی اسلام انسانیت کو مذہب کے ترازو میں تولنے کی اجازت نہیں دیتا،باباگرونانک نے بہت سے صوفیا ء سے اکتساب فیض کیا جن میں بابا فرید ، بابا بلھے شاہ خاص ہیں ،اس کے علاوہ گرونانک کے سفر بیت اللہ کا ذکر بھی ملتا ہے جہاں پر جا کر انھوں نے خدا کی عبادت و ریاضت بھی کی ،بابا گرونانک نے تقریبا 6سال کا ایک لمبا عرصہ بغداد شریف میں بھی قیام کیا اور اس قیام کے دوران وہ مسلسل حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوتے رہے اور پھر ملتان قیام کیا جسے اولیاء کی زمین بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ تبت اور دیگر کئی شہروں میں قیام کے تاریخی شواہدملتے ہیں ۔


بابا گرونانک نے اپنی آخری زندگی کا ایک لمبا عرصہ کرتار پور میں گزارا ،جہاں پر لوگوں کی فلاح کیلئے کام کیا، لنگر خانہ قائم کیا ،کرتارپور میں ایک لمبا عرصہ گزارنے کے بعد گرونانک 1539کو فوت ہو گئے اور تاریخ کے مطابق گرونانک کی باقیات بھی کرتار پور میں ہی موجود ہیں ۔
کرتارپور ضلع ناروال میں انڈین بارڈر سے تقریبا 3یا4کلومیٹر کی دوری پرہے، کرتار پور سکھوں کے نزدیک وہی اہمیت رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے نزدیک مدینہ پاک اہمیت کا حامل ہے،ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اللہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ مدینے کی زیارت نصیب فرمائے اپنی دعاؤں میں اور کچھ مانگیں یا نہ مانگیں لیکن مدینے کی حاضری کی دعا ضرور مانگتے ہیں کیونکہ یہ عقیدت یہ احترام یہ محبت بھی مذہب ہی کا ایک جزو سمجھا جاتا ہے ۔

09نومبر 2019سے پہلے سکھ انڈین بارڈر پر لگی دوربین سے اپنے بزرگ کے مزار کا دیدار کرتے تھے لیکن ایک سال قبل حکومت پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت کرتار پور راہدری سکھوں کیلئے کھولنے کا اعلان کیا ۔اور 09نومبر کو وزیر اعظم پاکستان نے باباگرونانک کے 550جنم دن کیلئے کرتار پور راہداری کا باقاعدہ افتتاح کیا،ہزاروں سکھ پوری دنیا سے آئے اور اپنی مذہبی رسومات ادا کیں ۔


جہاں کرتارپور راہدری پر تنقید ہوئی وہاں وزیر اعظم پاکستان پر بھی خوب تنقید ہوئی کیونکہ یہ سارا پراجیکٹ وزیراعظم کی زیر نگرانی ہوا ہے ۔تنقید کی گئی کہ حج مہنگا کر دیا اور سکھوں کیلئے عبادت کو فری کر دیا ،وزیر اعظم نے سر پر رومال باندھ کر تقریب میں شرکت کی ،فلاں کیا فلاں کیا ،سوچنے کی بات یہاں پر یہ ہے کہ اگر ایسا ہی سب کچھ جسنڈا کرے تو وہ اچھی اور اگر عمران خان کرے تو وہ برا، جسنڈا اگر شلوار قمیض پہنے تو وہ اچھی اور اگر عمران خان سر پر رومال باندھے تو وہ برا ،جسنڈا اپنی تقریر کا آغاز ،،اسلام علیکم ،، سے کرے تو وہ سہی ہے اور اگر عمران خان ،،ست سری آکال ،،کرے تو وہ غلط ہے ،جسنڈا اسلام کو امن پسند دین کہے تو واہ واہ اور عمران خان گرو نانک کے اچھے کاموں کی تعریف کرے تو برا ،جسنڈا مسجد جائے تو نرل دل عورت عمران خان گوردوارے جائے تو اسلام سے دوری ۔

یہ دوہرے معیار کہاں سے آئے ؟ مذہب نے یہ سب باتیں تو ہمیں نہیں سکھائیں بلکہ حضور ﷺکے دور مبارک میں عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ ﷺ نے اپنی مسجد ان کی عبادت کیلئے کھول دی،ہمارا اسلام تو اس حد تک وسعت رکھتا ہے تو پھر یہ تنگ نظری ، یہ قدورتیں ،یہ نفرتیں ہمیں کس نے سیکھائی؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :